بچوں میں ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کو کیسے مہمیز کریں؟ 

تعلیم کا بنیادی مقصد خودی کی تلاش اوربازیافت ہے۔ملک و قوم اور دنیا کا مستقبل نئی نسل کی تخلیقی و ذہنی نشوو نما کے رہین منت ہے۔طلبہ کے پوشیدہ جو ہر کو دریافت کرنا اور ان کو نکھار کر ملکی و قومی تعمیر کے لئے بامعنی بنانا ابتدائے آفرینش سے ہر استاد کا شیوہ و شعار رہا ہے۔ندرت ،تخلیقیت اور انفرادیت طلبہ کی شخصیت سازی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ماضی میں تخلیقیت اور اختراعی افعال یا افکار کو اعلی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ تحقیق اور معلومات کی بنا پرتخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت کو دو مختلف عوامل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ماضی قریب میں اعلی ذہانت (I.Q)کے حامل طلبہ کو فطری طور پر تخلیقیت سے بھر پور سمجھا جاتا تھاجس کو جدید تحقیق نے محض ایک خام خیالی قراردیا ہے۔اللہ نے تما م کائنات کو بنایا بلکہ بہت خوبصورت بنایا۔ ہم کوکائنات کی ہر شئے میں ایک ربط باہم نظر آتا ہے ۔کائنا ت کی ہر شئے سے ٖخالق کائنات کا نظم و ضبط(ڈسپلن)،خوبصورتی اورحسن انتظام ہویدا ہے جس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ڈسپلن ،خوبصورتی اور حسن انتظام کو پسند فرماتے ہیں۔ سورہ تین کے مطالعے سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے۔تقویم کا یہ حسن صرف ظاہر ی ،جسمانی حسن و جمال ہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی غور و فکراورتدبیر و تدبرجیسی بے شمار صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔سورہ رحمن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ’’ہم نے انسان کو بیان کرنے کا علم دیا ‘‘اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بیان و اظہار کے وہ تمام وسائل جس سے تعلیم و تربیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں انسان مثبت تبدیلیوں کا نقیب بن سکتا ہے۔ آج کا دور معیار، مہارت اور تخلیقیت کا دور ہے۔آج تعلیم و تربیت اور زندگی کے تما م شعبوں میں ایک نمایاں جدت اور ارتقاء کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں قوت تخیل اور تخلیقیت(Creativity) اپنے وقت کے اعلی معیار کو چھورہی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے انسانی عظمت کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے تخلیق کو دراصل تقلید اور جمود کی مسماری اور ایک نئی دنیا کی تعمیر قرار دیا ہے۔کسی بھی تعمیر ی کاز کے لئے تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان میں یہ تعمیری جرات( جسے ہم تخلیقی فکر سے بھی عبارت کرتے ہیں) ،حوصلہ اور اعتماد،علم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں بنایا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت نہ ہو۔تخلیقی قوت جب قوموں سے رخصت ہوتی ہے تو اس کی وجہ ان میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان اور عدم وجود نہیں ہوتا ہے بلکہ جدت اور تخلیقی فکر کا اپنی روایات اور ہٹ دھرمی کے باعث انکار و رد ہوتا ہے ۔ روایا ت اور جمود میں جکڑے تعلیمی نظام میں تخلیقی بات کہنے کا مطلب ہے ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا۔ جب یہ صورت حال وجود میں آتی ہے تب کسی بھی قوم کی عظمت پر زوال کے گہن لگنے لگتے ہیں۔بقول علامہ اقبال
آئین نو سے ڈر نا ،طرز کہن پہ اڑنا منز ل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تخلیقی فکر اگر موجود ہوتو ہر طرح کے حالات میں راستہ نکل سکتا ہے۔بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اس کو فروغ دینا ہر استاد کا فرض اولین ہوتا ہے۔اساتذہ کے لئے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ذہانت اور تخلیقیت میں ایک اٹوٹ وابستگی ضرور ہے لیکن یہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور علیحدہ ہیں۔ذہانت علم،مہارت اور معلومات کی شکل میں تخلیقیت کو نہ صرف وجود میں لاتی ہے بلکہ اس کی نشوونما میں کلید ی کردار انجام دیتی ہے۔