نجات کی راہ نہیں ملتی

مضمون کے عنوان سے بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ ایک مذہبی مضمون ہو نا چاہئے لیکن اس مضمون کو دینی مضمون کہا جاسکتا ہے ۔نجات کو معنوی اعتبار سے چھوڑنے یا ترک کرنے کو کہتے ہیں، نجات انسان مشکلات سے ہی چاہتا ہے۔ حالات اچھے ہوں تو کون ان سے پیچھا چھڑانا چاہے گا۔ اللہ رب العزت نے زمانے کی قسم کھا کر بتایا ہے کہ بیشک انسان خسارے میں ہے جوکہ انسان کے زمین پر قدم رکھنے سے شروع ہوتا اور آخری قدم اٹھائے جانے تک رہتا ہے ۔ اب جس نے تحقیق کی جسے اللہ نے توفیق دی اسے تو یہ خسارہ سمجھ آگیا لیکن عمومی طور پر لوگوں کو اس خسارے کی سمجھ نہیں (انسانوں کی اکثریت خود غرض ہے اسلئے اسے صرف اور صرف مادی خسارہ دیکھائی اور سجھائی دیتا ہے) اور اگر جو تھوڑی بہت سمجھ ہے بھی تو وہ اپنی سی توبہ تائب کی کوشش کر کے اپنے رب کو منالیتا ہے۔ نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ کو اللہ رب العزت نے اپنے نائب کیلئے نجات دہندہ بنا کر بھیجا اور آپ ﷺ کی زندگی کو عملی نمونہ قرار دیا، اقوال کو احادیث اور عمل کرنے کو سنتوں سے رہتی دنیا تک جانا جاتا رہے گا۔ایک طرف اللہ کی محبت یعنی نبی ﷺ، اپنی محبت سمجھانے کیلئے اپنے محبوب ﷺ کو نبوت عطاء فرمائی۔ ہمارے نبی ﷺ نے اللہ سے اپنی محبت کے واسطے اپنی امت کی محبت میں مبتلا ہوکر صرف اور صرف اپنے ماننے والوں کی بخشش یا نجات کی دعائیں زارو قطار رو رو کر مانگیں، اللہ کے محبوب سرور کائنات ﷺ نے تمام انسانیت کی نجات کیلئے نا صرف کوششیں کیں بلکہ اللہ رب العزت سے دعائیں بھی مانگیں۔ اللہ بڑا ہی غفور رحیم ہے اور اپنے بندوں کو نجات دینے کے جہاں بہانے تلاش کرتا ہے وہیں نجات کے مواقع بھی فراہم کرتا رہتا ہے ۔ ابھی یہ مضمون تکمیل کے مراحل سے گزر رہا تھا کہ گزشتہ روز گھر میں دورانِ گفتگوکسی کے قبول اسلام کی بات چل رہی تھی جس پر ہماری زوجہ محترمہ نے بہت ہی بے ساختہ فرمایا کہ کوئی اسلام قبول نہیں کرتا بلکہ اسلام (اللہ تعالی ) اسے قبولیت کا شرف بخشتا ہے تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، ایک بہت ہی فکر انگیز اور انتہائی خوبصورت بات جو اللہ کی اپنے بندوں سے محبت کے حوالے سے ایک بہترین اور جامع دلیل بھی ہے۔ بیشک یہ اس بات کی بھی گواہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی نجات کا خود بھی کتنا فکرمند ہے۔ نبی پاک ﷺ نے اس نجات کا مکمل نسخہ ہمارے درمیان چھوڑا جس کلام الہی کو علامہ اقبال نے نسخہ کیمیاء بھی بتایا ۔ کوئی اللہ رب العزت کے فراہم کئے بہانے سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور کوئی راستہ بدل کر تیز تیز چل پڑتا ہے اور اپنا خسارہ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یقیناًایک نجات وہ ہے جس کی ہر مسلمان کو خواہش کیساتھ ساتھ جستجو بھی کرنی چاہئے۔
انسان نے ترقی کا سفر پہیے کے وجود میں آنے سے ہوا ، پہیہ گھومتا گیا گھومتا گیا اور انسان اپنی آسانیوں کیلئے طرح طرح کی آسائشوں کا سامان بناتا چلا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر ایک آسائش اپنے ساتھ دو چار مشکلیں بھی لے آئی ۔ یعنی نجات کی جستجو میں اور پھنستے ہی چلے گئے۔کیا ایسا بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ آسائشیں مشکلات سے نجات کیلئے بنائی جاتی ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بنائی جانے والی آسائش سے بھی نجات کیلئے ایک اور آسائش کی جستجو شروع کردی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہی چلا جاتاہے۔ انسان کیلئے جیسے جیسے بصیرت کی روشنی خدا بڑھاتا گیا انسان خدا کے خوف سے چپکے چپکے نکلتا گیا، بلکل ایسے ہی جب تک آپ اپنے بچے کو کسی چیز کی دکان دیکھائے بغیر چیز لاتے رہوگے وہ آپ کا محتاج رہیگا اور جس دن آپ نے اس دکان تک بچے کو رسائی دی اگلے دن سے آپکی اہمیت کم ہونا شروع ہوجائیگی۔ جیسے جیسے زمین کی وسعتیں سمٹتی گئیں انسان نے زمین کا سینہ چیر کر خدا کی نعمتوں پر قبضہ کرنا شروع کیا ، چاند پر قدم رکھا اور خالقِ کائنات کے خزانوں تک رسائی پالی تو انسان خدا کی خدائی سے ہی منکر ہوکر رہ گیا ، دنیا کی رنگینی میں مست وہ بھول گیا کہ وہ تنہا ہی ان رعنائیوں کیلئے بھیجا گیا ہے نامعلوم تعداد پہلے اور بعد میں آنے کو ہے ۔
ہمیشہ سے ہی انسان بھلے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو نجات کا متلاشی رہا ہے، یہ نجات دنیاوی مسائل سے ہو یا پھر روحانی مسائل ۔ روحانی نجات والے جنگلوں بیابانوں میں نکل گئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری کوششیں اس مقصد کیلئے ناکافی رہی ہیں۔ انسان کی نجات کی گواہی دینا ایک انسان کیلئے بہت مشکل عمل ہے لیکن انسان کی طبعیت میں تحمل اور برداشت کا پیدا ہوجانا، ہیجانی کیفیت سے مبرا ہوجانا ۔
آج کا انسان دائمی نجات کی تلاش سے کہیں بہت دورچلا گیا ہے جہاں صرف اور صرف دنیا وی الجھنیں ہیں اور ان سے نجات کیلئے دن رات نئی الجھنوں کے جال میں انسان الجھتا ہی جا رہا ہے ۔آج سب کچھ بہت واضح ہے جوکہ دیکھائی تو دیتا ہے لیکن سجھائی نہیں دیتا ۔ ہر فردچھوٹی چھوٹی چیزوں سے نجات چاہتا ہے لیکن اس نجات کے حصول کیلئے نئی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے۔ شائد اس مضمون کا مطلب وقتی دانائی (جس کا آج ہر بچہ بھی داعی ہے )سے نکل کر دائمی دانائی کی طرف ایک دھکا دینے کی کوشش ہے ۔ من میں امن آئے گا تو نجات کی سعی میں مزا آئے گا ، پھر دنیا کی حقیقت واضح ہوجائے گی پھر سمجھ آجائے گا کہ ہمارے بس میں تو کچھ بھی نہیں ہے اور ہم تو خود بھی اپنے بس میں نہیں ہیں تو پھر جس کے بس میں سب کچھ ہے جس میں بس میں ہم ہیں تو خود سمیت سب کچھ اسی کے حوالے کردیتے ہیں ، دائمی نجات پا لیتے ہیں۔ بچہ نے امتحان کی تیاری کیسی کی ہے یہ بہت اچھی طرح سے جانتا ہے ، وہ کبھی بھی ہی نہیں کہتا کہ تیاری نہیں ہے اصل حقیقت نتیجہ آنے پر واضح ہوتی ہے ، لیکن کیا ہماری فکر اس نہج پر نہیں پہنچ پارہی کہ ہم نجات پا سکیں اور اپنا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں لے سکیں اور جنت کے فرشتے جنت کی جانب ہماری رہنمائی کریں۔
اس مضمون کا بنیادی مقصد آج دنیا سماجی میڈیا میں کتنی بری طرح سے الجھی ہوئی ہے اور الجھتی ہی جارہی ہے ، ہر فرد کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ وقت کی بربادی ہے ، یہ ہے وہ ہے لیکن مشغول اسی مشغلے میں دیکھائی دیتا ہے۔ یعنی آج دائمی نجات سے کہیں ضروری ہوچکا ہے کہ پہلے ان معاشرتی الجھنوں سے نجات کے اسباب پیدا کئے جائیں اور اس بات دھیان رکھا جائے کہ ان سے نجات کیلئے کوئی ان جیسی چیزوں کا ہی انتظام نا کر لیا جائے۔ ہمیں اگراپنی نسلوں کو قدروں کو بچانا ہے تو ہمیں ان جیسی (سماجی میڈیا) چیزوں سے جان چھڑانا ہوگی یا پھر مخصوص اوقات طے کرنے ہونگے۔ نجات کی تمام راہیں کھلیں ہیں اللہ ادھر ادھر بھٹکنے سے ہمیں بچائے اور ان سیدھی اور سچی جو نجات کی راہیں ہیں پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے (آمین یا رب العالمین)

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں