تعلیم کا بنیادی مقصد خودی کی تلاش اوربازیافت ہے۔ملک و قوم اور دنیا کا مستقبل نئی نسل کی تخلیقی و ذہنی نشوو نما کے رہین منت ہے۔طلبہ کے پوشیدہ جو ہر کو دریافت کرنا اور ان کو نکھار کر ملکی و قومی تعمیر کے لئے بامعنی بنانا ابتدائے آفرینش سے ہر استاد کا شیوہ و شعار رہا ہے۔ندرت ،تخلیقیت اور انفرادیت طلبہ کی شخصیت سازی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ماضی میں تخلیقیت اور اختراعی افعال یا افکار کو اعلی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔زمانے کے ساتھ ساتھ تحقیق اور معلومات کی بنا پرتخلیقی صلاحیتوں اور ذہانت کو دو مختلف عوامل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ماضی قریب میں اعلی ذہانت (I.Q)کے حامل طلبہ کو فطری طور پر تخلیقیت سے بھر پور سمجھا جاتا تھاجس کو جدید تحقیق نے محض ایک خام خیالی قراردیا ہے۔اللہ نے تما م کائنات کو بنایا بلکہ بہت خوبصورت بنایا۔ ہم کوکائنات کی ہر شئے میں ایک ربط باہم نظر آتا ہے ۔کائنا ت کی ہر شئے سے ٖخالق کائنات کا نظم و ضبط(ڈسپلن)،خوبصورتی اورحسن انتظام ہویدا ہے جس سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ڈسپلن ،خوبصورتی اور حسن انتظام کو پسند فرماتے ہیں۔ سورہ تین کے مطالعے سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا ہے۔تقویم کا یہ حسن صرف ظاہر ی ،جسمانی حسن و جمال ہی نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کی غور و فکراورتدبیر و تدبرجیسی بے شمار صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔سورہ رحمن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ’’ہم نے انسان کو بیان کرنے کا علم دیا ‘‘اس آیت مبارکہ کی روشنی میں ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ بیان و اظہار کے وہ تمام وسائل جس سے تعلیم و تربیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں انسان مثبت تبدیلیوں کا نقیب بن سکتا ہے۔ آج کا دور معیار، مہارت اور تخلیقیت کا دور ہے۔آج تعلیم و تربیت اور زندگی کے تما م شعبوں میں ایک نمایاں جدت اور ارتقاء کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم و تربیت میں قوت تخیل اور تخلیقیت(Creativity) اپنے وقت کے اعلی معیار کو چھورہی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی وجہ سے انسانی عظمت کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے تخلیق کو دراصل تقلید اور جمود کی مسماری اور ایک نئی دنیا کی تعمیر قرار دیا ہے۔کسی بھی تعمیر ی کاز کے لئے تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔انسان میں یہ تعمیری جرات( جسے ہم تخلیقی فکر سے بھی عبارت کرتے ہیں) ،حوصلہ اور اعتماد،علم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں بنایا ہے جس میں کسی نہ کسی قسم کی تخلیقی صلاحیت نہ ہو۔تخلیقی قوت جب قوموں سے رخصت ہوتی ہے تو اس کی وجہ ان میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان اور عدم وجود نہیں ہوتا ہے بلکہ جدت اور تخلیقی فکر کا اپنی روایات اور ہٹ دھرمی کے باعث انکار و رد ہوتا ہے ۔ روایا ت اور جمود میں جکڑے تعلیمی نظام میں تخلیقی بات کہنے کا مطلب ہے ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا۔ جب یہ صورت حال وجود میں آتی ہے تب کسی بھی قوم کی عظمت پر زوال کے گہن لگنے لگتے ہیں۔بقول علامہ اقبال