مدارس ہی معاشرے کے وہ ادارے ہوتے ہیں جہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے اور تخلیقیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔بچوں میں تخلیقی فکر اور رجحان پیدا کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مدارس اوروالدین پر عائد ہوتی ہے۔اسکولی تعلیم کے اہم مقاصد میں ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کا ادراک ،طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت و نشاندہی اور طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت انسان میں پائے جانے والی تمام صلاحیتوں میں نہایت اعلی و ارفع مقام رکھتی ہے۔کسی بھی شخص کے نظریات ،افعال و افکار اس کی تخلیقی صلاحیت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت اللہ تعالی کا عطاکر دہ ایک بیش بہا تحفہ ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔جدید طرز تعلیم میں تخلیقیت کو غایت درجہ کی اہمیت حاصل ہے۔آج کے دور میں انسانی ترقی و ارتقاء میں تخلیقی مزاج کو ایک موثر طریقہ تدریس کے طور پر اختیار کیا جارہاہے۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کو متنفر کرنے والے سخت ،روایتی اور قدیم طرز تدریس سے نہ صرف اجتناب کریں بلکہ طلبہ میں تخلیقی فکر ،ندرت اور قوت تخیل کو پروان چڑھائیں۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں پیدا کیا ہے جس میں کوئی نہ کوئی تخلیقی صلاحیت موجود نہ ہو۔ہر آدمی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔اسکولس تخلیقی صلاحیتوں کو وجود بخشنے اور پروان چڑھانے والے مراکز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اسی لئے مدارس پر بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور فروغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کسی بھی طالب علم میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(1) اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تخلیقی طریقہ تدریس پر عمل پیر ا ہوکر طلباء میں تخلیقی کیفیت کو بیدار کریں۔
(2)طلباء کی تخلیقی کیفیت پر موثر ردعمل کے ذریعہ تخلیقی فکر کی پرورش اور نشوو نما۔
(3)تخلیقی فکر و صلاحیتوں کو فروغ دینے والے ماحول کی فراہمی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے۔‘‘قوت تخیل ہی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔اسی لئے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ان کو ان کی خیالی دنیا میں آباد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں کے خیالی پلاؤ ہی دراصل ان کی اصل کیفیات کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔عظیم فنکاروں،موجدوں،اور مصنفوں نے تعلیم میں ہمیشہ جدت اور قوت تخیل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے دنیا میں جتنے بھی تخلیقی کام کئے گئے ہیں ان میں پرانے تصورات اور اشیاء کو نئے اندازی میں دیکھا گیا ہے۔نیوٹن نے جب سیب کو گرتے دیکھا تو یہ نیوٹن اور دیگر افراد کے لئے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں تھی ۔لیکن نیوٹن نے اس سیب کے گرنے کے عمل کو ایک خاص جدید انداز میں دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں گر رہا ہے اوپر کیوں نہیں جا رہا ہے۔نیوٹن کی اس جدت فکر کا نتیجہ کشش ثقل (Gravity)ہے جس سے دنیا نا واقف تھی۔ اسکولس میں بچوں کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے والے طریقہ ہائے تدریس کی اشد ضرورت ہے جس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے۔ماہرین نفسیات نے بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو تخلیقی فکر کے وجود کا سبب قرار دیا ہے۔ہم غلطیاں کرنے اور ان کے اقرار سے گھبراتے ہیں جب کہ غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ کا وجود میں آناتقریبا نا ممکن ہے۔ہمارا تعلیمی ماحول تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کر تا ہے اگر بچہ جب استاد کے کسی سوال کے جواب میں استاد کے متوقع خیال کے برخلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تب استاد بچہ کی ہمت افزائی کے بجائے اس کے خیالات کو یکسر رد کرتے ہوئے بچوں میں تخلیقی فکر کے فروغ پر پابندیاں عائد کردیتا ہے۔اساتذہ اکثر اوقات بچوں کی نئی سوچ کو رد کردیتے ہیں اور ان کا طریقہ تدریس و تعلیم ہمیشہ محدود طریقہ کار کے اردگرد گردش کرتا رہتا ہے۔
