دنیا ایک امتحان گاہ ہے یہاں ہر ایک کو امتحان سے گزر نا ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش سے گزرتا ہے۔کوئی دولت شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت بھوک افلاس اور محکومی کے ذریعے توکوئی صحت تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اورمعذوری کی صورت میں آزمائش میں مبتلاہے۔اول الذکر آزمائش سے سرخروئی نسبتاً آسان ہے لیکن دیگر آزمائشیں بہت سخت ہوتی ہیں جیسے بہت زیادہ غربت بھوک اور افلاس ۔ لیکن ان سب میں معذوری سب سے کڑی آزمائش ہے اور بالخصوص اکتسابی معذوری بہت زیادہ تکلیف دہ اور صبر آزما ہوتی ہے۔لفظ معذوری سے مراد مختلف قسم کی جسمانی،ذہنی یا فکری کیفیت ہوسکتی ہے جیسے نقل و حرکت کے نقائص ،بصری نقائص،سمعی نقائص،ذہنی صحت(نفسیاتی)معذوریاں،فکری معذوری اوراکتسابی معذوری(Learning Disabilities)وغیرہ۔اکتسابی معذوری بنیادی طور پراعصابی خلل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔دماغ کے حصے مخ کبیر میں اگر نقص ہو تواکتسابی معذوری نمودار ہوتی ہیں۔مخ کبیر بنیادی طور پرزبان دانی،ذہانت اورفکری افعال کو سرانجام دیتا ہے اور مخ کبیر کو ذہانت کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔اکتسابی معذوری میں ڈسلیکسیا(Dyslexia)،آٹزم جیسے عوارض شامل ہیں۔اکتساب سے مربوط مسائل کے لیئے وسیع طو ر پر اکتسابی نقائص کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔اکتسابی معذوری کوئی ذہنی معذوری نہیں ہے ۔اکتسابی معذوری کا شکار افراد سیکھنے کے عمل میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچوں کو کند ذہن اور کا ہل بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔اکتسابی معذوری سے متا ثر بچے دیگر بچوں کی طر ح ذہین،ہوشیار اور عقلمند واقع ہوتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار بچے استاد کی اکتسابی معذوری سے عدم آگہی کے باعث روزانہ کمرۂ جماعت میں استاد کی معلمانہ جہالت کا شکار بنتے ہیں۔اکتسابی معذوری کا شکار طالب علم اپنے استاد سے فریاد کر تا ہے کہ استاد جی اگر میں آپ کے پڑھائے جانے والے طریقے سے علم حا صل کرنے میں ناکام ہوجاتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس طریقے سے پڑھائیں گے جس طریقے سے میں سیکھ سکتا ہوں۔طالب علم کی یہ فریا د قابل غور ہے اور اس امر کا اظہار بھی ہے کہ اکتسابی معذوری سے دوچار طلبہ میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہوتا ہے بلکہ ان میں بھی صلاحیتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اکتسابی معذوری کا شکار طلباء کی ضرورتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی تدریسی فرائض انجام دیں۔اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی خدمات کی انجام دہی سے قبل اساتذہ کو تعلیمی معذوری سے واقفیت ضروری ہے۔اگر اساتذہ اکتسابی معذوری سے آگہی نہیں رکھتے ہیں تب اکتسابی معذوری سے متاثر طلبہ کی تعلیمی ترقی مجروح ہوجاتی ہے۔1978میں گراس میان(Gross Man)نے اکتسابی معذوری جیسی اصطلاح سے تعلیمی دنیا کو متعارف کروایا۔گراس میان کے مطابق اکتسابی خرابی سے مراد ہر وہ شئے جیسے ذہنی(Mental)،ادراکی نقائص(Perception handicap)،اعصابی خرابیاں(Neurological Dysfunctioning)،نا پختگی(Immaturity)جذباتی مسائل(Emotional Problems)،برتاؤ کے مسائل(Behaviourial Probelems) سماجی ثقافتی مسائل جو اکتسابی عمل میں مانع و حائل ہوتی ہیں۔