آئین نو سے ڈر نا ،طرز کہن پہ اڑنا منز ل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تخلیقی فکر اگر موجود ہوتو ہر طرح کے حالات میں راستہ نکل سکتا ہے۔بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنا اور اس کو فروغ دینا ہر استاد کا فرض اولین ہوتا ہے۔اساتذہ کے لئے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ ذہانت اور تخلیقیت میں ایک اٹوٹ وابستگی ضرور ہے لیکن یہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور علیحدہ ہیں۔ذہانت علم،مہارت اور معلومات کی شکل میں تخلیقیت کو نہ صرف وجود میں لاتی ہے بلکہ اس کی نشوونما میں کلید ی کردار انجام دیتی ہے۔مدارس ہی معاشرے کے وہ ادارے ہوتے ہیں جہاں درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کی آبیاری کی جاتی ہے اور تخلیقیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔بچوں میں تخلیقی فکر اور رجحان پیدا کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مدارس اوروالدین پر عائد ہوتی ہے۔اسکولی تعلیم کے اہم مقاصد میں ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتہ کا ادراک ،طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت و نشاندہی اور طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت انسان میں پائے جانے والی تمام صلاحیتوں میں نہایت اعلی و ارفع مقام رکھتی ہے۔کسی بھی شخص کے نظریات ،افعال و افکار اس کی تخلیقی صلاحیت کا سر چشمہ ہوتے ہیں۔تخلیقی صلاحیت اللہ تعالی کا عطاکر دہ ایک بیش بہا تحفہ ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔جدید طرز تعلیم میں تخلیقیت کو غایت درجہ کی اہمیت حاصل ہے۔آج کے دور میں انسانی ترقی و ارتقاء میں تخلیقی مزاج کو ایک موثر طریقہ تدریس کے طور پر اختیار کیا جارہاہے۔اساتذہ کے لئے لازم ہے کہ وہ طلبہ کو متنفر کرنے والے سخت ،روایتی اور قدیم طرز تدریس سے نہ صرف اجتناب کریں بلکہ طلبہ میں تخلیقی فکر ،ندرت اور قوت تخیل کو پروان چڑھائیں۔اللہ تعالی نے کوئی ایسا انسان نہیں پیدا کیا ہے جس میں کوئی نہ کوئی تخلیقی صلاحیت موجود نہ ہو۔ہر آدمی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے۔اسکولس تخلیقی صلاحیتوں کو وجود بخشنے اور پروان چڑھانے والے مراکز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔اسی لئے مدارس پر بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما اور فروغ کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔کسی بھی طالب علم میں تخلیقی فکر پیدا کرنے میں تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
(1) اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تخلیقی طریقہ تدریس پر عمل پیر ا ہوکر طلباء میں تخلیقی کیفیت کو بیدار کریں۔
(2)طلباء کی تخلیقی کیفیت پر موثر ردعمل کے ذریعہ تخلیقی فکر کی پرورش اور نشوو نما۔
(3)تخلیقی فکر و صلاحیتوں کو فروغ دینے والے ماحول کی فراہمی۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ’’ہر بچہ اپنے ذہن میں ایک تخلیقی دنیا آباد رکھتا ہے۔‘‘قوت تخیل ہی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کا سرچشمہ ہوتا ہے۔اسی لئے بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ان کو ان کی خیالی دنیا میں آباد رکھنا ضروری ہوتا ہے۔بچوں کے خیالی پلاؤ ہی دراصل ان کی اصل کیفیات کے اظہار کا وسیلہ ہوتے ہیں۔عظیم فنکاروں،موجدوں،اور مصنفوں نے تعلیم میں ہمیشہ جدت اور قوت تخیل کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے دنیا میں جتنے بھی تخلیقی کام کئے گئے ہیں ان میں پرانے تصورات اور اشیاء کو نئے اندازی میں دیکھا گیا ہے۔نیوٹن نے جب سیب کو گرتے دیکھا تو یہ نیوٹن اور دیگر افراد کے لئے کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں تھی ۔لیکن نیوٹن نے اس سیب کے گرنے کے عمل کو ایک خاص جدید انداز میں دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر نیچے کیوں گر رہا ہے اوپر کیوں نہیں جا رہا ہے۔نیوٹن کی اس جدت فکر کا نتیجہ کشش ثقل (Gravity)ہے جس سے دنیا نا واقف تھی۔ اسکولس میں بچوں کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے والے طریقہ ہائے تدریس کی اشد ضرورت ہے جس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملے۔ماہرین نفسیات نے بچوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو تخلیقی فکر کے وجود کا سبب قرار دیا ہے۔ہم غلطیاں کرنے اور ان کے اقرار سے گھبراتے ہیں جب کہ غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ کا وجود میں آناتقریبا نا ممکن ہے۔ہمارا تعلیمی ماحول تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کر تا ہے اگر بچہ جب استاد کے کسی سوال کے جواب میں استاد کے متوقع خیال کے برخلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تب استاد بچہ کی ہمت افزائی کے بجائے اس کے خیالات کو یکسر رد کرتے ہوئے بچوں میں تخلیقی فکر کے فروغ پر پابندیاں عائد کردیتا ہے۔اساتذہ اکثر اوقات بچوں کی نئی سوچ کو رد کردیتے ہیں اور ان کا طریقہ تدریس و تعلیم ہمیشہ محدود طریقہ کار کے اردگرد گردش کرتا رہتا ہے۔
اکثر اساتذہ تخلیق سے زیادہ تربیتی کاوشوں پر وقت صرف کرتے ہیں۔علم نفسیات کے مطابق بچوں کے لئے سب سے بد ترین چیز بچوں کو مباح کاموں میں روکنا ٹوکناتخلیقی فکر کی نشو ونما میں بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔درخت کی مناسب نشوونما کے لئے اس کی شاخوں کو تراشنا ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ سیدھا اور بلند ہوجائے ۔ اسی طرح بچوں تک کونسی معلومات پہنچائی جائے اور کونسی نہیں یہ بہت ہی ضروری ہے ۔علمی انفجار کے اس دور میں بچوں کی تعلیم و تربیت دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔آج مختلف ذرائع سے معلومات کا ایک سیلاب امڈاچلا آرہاہے۔اساتذہ اور والدین کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ بچوں کو کونسی معلومات فراہم کریں اور کس سے باز رکھیں جو ان کے حصول علم میں معاون ہو ،قوت تخیل کو بال و پر اور تخلیقی صلاحیتوں کو پرواز عطاکرے۔مروجہ اور روایتی افکار سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں مجروح ہوجاتی ہیں اور وہ روشن لکیر پر چلنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔بچوں میں آزادانہ غور و فکر کی اگر عادت پیدا ہوجائے تو وہ محیر العقل کارنامے انجام دیتے ہیں۔روایتی سوچ کی تباہ کاریوں کے ضمن میں ایلس ہووے سلائی مشین کے موجد کا واقعہ چشم کشا ثابت ہوسکتا ہے۔ایلس ہووے (Elis Howe)نے 1845میں سلائی مشین بنائی۔اس مشین میں میں سوئی میں روایتی طریقے کے مطابق چھید اوپر کی جانب تھا جس کی وجہ سے مشین کی کارکردگی متاثر ہوگئی۔جس کی وجہ سے ایلس ہوے اپنی مشین سے صرف جوتے ہی سی سکتا تھا۔ایک عرصے تک ایلس ہوے اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہا ایک رات اس نے خوا ب دیکھا کہ اس کو وحشی قبیلے کے آدمیوں نے پکڑلیا ہے ۔انھوں نے اسے ٖحکم دیا کہ اگر وہ چوبیس گھنٹے میں سلائی مشین تیار نہ کر سکا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔مقرر ہ چوبیس گھنٹے میں وہ سلائی مشین بنانے میں ناکام رہ ۔قبیلے کے لوگ اس کو مارنے کے لئے ہاتھوں میں برچھے تھامے دوڑنے لگے۔ہووے نے دیکھا کہ ہر برچھے کی نوک پر ایک سوراخ بنا ہواہے۔یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھ کھل گئی ۔اس کو سلائی مشین بنانے کا سراغ مل چکا تھا۔اس نے بر چھے کی طر ح سوئی میں بھی نوک کی طرف چھید بناکر اس میں دھاگا ڈالا۔پہلے چھید اوپر ہونے کی وجہ سے جو مشین کام نہیں کر رہی تھی اب وہی مشین نیچے کی طرف چھید بنانے کے بعد بخوبی کام کرنے لگی تھی۔ابتدا میں ایلس ہووے کی ناکامی روایتی فکر کی وجہ سے ہوئی تھی وہ یہی سوچ رہاتھاکہ ہاتھ کی سوئی کا چھید اوپر کی جانب ہوتا ہے اور جو چیز ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے وہی صحیح ہوگی۔ جب اس کے لاشعور نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھا اس وقت وہ معاملے کی تہہ تک پہنچا اور مسئلہ کو فورا حل کر لیا۔جب انسان اپنے آپ کو کسی کام میں ہمہ تن مشغول کردیتا ہے تب وہ قدرت کے سربستہ رازوں کو حل کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں پاتا ہے جیسیایلس ہووے نے سلائی مشین کی ایجاد انجام دی۔
فکر کی جدت،ندرت خیال اور تخلیقی سوچ کے فروغ میں البرٹ آئن سٹائن کا قول بہت زیادہ اہمت کا حامل ہے’’ْذہین ترین لوگوں کو ہمیشہ اوسط درجے کے افراد کی شد ید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘اساتذہ اگر اپنے آپ کو اوسط درجے سے اونچا دیکھنا چاہتے ہیں تب ضروری ہے کہ وہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا احترام کرنا سیکھیں۔ماہرین نفسیات میں تخلیقی صلاحیت و افکار کے خداداد اور پیدائشی ہونے پراختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کا ماننا ہے کہ تخلیقی فکر پیدائشی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ کسی میں بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ماہر نفسیات ایلس ٹیسن کے مطابق’’تخلیق کے بارے میں اکثر سمجھا جا تا ہے کہ یہ ایک مستحکم اور کسی قدر پر اسرار صفت ہے جو صرف بعض خوش نصیبوں کو نصیب ہوتی ہے۔لیکن تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ تخلیقی قوت کسی میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔‘‘ایلس ٹیسن کی تحقیق نے والدین،اساتذہ اور اسکولوں کی ذمہ داری میں اضافہ کر دیا ہے۔بچوں کے لئے تخلیقی قوت کے جب تما م راستے کھلے ہیں تواساتذہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ ان کی تخلیقی قوت بیدار ہوجائے۔بعض ماہرین نفسیات کے مطابق تخلیقی صلاحیت خداداد ہوتی ہے ۔ماحول اس کو صرف نکھار تا یا بگاڑتا ہے۔اگر اس بات کو درست مان بھی لیا جائے تب بھی ان صلاحیتوں کو جلانے اور نکھارنے کے طریقے اور تدابیر اختیار کرنا اساتذہ کے لئے ضروری ہے۔اب اساتذہ کے لئے مفرر کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔تخلیقی اظہار اور طریقہ کار کو جب نظر اندازیا ہدف ملامت بنایا جاتا ہے تب بچوں میں پائی جانے والی تخلیقی صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اوسط تعلیمی ذہانت لیکن بہتر تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پراپنی توجہ و انہماک کو مرکوز کریں۔تعریف و توصیف اور رہبری و رہنمائی کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
ذہانت کے اقسام :۔ماہر علم نفسیات جین پیاجے (Jean Piaget) ذہانت کی تعریف کر تے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ذہانت ما حول سے مطابقت پیدا کر نے کے عمل کا نام ہے اور فر د کا ذہنی ارتقاء اس کے ما حول سے ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کر نے پر منحصر ہو تا ہے۔ نک وچلر (Wechler)کے مطابق ذہا نت ،کسی بھی کا م کو بامقصد طر یقے سے انجام دینے کی مجموعی لیاقت جیسے گہری فراست و بصیرت ،سنجیدہ فکر کے ذریعے ما حول سے موثر طر یقے سے نبرد آزما ہو نے کا نا م ہے۔دیگر ماہرین نفسیات کے مطابق ذہانت سے مرادقوت فکر و استدلال ،مسائل کے حل اور تصوراتی تشکیل کانام ہے۔ذہانتی ترقی و ارتقاء دماغ کی جنیاتی ہیت اور ماحول کی فراہمی پر منحصر ہوتی ہے۔سماجی تقاضوں اور زمانے کی مسابقت سے ہم آہنگی پیدا کرنے میں بچے کی ذہانت کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔انسان کے دیگر اعضا ء کی نشوونما کی طرح ذہانت بھی عمر کے ساتھ ترقی پذیر رہتی ہے۔اگر طلبہ کی ذہانت کو مہمیز کرنے والے حالات اور ماحول فراہم کیا جائے تو یہ مزید ترقی کر جاتی ہے۔محتاط تجزیات سے یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ وہ بچے جو ذہین نہیں تھے لیکن وہ تخلیقی صلاحیت کے حامل پائے گئے ۔
ماہرین نفسیات کے مطابق سات قسم کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔
(1)استدلالی(ریاضیاتیLogical )ذہانت۔ ،اعداد و ہندسوں اورریاضی کے عناصر کی شناخت،تقسیم و تفریق اور استدلال کی صلاحیت ۔
(2)لسانی(Liguistic-Verbal)لسانی ذہانت سے مراد لکھنے پڑھنے کی صلاحیت ،لفظیات کے برتاؤ کا علم و ردعمل،اور اظہار خیال کی صلاحیت ہے۔
(3)موسیقی ،نغمگی(Musical-Rhythmic)ذہانت:۔ صوتیاتی پہچان و ردعمل،سر تال کی تمیز ،تعریف و توصیف کو موسیقی یا نغمگی ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
(4)بصری(Visual-Spatial بصری شکلوں اور تصویروں کی شناخت و پہچان کو بصری ذہانت کہا جاتا ہے۔