اکثر اساتذہ تخلیق سے زیادہ تربیتی کاوشوں پر وقت صرف کرتے ہیں۔علم نفسیات کے مطابق بچوں کے لئے سب سے بد ترین چیز بچوں کو مباح کاموں میں روکنا ٹوکناتخلیقی فکر کی نشو ونما میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔درخت کی مناسب نشوونما کے لئے اس کی شاخوں کو تراشنا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ سیدھا اور بلند ہوجائے ۔ اسی طرح بچوں تک کونسی معلومات پہنچائی جائے اور کونسی نہیں یہ بہت ہی ضروری ہے ۔علمی انفجار کے اس دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔آج مختلف ذرائع سے معلومات کا ایک سیلاب امڈاچلا آرہاہے۔اساتذہ اور والدین کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بچوں کو کونسی معلومات فراہم کریں اور کس سے باز رکھیں جو ان کے حصول علم میں معاون ہو ،قوت تخیل کو بال و پر اور تخلیقی صلاحیتوں کو پرواز عطاکرے۔مروجہ اور روایتی افکار سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں مجروح ہوجاتی ہیں اور وہ روشن لکیر پر چلنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔بچوں میں آزادانہ غور و فکر کی اگر عادت پیدا ہوجائے تو وہ محیر العقل کارنامے انجام دیتے ہیں۔روایتی سوچ کی تباہ کاریوں کے ضمن میں ایلس ہووے سلائی مشین کے موجد کا واقعہ چشم کشا ثابت ہوسکتا ہے۔ایلس ہووے (Elis Howe)نے 1845میں سلائی مشین بنائی۔اس مشین میں میں سوئی میں روایتی طریقے کے مطابق چھید اوپر کی جانب تھا جس کی وجہ سے مشین کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔جس کی وجہ سے ایلس ہوے اپنی مشین سے صرف جوتے ہی سی سکتا تھا۔ایک عرصے تک ایلس ہوے اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا ایک رات اس نے خوا ب دیکھا کہ اس کو وحشی قبیلے کے آدمیوں نے پکڑلیا ہے ۔انھوں نے اسے ٖحکم دیا کہ اگر وہ چوبیس گھنٹے میں سلائی مشین تیار نہ کر سکا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔مقرر ہ چوبیس گھنٹے میں وہ سلائی مشین بنانے میں ناکام رہ ۔قبیلے کے لوگ اس کو مارنے کے لئے ہاتھوں میں برچھے تھامے دوڑنے لگے۔ہووے نے دیکھا کہ ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ بنا ہواہے۔یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو سلائی مشین بنانے کا سراغ مل چکا تھا۔اس نے بر چھے کی طر ح سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بناکر اس میں دھاگا ڈالا۔پہلے چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی اب وہی مشین نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی تھی۔ابتدا میں ایلس ہووے کی ناکامی روایتی فکر کی وجہ سے ہوئی تھی وہ یہی سوچ رہاتھاکہ ہاتھ کی سوئی کا چھید اوپر کی جانب ہوتا ہے اور جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے وہی صحیح ہوگی۔ جب اس کے لاشعور نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا اس وقت وہ معاملے کی تہہ تک پہنچا اور مسئلہ کو فورا حل کر لیا۔جب انسان اپنے آپ کو کسی کام میں ہمہ تن مشغول کردیتا ہے تب وہ قدرت کے سربستہ رازوں کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے جیسیایلس ہووے نے سلائی مشین کی ایجاد انجام دی۔
فکر کی جدت،ندرت خیال اور تخلیقی سوچ کے فروغ میں البرٹ آئن سٹائن کا قول بہت زیادہ اہمت کا حامل ہے’’ْذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شد ید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘اساتذہ اگر اپنے آپ کو اوسط درجے سے اونچا دیکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احترام کرنا سیکھیں۔ماہرین نفسیات میں تخلیقی صلاحیت و افکار کے خداداد اور پیدائشی ہونے پراختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کا ماننا ہے کہ تخلیقی فکر پیدائشی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کے مطابق’’تخلیق کے بارے میں اکثر سمجھا جا تا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پر اسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے۔لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘‘ایلس ٹیسن کی تحقیق نے والدین،اساتذہ اور اسکولوں کی ذمہ داری میں اضافہ کر دیا ہے۔بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے جب تما م راستے کھلے ہیں تواساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہوجائے۔بعض ماہرین نفسیات کے مطابق تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے ۔ماحول اس کو صرف نکھار تا یا بگاڑتا ہے۔اگر اس بات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی ان صلاحیتوں کو جلانے اور نکھارنے کے طریقے اور تدابیر اختیار کرنا اساتذہ کے لئے ضروری ہے۔اب اساتذہ کے لئے مفرر کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔تخلیقی اظہار اور طریقہ کار کو جب نظر اندازیا ہدف ملامت بنایا جاتا ہے تب بچوں میں پائی جانے والی تخلیقی صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اوسط تعلیمی ذہانت لیکن بہتر تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پراپنی توجہ و انہماک کو مرکوز کریں۔تعریف و توصیف اور رہبری و رہنمائی کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
ذہانت کے اقسام :۔ماہر علم نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) ذہانت کی تعریف کر تے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ذہانت ما حول سے مطابقت پیدا کر نے کے عمل کا نام ہے اور فر د کا ذہنی ارتقاء اس کے ما حول سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کر نے پر منحصر ہو تا ہے۔ نک وچلر (Wechler)کے مطابق ذہا نت ،کسی بھی کا م کو بامقصد طر یقے سے انجام دینے کی مجموعی لیاقت جیسے گہری فراست و بصیرت ،سنجیدہ فکر کے ذریعے ما حول سے موثر طر یقے سے نبرد آزما ہو نے کا نا م ہے۔دیگر ماہرین نفسیات کے مطابق ذہانت سے مرادقوت فکر و استدلال ،مسائل کے حل اور تصوراتی تشکیل کانام ہے۔ذہانتی ترقی و ارتقاء دماغ کی جنیاتی ہیت اور ماحول کی فراہمی پر منحصر ہوتی ہے۔سماجی تقاضوں اور زمانے کی مسابقت سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں بچے کی ذہانت کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔انسان کے دیگر اعضا ء کی نشوونما کی طرح ذہانت بھی عمر کے ساتھ ترقی پذیر رہتی ہے۔اگر طلبہ کی ذہانت کو مہمیز کرنے والے حالات اور ماحول فراہم کیا جائے تو یہ مزید ترقی کر جاتی ہے۔محتاط تجزیات سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ وہ بچے جو ذہین نہیں تھے لیکن وہ تخلیقی صلاحیت کے حامل پائے گئے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سات قسم کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔
(1)استدلالی(ریاضیاتیLogical )ذہانت۔ ،اعداد و ہندسوں اورریاضی کے عناصر کی شناخت،تقسیم و تفریق اور استدلال کی صلاحیت ۔
(2)لسانی(Liguistic-Verbal)لسانی ذہانت سے مراد لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ،لفظیات کے برتاؤ کا علم و ردعمل،اور اظہار خیال کی صلاحیت ہے۔
(3)موسیقی ،نغمگی(Musical-Rhythmic)ذہانت:۔ صوتیاتی پہچان و ردعمل،سر تال کی تمیز ،تعریف و توصیف کو موسیقی یا نغمگی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(4)بصری(Visual-Spatial بصری شکلوں اور تصویروں کی شناخت و پہچان کو بصری ذہانت کہا جاتا ہے۔
(5)جسمانی(Bodily-kinesthetic)ذہانت، حالات کے مطابق جسمانی حرکات و سکنات پر قابو پانا اور حرکی ارتباط میں بہتری پیدا کرنے کو جسمانی ذہانت کہا جاتا ہے۔
(6) شخصی ذہانت(Intra Personal Intelligence)شخصی ذہانت کے بل پر فرد اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔اسی ذہانت کے زیر اثر آدمی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر تا ہے اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بھی تر تیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوتاہے۔
(7) بین شخصی ذہانت (Inter Personal Intelligence) بین شخصی ذہانت کے ذریعے دوسرے افراد کی پسند اور نا پسند کا اندازہ قائم کرتے ہوئے ان سے اپنے تعلقات کو مضبوطی استحکام فراہم کر تا ہے۔
ذہانت اور تخلیقیت کے درمیان رشتہ:۔والک اور کوگان(Wallach and Kogan) کی تحقیق نے طلبہ کو چار گروپس میں تقسیم کیا جس سے ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
(1)اعلیٰ تخلیقیت۔:اعلیٰ ذہانت ۔ان بچوں میں اعلیٰ قسم کی ذہانت اور اعلیٰ قسم کی تخلیقیت پائی جاتی ہے۔ان میں اعلی تخلیقیت کا وجود بہترین ذہانت کی وجہ سے پایاجاتا ہے۔جب یہ بچے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقی کام انجام دیتے ہیں تب ان سے اعلیٰ تخلیقی کام وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
(2)اعلیٰ تخلیقیت ۔کم ذہانت:۔یہ بچے اکثر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ان کی تما م تخلیقی افکار پر تحدید یں عائد کر دی جاتی ہیں اور اکثر ان پر پھسڈی(Dull)ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔جب ان کی تخلیقی افکار و افعال کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تب وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ذہنی خلفشارکے باعث غصہ کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔اگر ان کو ایک ایسا استاد جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہو اور تعریف و توصیف کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تب ان سے بہتر مظاہر سرزد ہونے لگتے ہیں۔
(3)کم تخلیقیت ،اعلیٰ ذہانت:۔یہ بچے صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہتر مظاہرہ کرپاتے ہیں۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغولیت کی بنا پر وہ تخیلی اور تخلیقی فکر کے لئے وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔یہ صرف تعلیمی سرگرمیوں میں جٹے رہتے ہیں۔ تعلیمی ناکامی ان کے لئے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ صرف کرنے کی وجہ سے ان سے کوئی تخلیقی اور اخٰتراعی عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا ہے۔
(4)کم تخلیقیت۔کم ذہانت:۔ایسے بچوں پر اساتذہ کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ذہانت کی کمی کے باعث یہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ اکثرپریشان رہتے ہیں اور اکثر دفاعی انداز اپناتے ہیں ۔اساتذہ کی مسلسل تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت:۔ہر بچے میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجو د ہوتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو تلاش کر تے ہوئے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت اور نشاندہی ان میں تخلیقی صلاحیتو ں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں دوسروں سے نمایا ں اور ممتاز کرتی ہیں۔
(1)ان میں اعلیٰ معیار کی دلچسپی اور تندہی پائی جاتی ہے وہ جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اس کو تندہی سے انجام دیتے ہیں۔
(2)پسندید ہ کاموں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف انجام دیتے ہیں بلکہ معروف نتائج کو اپنی جدید تحقیق کے ذریعہ تبدیل کرتے ہیں۔
(3)تخلیقی مسائل کے حل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور مسائل کا اختراعی وتخلیقی حل ڈھونڈ نکا لتے ہیں۔
(4)اپنے اصل خیالات و افکار کے اظہار سے نہیں ہچکچاتے ہیں اور اپنے نظریات ،افکار و خیالات کو تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
(5)تخلیقی صلاحیتو ں کے حامل طلبہ دوسروں کے تخلیقی کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے کے علاو ہ اس سے جذبہ و تحریک حاصل کرتے ہیں ۔ یہ طلبہ کسی بھی تخلیقی کام کی تعریف و توصیف میں پیچھے نہیں رہتے ہیں۔
(6)کسی بھی شئے کو نئے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نئے افکار و نظریات کے اطلاق سے کچھ نہ کچھ تخلیقی کام انجام دینے کے لئے مضطرب رہتے ہیں۔