اکتسابی معذوری کا شکار بچے اشیاء کو عام بچوں سے مختلف طریقے سے دیکھتے ،سنتے اور سمجھتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ نئے معلومات اور مہارتوں کو سیکھنے اوربرؤے کار لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ عام طور پر اکتسابی معذوری میں پائی جانے والی خرابیوں میں پڑھنے میں دشواری ،لکھنے میں دشواری،ہجے کرنے میں تکلیف ،ریاضی کو سمجھنے میں دشواری اور استدلال کی کمی شامل ہیں۔اکتسابی معذوری کو ہر گز ذہنی معذوری(Mental Retardation)اور حرکی نقائص(Sensory dysfunction) پر محمول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہر اسکول میں 8تا 10 فیصد طلبہ اکتسابی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔ان میں کچھ معمولی نوعیت کے اور کچھ سنگین نوعیت کے ہوتے ہیں ۔اکثر موقعوں پر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ اساتذہ کی توجہ حا صل کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں یا پھر اساتذہ ان کے مسائل کو قابل اعتنا ء ہی نہیں سمجھتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں عام بچوں کی طرح تعلیمی دلچسپی اور حصول علم کی پیاس شدت سے پائی جاتی ہے لیکن کمرۂ جماعت کی روایتی تدریس کی وجہ سے وہ تعلیمی پیش قدمی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اغلاط پر غور و خوص کرنے اور اصلاحی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے اساتذہ کی ڈانٹ پھٹکار اور عتاب کی وجہ سے اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ حصول علم کے سفر میں قابل قدر پیش رفت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔اساتذہ بچوں کے تعلیمی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جب ان کی عزت نفس کو بھی مجروح کردیتے ہیں تب وہ دباؤ کا شکار ہوکر تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔اکتسابی معذوری جو کہ پہلے ایک پوشیدہ نصابی معذوری کے طور پر نمودار ہوتی ہے آگے چل کر بچوں کے لئے نصابی،لسانی،سماجی اور نفسیاتی خسران کا سبب بن جاتی ہے۔طلبہ مطلوبہ تعلیمی اوصاف رکھنے کے باوجود جب حصول علم میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں تب اس کو اکتسابی معذوری کی ایک علامت سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ینگ(Young)اورٹائر(Tyre)کے مطابق روایتی کمرۂ جماعت کی تدریس کے باوجود لسانی مہارتوں جیسے پڑھنے ،لکھنے ،ہجے اور دانشوارانہ صلاحیت کے حصول میں طلبہ اکتسابی معذوری کے باعث ناکام ہوجاتے ہیں۔اکستابی معذوری کا شکار طلبہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر قوت تخیل کے حامل ہوتے ہیں لیکن نصابی سرگرمیوں کی انجام دہی میں ناکامی کے سبب بچوں کی صلاحیتوں اور نصابی مظاہروں میں ایک خلیج پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا تعلیمی طو ر پر پسماندہ طلبہ میں شمار ہونے لگتا ہے۔ اکثر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں تخلیقی صلاحیت ،فنکارانہ صلاحیتیں اور دیگر غیر معمولی اوصاف بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جس کے بل پر وہ ایک تخلیق کار ،فنکار ،مصور،سنگ تراش وغیر ہ بن سکتے ہیں۔اسکولی تعلیم کے دوران منعقد شدنی امتحانات میں تعلیمی معذوری کی وجہ سے خراب مظاہرے کی بناء ہم قطعی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچے زندگی میں ناکامیوں کا شکارہوجائیں گے اور ایک ناکام زندگی گزاریں گے۔تھامس ایلوا ایڈسن اپنی سوانح عمر ی میں لکھتا ہے کہ اسکولی تعلیم کے زمانے میں وہ اکتسابی معذوری کا شکار تھا جس کی بناء پر اسکول کی ٹیچر نے اس کی والدہ کو خط لکھ کر ایڈسن کو اسکول بھیجنے سے منع کردیا۔جب ایڈسن کی ماں نے خط دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ماں کو روتا دیکھ کر ایڈسن پوچھتا ہے کہ وہ کیوں رو رہی ہے ۔ایڈسن کی ماں کہتی ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ اس کی ٹیچر اس کو نہیں پڑھا سکتی ہے۔آج سے وہ خود اپنے بیٹے کو پڑھائے گی۔ماں کی توجہ اور التفات کا ایڈسن پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ اکتسابی معذوری کے باوجود دنیا کا ایک عظیم اور نامور سائنسدان بن گیا۔دس ہزار سے زائد ایجادات ایڈسن سے منسوب ہیں۔البرٹ آئنسٹائن کو کون نہیں جانتا، اس کا شمار دنیا کے فطین اور زیرک افراد میں ہوتا ہے۔البرٹ آئنسٹائن تعلیمی معذوری کے سبب ابتدائی جماعتوں میں اساتذہ کی غیر معمولی عتاب اور درشت رویہ کا شکار تھا لیکن اس کے ماموں کی توجہ اور شفقت نے اسے ایک نابغہ روزگار شخص بنا دیا اور نوبل انعام کا حقدار ٹھہرا۔ آگستے روڈون ایک معروف فرانسیسی آرٹسٹ تھااسکول میں اساتذہ اسے سب سے نکمہ طالب علم قرار دیتے تھے اساتذہ نے اس کے والدین کو مشورہ دیا تھا کہ اسے اسکول بھیجنے کے بجائے کوئی دوسرا کام سکھایا جائے۔امریکہ کے اٹھائیسویں صدر ووڈروولسن نے نو سال کی عمر کے بعد حروف لکھنا سیکھا۔اکتسابی معذوری کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا ان افراد نے منوایا کیونکہ ان کو ایک مخلص اور شفیق استاد ماں ،ماموں وغیرہ کی شکل میں میسر ہوئے۔اکتسابی معذوری کے شکار طلبہ کو ایڈسن ،آئنسٹائن اور دیگر کی طر ح ایک مشفق اور ہمدرد استاد کی ضرورت ہے۔ اساتذہ ،والدین اور تعلیم سے وابسطہ افراد بچوں کے نصابی مظاہرے کے بل پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں جو کہ تعلیمی مقاصدکے مغائر ہوتے ہیں۔اساتذہ اگر اکتسابی معذوری سے واقف ہوجائیں تب وہ طلبہ میں پائے جانے والی اکتسابی معذوری کی نہ صرف شناخت کے قابل ہوجائیں گے بلکہ اس کے سد باب کے لئے بھی آگے آئیں گے۔اساتذہ طلبہ کی اصلاحی تعلیم(Remedial Education) کے ذریعے طلبہ کی زندگیوں میں عظیم انقلاب بر پا کرنے والی ذات بن سکتے ہیں۔
اکتسابی معذوری کی اہم قسمیں؛۔اکتسابی نقائص مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں مثلا پڑھنے میں پیش آنے والی دقت،لکھنے میں (املے کا) نقص ، تو جیہ واستدلال کا نقص،نقص قوت شامہ،علم الاعداد (Arithmetic)کا نقص وغیرہ ۔یہ نقائص دماغ کے بعض گو شوں کی غیرمتنا سب نشو نماء کی بناء پر پیدا ہو تے ہیں۔اکتساب سے جڑے نقائص میں ذیل کے پانچ نقائص قابل ذکرہیں۔
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( (2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia) (3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion) (4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)(5)جملوں کو پڑھنے میں الجھن (Dysphasia) اورجملوں کو لکھنے میں الجھن (Aphasia)
(1) پڑھنے میں الجھن(Dyslexia ( ؛۔ڈسلیکسیا تعلیم اور نفسیات میں استعما ل ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔جدید ماہرین تعلیم اس اصطلاح کو تعلیم اور تدریس کے حوالے سے اکثر استعمال کرتے ہیں۔اس اصطلاح کوخاص طور پر لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات کے زمرے میں استعمال کیا جاتا ہے۔Dyslexiaدو یونانی الفاظ Dysاور Lexia کا مرکب ہے۔Dysکا معنی غیر منظم اورLexiaکا مفہوم ہے الفاظ، یعنی ڈسلیکسیا کا مفہوم ہوا الفاظ کا غیر منظم اور غیر موزوں استعمال۔بعض ماہرین اس کو حروف کے اندھا پن (Word Blindness) سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ڈسلیکسیا طلبہ میں پایا جانے والا ایک ایسا عارضہ ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو الفاظ یا د کرنے،تحریر کرنے اور پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پڑھنے ،لکھنے ،سننے ،بولنے،اور ہجے (Spelling)کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں اور یہ معذوری عصبیاتی خرابی خاص طور پر بصری اور لفظی ارتباط (Visual-verbal association)میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ڈسلیکسیا سے متاثر بچے کم از کم اوسط درجے کی ذہانت اور قابلیت کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں یہ معذوری ذہانت یا قابلیت کی کمی کی بناء پر پیدا نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں الفاظ کے منظم اورموزوں استعمال اور فہم کی اہلیت ٹھیک طر ح سے پروان نہیں چڑھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ڈسلیکسیا کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اساتذہ کی مناسب مدد اورنارمل پیئر گروپ کے اختلاط سے اس کو بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے ۔اس سلگتے تعلیمی مسئلے پر ہمار ے ملک ہندوستان میں ایک بہترین فلم تارے زمیں پر بھی بنائی گئی ہے جس میں اس معذوری کا کما حقہ احاطہ کرنے کے علاوہ تدارک اور سدباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تارے زمیں کے رائٹر امول گپتا کا ایک قول میں یہاں نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں’’ مسئلہ بچوں کا نہیں نظام تعلیم کا ہے۔یہ بچوں کو مریض بنارہے ہیں۔آپ کسی بچے کو مار پیٹ کر قابل نہیں بنا سکتے ۔‘‘