(5)جسمانی(Bodily-kinesthetic)ذہانت، حالات کے مطابق جسمانی حرکات و سکنات پر قابو پانا اور حرکی ارتباط میں بہتری پیدا کرنے کو جسمانی ذہانت کہا جاتا ہے۔
(6) شخصی ذہانت(Intra Personal Intelligence)شخصی ذہانت کے بل پر فرد اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا ہے۔اسی ذہانت کے زیر اثر آدمی اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر تا ہے اور منصوبہ کی کامیابی کے لئے لائحہ عمل بھی تر تیب دے کر اس پر عمل پیرا ہوتاہے۔
(7) بین شخصی ذہانت (Inter Personal Intelligence) بین شخصی ذہانت کے ذریعے دوسرے افراد کی پسند اور نا پسند کا اندازہ قائم کرتے ہوئے ان سے اپنے تعلقات کو مضبوطی استحکام فراہم کر تا ہے۔
ذہانت اور تخلیقیت کے درمیان رشتہ:۔والک اور کوگان(Wallach and Kogan) کی تحقیق نے طلبہ کو چار گروپس میں تقسیم کیا جس سے ذہانت اور تخلیق کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
(1)اعلیٰ تخلیقیت۔:اعلیٰ ذہانت ۔ان بچوں میں اعلیٰ قسم کی ذہانت اور اعلیٰ قسم کی تخلیقیت پائی جاتی ہے۔ان میں اعلی تخلیقیت کا وجود بہترین ذہانت کی وجہ سے پایاجاتا ہے۔جب یہ بچے اپنی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقی کام انجام دیتے ہیں تب ان سے اعلیٰ تخلیقی کام وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
(2)اعلیٰ تخلیقیت ۔کم ذہانت:۔یہ بچے اکثر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔ان کی تما م تخلیقی افکار پر تحدید یں عائد کر دی جاتی ہیں اور اکثر ان پر پھسڈی(Dull)ہونے کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔جب ان کی تخلیقی افکار و افعال کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تب وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ذہنی خلفشارکے باعث غصہ کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔اگر ان کو ایک ایسا استاد جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہو اور تعریف و توصیف کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں تب ان سے بہتر مظاہر سرزد ہونے لگتے ہیں۔
(3)کم تخلیقیت ،اعلیٰ ذہانت:۔یہ بچے صرف اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بہتر مظاہرہ کرپاتے ہیں۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مشغولیت کی بنا پر وہ تخیلی اور تخلیقی فکر کے لئے وقت نہیں نکال پاتے ہیں۔یہ صرف تعلیمی سرگرمیوں میں جٹے رہتے ہیں۔ تعلیمی ناکامی ان کے لئے سوہان روح ثابت ہوتی ہے۔اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ صرف کرنے کی وجہ سے ان سے کوئی تخلیقی اور اخٰتراعی عمل وقوع پذیر نہیں ہوتا ہے۔
(4)کم تخلیقیت۔کم ذہانت:۔ایسے بچوں پر اساتذہ کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ذہانت کی کمی کے باعث یہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔یہ اکثرپریشان رہتے ہیں اور اکثر دفاعی انداز اپناتے ہیں ۔اساتذہ کی مسلسل تحریک و ترغیب اور حوصلہ افزائی کے ذریعہ ان کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت:۔ہر بچے میں تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کی تمام تر امکانی قوتیں موجو د ہوتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پوشیدہ خزانوں کو تلاش کر تے ہوئے ان کو ان کے اصل مقام تک پہنچایا جائے۔طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کی شناخت اور نشاندہی ان میں تخلیقی صلاحیتو ں کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔تخلیقی صلاحیت کے حامل طلبہ میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انھیں دوسروں سے نمایا ں اور ممتاز کرتی ہیں۔
(1)ان میں اعلیٰ معیار کی دلچسپی اور تندہی پائی جاتی ہے وہ جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اس کو تندہی سے انجام دیتے ہیں۔