(7)تخلیقی صلاحیت کے حامل بچوں کی قوت متخیلہ بہترین ہوتی ہے وہ مختلف اور تخلیقی انداز میں غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں۔بقول البرٹ آئن سٹائن ’’ مجھے کوئی مخصوص چیز نہیں حا صل ہے بلکہ مجھ میں حد درجہ کا تجسس پایا جاتا ہے۔‘‘تجسس ،تخیل اور تخلیقی افکار ہی وہ اثر پذیر عوامل ہوتے ہیں جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ماہرین نفسیات تخلیقی افکار و افعال کی اپج کے لئے چار مراحل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ان چار ذہنی عوامل پر توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے فطری تخلیقی صلاحیتوں کو بچوں میں فروغ دیا جا نا ممکن ہے۔
(1)ذہن سازی یا ذہن کی تشکیل نو(Mental Reframing):۔دلچسپ خیالات کو ذہن میں بساکر افکار و مسائل کی تشکیل نو کے ذریعہ ان کو منظم اور سہل بنایا جاسکتا ہے۔
(2)ذہنی استراحت(Mental Relaxation):۔ذہن کو تما م افکار و تفکرات سے آزاد کرتے ہوئے سکون و آرام سے دلچسپ افکار و مسائل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔اس طرز عمل سے بصیرت کے حصول کے علاوہ تخلیقی نظریات وجود میں آتے ہیں۔
(3)روشن خیالی (Mental illumination):۔ذہنی بصیرت کی وجہ سے ذہن میں در آنے والی تصویریں اور پس منظر میں بسے خیالات آخر کار شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ذہن میں اس طرح کے در آنے والے واقعات و تصویروں کو بھولنے سے قبل محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(4)ذہنی انتخاب(Mental Selection) نادر ا ختراعی کازکی انجام دہی سے قبل تمام تخلیقی افکار و تخیلات کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ تخلیقی افکار،تخلیقی حقائق کی کسی بھی شکل میں تبدیلی کی سطح سے آگے ہوتے ہیں۔تخلیقی اذہان کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی تخلیقی نظریا ت پر عمل پیرا ہونے سے قبل تخلیقی نظریات و افکار کے انتخاب کو ترجیح دیں۔
تخلیقیت اور جد ت طرازی کے فروغ میں اساتذہ اور والدین کلیدی کردار انجا م دیتے ہیں۔اساتذہ اور والدین کو بچوں میں تخلیقیت کے فروغ کے لئے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم ایسے بچوں کو پسند کرتے ہیں جو فرمانبردار،دوسروں کا ادب کرنے والا،اپنا کام وقت پر انجام دینے والا ہوتا ہے اس کے برخلاف ہم ان بچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں جو بہت زیادہ سوال کرتے ہیں ،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں،اپنے عقائد اور نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں ،کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے ہیں۔پہلے بچے کو ہم اچھا اور دوسرے کو بدتمیز یا نافرمان کہتے ہیں اس طرح کے رویے بچوں میں تخلیقی افکار کی تعمیر کے بجائے تخریب کا کام انجام دیتے ہیں۔تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہوچکے ہیں ۔بچوں کو گروپ کی صورت میں آئیڈیاز(نظریات) اور اشیاء پر غوروفکر کرنے ،کسی بھی فیصلے کے فوری اور دورس نتائج کا اندازہ قائم کرنے،کسی بھی چیز کی وجوہات اور مقاصد پر غور و فکر کرنے،کسی بھی کام کی منصوبہ بندی کرنے،کسی مسئلے کے ممکنہ پہلوؤں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے،متبادل راستہ تلاش کرنے ،فیصلے کرنے اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی فکر نمو پذیر ہوتی ہے۔اسکولس اور والدین ڈسپلن کے نام پر بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹے بلکہ ان کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے تخلیقی سوچ کو فروغ دیں۔تخلیقی سوچ کے ضمن میں خیال رہے کہ جدت فکر و نظر کے نام پر دین کے حدود نہ پھلانگیں۔دین میں اپنی تخلیقی افکار اور
جدت نظر کے اطلاق سے احتراز کریں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو جو دین ملا ہے اسے بالکل اسی طر ح بلاچوں و چراں قبول کر لیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کااستعمال فہم دین کے لئے نہ کریں ورنہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

2 تبصرے

  1. مضمون تفصیلی اور مکمل معلومات پر مبنی ہے یہ اردو میں نفسیات اور تخلیقی کے میدان میں اچھا کام ہے

  2. سلام مسنونہ و بعد ! کسی تحریر کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہٸے کہ نفسیاتی اور غیر مرغوب موضوعات پر لکھا جاٸے اور لوگ اسے بھی دلچسپی سے پڑھیں

جواب چھوڑ دیں