(2)لکھنے میں الجھن یااملے کی دقت(Dysgraphia)؛۔تحریر سے متعلق بچوں میں پائے جانے والی معذوری کو ڈسگرافیا کہا جاتا ہے ۔ڈسگرافیا سے متاثر طلبہ ٹھیک طور پر لکھ نہیں پاتے ہیں۔لکھنے سے متعلق یہ معذوری بصری اور حرکی افعال (Visual-Motor Act)میں ارتباط کے فقدان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔بصری و حرکی افعال کے ارتباط میں نقص کے باعث یا داشت پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ڈسگرافیا کی وجہ سے بچے از خود لکھ نہیں پا تے اور ان کا خط بھی بہت شکستہ ہو تا ہے ایسے بچوں کو اصلاحی مشقوں Remedial Exercises))کے ذریعہ عام دھا رے میں لایا جا سکتا ہے
(3)تصور قائم کرنے میں ناکامی(Revisualistion)؛۔بعض طلبہ پڑھے ہوئے اور لکھے ہوئے حروف کی صورت گیری یا تصور قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں ایسے طلبہ میں تصوراتی حافظے کی خامی پائی جاتی ہے۔ وہ بہ آسانی گفتگو کرسکتے ہیں لکھ پڑھ سکتے ہیں اور نقل بھی کرسکتے ہیں لیکن حافظہ کے بل پر حروف یا الفاظ کو نہیں لکھ پاتے ہیں۔
(4)علم الا عداد میں الجھن(Dyscalculia)؛۔علم الا عداد میں الجھنDyscalculia) ) کی بناء پر بچے معمولی حسا ب کتاب بھی نہیں کر پا تے ۔اگر اس کی ابتد اء میں نشاندہی ہو جا تی ہے تو اس پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مذکورہ نقائص معمولی اور غیر معمولی قسم کے ہوتے ہیں معمولی قسم کے نقائص والے بچوں کو نا رمل بچوں کی جماعت میں ہی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
(5)الفاظ اورجملے پڑھنے میں دقت کو(Dysphasia) کہاجاتا ہے ہیں۔الفاظ کی قرات میں ناکامی کی وجہ سے جملہ سازی،جملہ بندی بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کو (Aphasia) کہاجاتا ہے ۔ چھپے ہوئے مواد کو بھی پڑھنے میں دقت کا سامنادیگر اکتسابی معذوری کی طرح اسکولی بچوں میں پائے جانے والی ایک اور اکتسابی معذوری ہے۔
اکتسابی معذوری کی علامات؛۔ عا م مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ اکتسابی نقائص کا شکا ر طلبہ تختہ سیاہ سے اورکتا بوں سے الفاظ کو اپنے نو ٹ بک میں تحریر کر نے میں دقت محسوس کر تے ہیں کیو نکہ وہ الفاظ کو پڑھنے اور لکھنے میں تذبذب کا شکا ر ہو جا تے ہیں اور اسی بناء پر کسی حرف کا معکوس حرف تحریر کر تے ہیں۔ الفاظ و حروف کی شناخت میں تذبذ ب کی بناء پر عبا رت خوانی (پڑھنے )میں بھی دقت محسوس کر تے ہیں۔ایک مشفق و تجربہ کار استا د کی اگر رہبر ی میسر آجائے تو یہ طلبہ اپنے نقائص پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سماج پر بوجھ بننے کے بجائے سما ج کا ایک فعال حصہ بن جا تے ہیں۔لیکن حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر اکتسابی نقائص کا شکار بچے موثر رہبری کے فقدان کے باعث اپنا تعلیمی سفر منزل پر پہنچے سے پہلے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
اکتسابی معذور طلبہ کی تدریس کیسے انجام دی جائے؛۔بچوں کی اصلاحی تدریس کے فرائض کی انجام دہی سے قبل استاد بچوں کی مخصوص معذوری ،جذباتی ،برتاؤ کی خرابیوں کے علاوہ بچوں میں پائے جانے والی خوبیوں کا پتہ لگائیں۔بعض مرتبہ نقائص کی شناخت کے لئے پیشہ وار حضرات جیسے ماہرین تعلیم ،معالج ،ماہر امراض نفسیات اور اعصابی امراض کے ماہرین کی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔استعداد و مہارت کے معیار کی جانچ کے لئے مہارتوں اور استعداد کے امتحانات(Tests)کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں نصابی سرگرمیوں کی بہتری اور فروغ میں اساتذہ درج ذیل امور کو اختیار کرتے ہوئے فعال کردار انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ میں اکتسابی مشقوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کردیں۔ تاکہ ہر مشق کی تکمیل کے بعد طلبہ کو اطمینان اور مسرت کا احساس ہو سکے۔مشق کی کامیاب تکمیل کا احساس طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔بچوں میں الفاظ کو لکھنے اور پڑھنے کے لئے وافرمشقوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔الفاظ کی ترکیب ،الفاظ کو جوڑنے اور علیحدہ کرنے کی سرگرمیاں طلبہ کو تفویض کریں تاکہ ہجے کرنے(Spelling) کی استعداد کو پروان چڑھایا جا سکے۔طلبہ کے معیار کی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا لیں اور مناسب تحریر ی قواعد سے نہ صرف طلبہ کو روشناس کریں بلکہ ان قواعد کو ان کے ذہن میں پیوست کردیں جس سے ان میں تحریر کی صلاحیت پروان چڑھے گی ۔طلبہ میں ادراکی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے منظر کشی اور اس کے اظہار کے مواقع فراہم کیئے جائیں۔الفاظ کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے نقل کرنے اور ان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔ ٹھوس،نیم مادی اور تجریدی تصوراتی تدریس کے ذریعہ طلبہ میں علم الاعداد کی مہارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔حرکی ادراکی مہارتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ پہلے اکتسابی طور پر معذور بچوں کو معاون تدریس اشیاء کے استعمال کے ذریعہ جیسے زاویوں،منحنی خطوط،اور دائروں کو اتارنے کی تربیت دیں اور پھر بعد میں معاون تدریس اشیاء کی مدد کے بغیر مذکورہ افعال انجام دینے کے لئے طلبہ کو تیار کریں۔اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ کو تیز تیز اور بہت زیادہ لکھنے کا کام تفویض نہ کریں۔ابتدائی مراحل میں زبانی امتحان پر ہی اکتفاء کرنا بہتر ہوتا ہے۔تعلیم سے بچوں کو مانوس کرنے کے لئے پہلے ان میں اعتماد پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ان کے بہتر کام پر تعریف و توصیف سے کام لیں۔سزا و جزاء کے ذریعہ طلبہ کو متحرک و فعال رکھا جا سکتا ہے۔انفرادی ،اصلاحی ،اختراعی تدریسی طریقوں اور اسکول کے روزمرہ کی روایتی سرگرمیوں میں تبدیلی لاکر اکتسابی معذوری کا شکار طلبہ میں اکتساب کے عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔کھیل کھیل میں تعلیم والی سرگرمیوں جیسے الفاظ کا تجزیہ،اعادہ ،ترتیب و بندش اکتسابی معذور طلبہ میں تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔بچوں کی تعلیمی استعداد کے مطابق سہل اور ترمیم شدہ اصلاحی سرگرمیوں کو جو اکتسابی معذور طلبہ کے لئے سود مند ہو شامل تدریس کرنا ضروری ہوتا ہے۔اکتسابی معذور طلبہ کے لئے مستعمل طریقہ تدریس سے والدین کو آگا ہ کر نا ضروری ہوتا ہے تاکہ دونوں جانب سے بچے کی بہتر ی کو یقینی بنایا جائے۔والدین اساتذہ اور تعلیم سے وابسطہ افراد کی اجتماعی کاوشوں سے اکتسابی معذور طلبہ کی ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ہمہ جہت ترقی کو یقینی بناتے وقت اکتسابی معذور طلبہ کی تعلیمی ضروریات کا خاص خیال رکھا جا نا ضروری ہے۔طلبہ کو زندگی کے لئے معاون مہارتوں سے لیس کریں تاکہ وہ سماج کے لئے ایک کار آمد اور بہترین شہری ثابت ہوں۔اساتذہ اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی اور تعلیمی خسارے سے پاک تدریس کو اختیار کرتے ہوئے اعلی اقدار کو پروان چڑھانے کے ساتھ اپنے فرائض سے عہدہ براں ہوسکتے ہیں۔
1 تبصرہ
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
درسگاہیں بنیں تھیٹر
سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔
ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔
ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔
چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔
پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔
اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ "دیوث" کو عملاً سمجھ لیا۔
ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ...
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
بہترین. بہت سادہ زبان میں ساری باتیں سمجھا دی۔
شکریہ 👍