(2)پسندید ہ کاموں کو مختلف طریقوں سے نہ صرف انجام دیتے ہیں بلکہ معروف نتائج کو اپنی جدید تحقیق کے ذریعہ تبدیل کرتے ہیں۔
(3)تخلیقی مسائل کے حل میں جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور مسائل کا اختراعی وتخلیقی حل ڈھونڈ نکا لتے ہیں۔
(4)اپنے اصل خیالات و افکار کے اظہار سے نہیں ہچکچاتے ہیں اور اپنے نظریات ،افکار و خیالات کو تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
(5)تخلیقی صلاحیتو ں کے حامل طلبہ دوسروں کے تخلیقی کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے کے علاو ہ اس سے جذبہ و تحریک حاصل کرتے ہیں ۔ یہ طلبہ کسی بھی تخلیقی کام کی تعریف و توصیف میں پیچھے نہیں رہتے ہیں۔
(6)کسی بھی شئے کو نئے زاویے سے دیکھتے ہیں اور نئے افکار و نظریات کے اطلاق سے کچھ نہ کچھ تخلیقی کام انجام دینے کے لئے مضطرب رہتے ہیں۔
(7)تخلیقی صلاحیت کے حامل بچوں کی قوت متخیلہ بہترین ہوتی ہے وہ مختلف اور تخلیقی انداز میں غور و فکر کے عادی ہوتے ہیں۔بقول البرٹ آئن سٹائن ’’ مجھے کوئی مخصوص چیز نہیں حا صل ہے بلکہ مجھ میں حد درجہ کا تجسس پایا جاتا ہے۔‘‘تجسس ،تخیل اور تخلیقی افکار ہی وہ اثر پذیر عوامل ہوتے ہیں جس سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ماہرین نفسیات تخلیقی افکار و افعال کی اپج کے لئے چار مراحل کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ان چار ذہنی عوامل پر توجہ کو مرکوز کرتے ہوئے فطری تخلیقی صلاحیتوں کو بچوں میں فروغ دیا جا نا ممکن ہے۔
(1)ذہن سازی یا ذہن کی تشکیل نو(Mental Reframing):۔دلچسپ خیالات کو ذہن میں بساکر افکار و مسائل کی تشکیل نو کے ذریعہ ان کو منظم اور سہل بنایا جاسکتا ہے۔
(2)ذہنی استراحت(Mental Relaxation):۔ذہن کو تما م افکار و تفکرات سے آزاد کرتے ہوئے سکون و آرام سے دلچسپ افکار و مسائل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔اس طرز عمل سے بصیرت کے حصول کے علاوہ تخلیقی نظریات وجود میں آتے ہیں۔
(3)روشن خیالی (Mental illumination):۔ذہنی بصیرت کی وجہ سے ذہن میں در آنے والی تصویریں اور پس منظر میں بسے خیالات آخر کار شعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ذہن میں اس طرح کے در آنے والے واقعات و تصویروں کو بھولنے سے قبل محفوظ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(4)ذہنی انتخاب(Mental Selection) نادر ا ختراعی کازکی انجام دہی سے قبل تمام تخلیقی افکار و تخیلات کا انتخاب ضروری ہوتا ہے۔ تخلیقی افکار،تخلیقی حقائق کی کسی بھی شکل میں تبدیلی کی سطح سے آگے ہوتے ہیں۔تخلیقی اذہان کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی تخلیقی نظریا ت پر عمل پیرا ہونے سے قبل تخلیقی نظریات و افکار کے انتخاب کو ترجیح دیں۔
تخلیقیت اور جد ت طرازی کے فروغ میں اساتذہ اور والدین کلیدی کردار انجا م دیتے ہیں۔اساتذہ اور والدین کو بچوں میں تخلیقیت کے فروغ کے لئے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہم ایسے بچوں کو پسند کرتے ہیں جو فرمانبردار،دوسروں کا ادب کرنے والا،اپنا کام وقت پر انجام دینے والا ہوتا ہے اس کے برخلاف ہم ان بچوں کو پسند نہیں کرتے ہیں جو بہت زیادہ سوال کرتے ہیں ،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں،اپنے عقائد اور نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں ،کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے ہیں۔پہلے بچے کو ہم اچھا اور دوسرے کو بدتمیز یا نافرمان کہتے ہیں اس طرح کے رویے بچوں میں تخلیقی افکار کی تعمیر کے بجائے تخریب کا کام انجام دیتے ہیں۔تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہوچکے ہیں ۔بچوں کو گروپ کی صورت میں آئیڈیاز(نظریات) اور اشیاء پر غوروفکر کرنے ،کسی بھی فیصلے کے فوری اور دورس نتائج کا اندازہ قائم کرنے،کسی بھی چیز کی وجوہات اور مقاصد پر غور و فکر کرنے،کسی بھی کام کی منصوبہ بندی کرنے،کسی مسئلے کے ممکنہ پہلوؤں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے،متبادل راستہ تلاش کرنے ،فیصلے کرنے اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی فکر نمو پذیر ہوتی ہے۔اسکولس اور والدین ڈسپلن کے نام پر بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹے بلکہ ان کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے تخلیقی سوچ کو فروغ دیں۔تخلیقی سوچ کے ضمن میں خیال رہے کہ جدت فکر و نظر کے نام پر دین کے حدود نہ پھلانگیں۔دین میں اپنی تخلیقی افکار اور
جدت نظر کے اطلاق سے احتراز کریں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہم کو جو دین ملا ہے اسے بالکل اسی طر ح بلاچوں و چراں قبول کر لیں۔اپنی تخلیقی صلاحیتوں کااستعمال فہم دین کے لئے نہ کریں ورنہ دنیا و آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
درسگاہیں بنیں تھیٹر
سیلاب سے پہلے ماحول ایک آلارم دیتا ہے دریا ساکن ہو جاتا ہے اور فضا سیلاب کی آمد کی اطلاع دیتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے میں علاقے کےعقلمند اور سمجھدار لوگ پھاؤڑے،بیلچےاور کسیاں اٹھائے دریا کا رخ اختیار کرتے ہیں تاکہ بند مضبوط کیا جاسکے اور رہائشی آبادی کو سیلاب کی تباہی کاریوں سے بچایا جاسکے۔
ایسے ہی طوفان کی آمد سے قبل بھی ہوا رک جاتی ہے،درخت ساکن ہو جاتے ہیں جو پیش خیمہ ہوتی ہے طوفان کا اور اطلاع ہوتی ہے زمانے والوں کےلئے کہ اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کر لیں۔
ہمیشہ زمانے کے دانا بینا لوگ فضا کو دیکھ کر سیلاب،طوفان یا بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں ۔۔۔۔۔اب عوام میں سے جو لوگ ان کی بات کااعتبار کر کے اپنی اور اپنے مال و متاع کی حفاظت کا بندو بست کر لیتے ہیں، وہی تباہی کاری سے بچ جاتے ہیں اور جو ان کی بات کو ہنسی مذاق میں اڑا دیتے ہیں یا ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں ان کو بچانے کے لیے کوئی فرشتے آسمان سے نہیں اترتے ۔
چند روز قبل لاہور سے واپسی پر ایک فیملی نظر سے گذری جس میں ایک شریف النفس ماں جو چادر میں لپٹی تھی ایک معزز دکھنے والاباپ اور تین بیٹیاں تھیں ۔سب سے بڑی بیٹی جس نے لان کے سوٹ کے ساتھ ایک کندھے پر نیٹ کا دوپٹہ اٹکایا ہوا تھا اور بچی کے تمام نشیب و فراز واضح تھے۔۔۔۔۔۔وہ فیملی اترنے سے قبل ہماری سیٹس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ اب اس بچی نے جو بولنا شروع کیا تو میں اور ناظمہ بہن منہ میں انگلیاں دابے اس کے انداز ملاحظہ کرنے لگیں۔وہ مسلسل والد کو ڈکٹیٹ کر رہی تھی کبھی کہتی پاپا ادھرہو جاؤ اور کبھی کہتی ادھر ہو جاؤ ،کبھی کہتی فلاں کو گذرنے دو اور کبھی کہتی ویسے کرو۔ اور اچھا خاصا صحتمنداور معزز پاپا اس کے اشاروں پر ایسے عمل کر رہا تھا جیسے کٹھ پتلی ہو۔
پنسرہ جیسے پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی اس بچی نے یقیناً نیا نیا کالج ،یونیورسٹی کا منہ دیکھا ہو گا اور نیا نیا ترقی کی راہ پر قدم رکھا ہو گا۔
اسے دیکھ کر سچ میں قرب قیامت کی وہ نشانی یاد آگئی کہ عورت اپنی مالکن کو جنے گی ۔۔۔۔۔۔۔اور مرد کے لیے استعمال شدہ لفظ "دیوث" کو عملاً سمجھ لیا۔
ابھی تو یہ رسمی تعلیم کی کارستانی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
ہم سے تو لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے اثرات بد ہی سنبھالے نہیں جا رہے تھے کہ وزیراعلی صاحبہ کے نئے حکم نے ہوش اڑا دیے ۔۔۔۔۔ ۔۔یعنی اب درسگاہیں ،درسگاہیں نہ رہیں گی ۔۔۔۔۔۔مجرا گاہیں اور تھیٹرز بنیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔میرے وطن کے خرد مندو! دھویں کو شعلہ بننے سے قبل پانی ڈال دو،،سیلاب سے پہلے بند باندھ لو،طوفان سے قبل بستر سمیٹ لو،گھروں کے لٹنے سے قبل کنڈیاں لگا لو،عزتوں کے جنازے نکلنے سے قبل بیٹیاں سنبھال لو،درسگاہیں کوٹھے بننے سے قبل منہ سے چوسنیاں نکال دو ۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ...
ماں کی تمنا
یہ 2010 کی بات ہے جب مجھے اللہ رب العزت نے پہلی مرتبہ حج کرنے کی توفیق عطا کی الحمداللہ ! ہمارے گروپ میں بوڑھے، جوان یہاں تک کہ کچھ نوعمربھی شامل تھے، حج کی مشقت کے بارے میں تقریبا سب ہی جانتے ہیں، لیکن ہم حاجیوں کو اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب ہمیں اپنے گروپ میں اس عمر رسیدہ خاتون کے بارے میں معلوم ہوا، جسکی عمر تقریبا اسّی برس تو یقینا ہوگی وہ چلنے پھرنے یہاں تک کہ پوری طرح بیٹھنے سے بھی لاچار تھی، منی میں اسے اسکا بیٹا وہیل چیئر کے ذریعے خواتین کے خیمے میں چھوڑ گیا جہاں اسکی بہو اور باقی خواتین کی مدد سے اسے بستر پر لٹا دیا گیا اسکے ہاتھ میں تسبیح تھی، وہ سارا دن لیٹ کر اشاروں سے ہی نماز وغیرہ پڑھتی، اسکی بہو کا تعاون بھی اس خاتون کے ساتھ اتنا ہی تھا جتنا کہ ہم دوسری خواتین کا تھا لیکن بیٹا جو تقریبا چالیس بیالیس سال کا ہوگا اسکی اپنے ماں کے ساتھ محبت اور اسکی خدمت دیکھ کر ہم سب کی زبان سے سے بے اختیار جملہ نکلا کہ بیشک اسکا حج تو مقبول ہوگیا بلکہ یہ بندہ تو دگنا ثواب حاصل کر رہا ہے، وہ والدہ کا منہ ہاتھ تک خود دھلواتا، وضو کرواتا، کھانا اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے نوالے بناکر یوں کھلاتا جیسے کہ ایک شیر خوار بچے کو پیار سے ماں کھلاتی ہے، مِنیٰ سے مزدلفہ کے سفر میں ہم نے اس بیٹے کو کبھی ماں کے پاوں دباتے دیکھا، کبھی اسے پیار سے وہیل چیئر سے اپنے بازوں میں اٹھاکر زمین پر سلاتے دیکھا، اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ پاوں، بازو وغیرہ سہلاتا، پھر کبھی پیشانی پر بوسہ دیتا، یعنی ان چار پانچ دنوں میں ہمیں ماں کے ساتھ اس کا حسن سلوک دیکھ کر قرآن پاک کی یہ آیت یاد آگئی،،،
! رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
سبحان اللہ !
ہم سب حاجیوں کو ایک تجسس یہ بھی تھا کہ اس عمر میں اتنی مشقت سے بہتر تھا کہ وہ کچھ عرصے پہلے ہی حج کرلیتی جب اسے اسکی طاقت تھی۔
اس سلسلے میں اسکے بیٹے نے حج کی ادائیگی کے بعد حاجیوں کو بتایا کہ میری ماں کی شروع ہی سے یہ دلی تمنا و خواہش تھی کہ وہ حج کی سعادت حاصل کرے لیکن ہمارے پاس وسائل نہ تھے، یہ بات میں جانتا تھا،اور سوچتا کہ جب بھی میں اس قابل ہوا تو میں ماں کو ضرور حج کرواوں گا، اور اب میں اس قابل ہوچکا ہوں کہ میں اپنی ماں کی یہ خواہش پوری کرسکوں، لیکن میں سوچ رہا تھا اب تو وہ معذوری کی وجہ سے نہیں چل سکے گی لیکن جب اس نے مجھے کہا کہ وہ آج بھی یہ تمنا رکھتی ہے، تو میں انکار نہ کرسکا، میرا باپ تو اس دنیا میں نہیں رہا لیکن ماں زندہ ہے، لہٰذا میں آج اس سعادت سے اپنے آپ کو محروم نہیں رکھنا چاہتا، میری تکلیف اس تکلیف سے یقینا نہ ہونے کے برابر ہے جو اس نے میری پیدائش...
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
مضمون تفصیلی اور مکمل معلومات پر مبنی ہے یہ اردو میں نفسیات اور تخلیقی کے میدان میں اچھا کام ہے
سلام مسنونہ و بعد ! کسی تحریر کی خوبی یہ سمجھی جاتی ہٸے کہ نفسیاتی اور غیر مرغوب موضوعات پر لکھا جاٸے اور لوگ اسے بھی دلچسپی سے پڑھیں