امیرجماعت کی حکومت وقت کو تنبیہ

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ الیکشن کے بعد سیاسی ماحول میں مزید تلخی پید اہو گئی ہے اور وزرا کے بیانات تلخی کو بڑھانے اور جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں، الجھاؤ اور تناؤ کے ماحول میں ملک ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتا،معاشی زبوں حالی میں اضافے نے ہر شہری کو بدحال کردیا ہے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، ڈانواڈول معیشت اور ہوشربا مہنگائی نے عوام کی نیند حرام کردی ہے، سیاسی جماعتوں کو مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، مسائل کاواحد حل ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے، پاکستان کے نظریاتی تشخص کو بحال کردیا جائے تو ملک تیزی سے ترقی و خوشحالی کی طرف بڑھے گا۔

اس حقیقت سے انکار کیا ہی نہیں جاسکتا کہ الیکشن کے بعد سیاسی کشیدگیوں میں کمی کی بجائے ان میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔ ان کشیدگیوں اور تلخیوں کے کئی اسباب ہیں جس میں الیکشنزکا شفاف نہ ہونا سر فہرست ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہر الیکشن کم و بیش وہی لوگ یا ان ہی جیسے لوگ منتخب ہو کر سامنے آتے رہے ہیں جو گزشتہ حکومتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو گزشتہ دور حکومت میں اپنی اپنی حکومتوں کے پیروں پر کلہاڑیاں چلاتے رہے ہیں جبکہ موجودہ حکومت کے دعوؤں کے مطابق ایسے افراد کی کوئی گنجائش اس حکومت میں نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اب نہ معلوم وہ کون سی مجبوری ایسی ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو بھی ایسے ہی بیشمار مشروں اور وزیروں کو اپنے ساتھ لیکر چلنا ضروری ہو گیا ہے اور اس پر المیہ یہ ہے کہ پھر ماضی کے ان لوٹوں سے خیر کی توقعات بھی وابستہ کر لی گئی ہیں۔

الیکشن کی گہما گہمی اور نتائج سامنے آنے کے بعد ہونا تویہ چاہیے  تھاکہ لوگ سارے اختلافات بھلاکرذاتی یا پارٹی مقاصد سے باہر نکل آتے اور ملک کے استحکام کیلئے یک دل اور یک جان ہو کر کام کرتے لیکن ہوا یہ کہ حسب سابق ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آرہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کو ہر آنے والی حکومت نے شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن ہر قسم کی کرپشن اور غیر قانونی کام کرنے والوں کے ہاتھ پکڑنے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پورے ملک میں بیسیوں ایسے ادارے موجود ہیں جو ایسا عناصر کے خلاف موجود ہیں۔ جب ہر قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی سرکوبی کیلئے نہ صرف ادارے موجود ہیں بلکہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار کے مطابق ان افراد پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں تو پھر وزرا اور مشیران کو اپنی اپنی توانائیاں ضائع کرکے ہلکان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وزرا اور مشیران کو ہر قسم کی الزام تراشیوں سے گریز کرکے ماحول کی تلخی کو کم کرنا چاہیے اور اپنی اپنی کارکردگی کی جانب توجہ دینا چاہیے۔ ایسے موقعہ پر امیر جماعت اسلامی کا یہ فرمانہ کہ الجھاؤ اور ٹکراؤ کے ماحول میں ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ممکن نہیں۔ جب افراد افراد سے، جماعتیں جماعتوں سے اور اور ادے اداروں سے الجھیں گے تو تروقی کی گاڑی کا پہیہ کیونکر چل سکے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ کی پالیسی کو ختم کرنا چاہیے اور آگے کی جانب دیکھنا چاہیے۔

یہ ایک عالم گیر سچائی ہے کہ جب حالات بہت الجھ جاتے ہیں تو اس کا ایک ہی حل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ ماضی کی ہر بات کو بھول کر نئے سرے سے تعمیر نو کی جانب قدم اٹھایا جائے لیکن اس کے بر عکس ہم اب تک لکیریں پیٹنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان لکیروں کے پیٹنے میں بھی ہم کئی برس برباد کر چکے ہیں۔ جس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے سلسلے میں ہر حکومت لگی رہی وہ واپس تو ایک پائی بھی نہ لاسکی البتہ کروڑوں روپے برباد ضرور کر چکی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجرموں کو ان کے انجام تک نہ پہنچایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں سارے کاموں کو چھوڑ کر ایک اسی کام میں ساری توانائیاں صرف کر کے رکھ دی جائیں۔ اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے سراج الحق کا فرمانا تھا کہ حکومت کو حکمت اور تحمل سے احتساب کو آگے بڑھانا اور احتساب کے نظام کو متنازع ہونے سے بچانا چاہیے تھا، ابھی تک تمام تر دعوؤں اور نعروں کے باوجود حکومت لوٹی گئی ایک پائی بھی وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو بہت جلد لوگ حکومت کے خلاف پھٹ پڑیں گے۔

جن کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ حکومت نے ڈیزل، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے جا اضافہ کیا ہوا ہے اور یہ محض اس لئے ہے کہ ٹیکسوں کا نظام درست نہیں۔ عوام اور اشیا پر لگائے گئے ٹیکس نہ صرف ظالمانہ ہیں بلکہ اگر ان کو درست کرلیا جائے تواشیا کی قیمتیں موجوقیمتوں کہیں کم کی جاسکتی ہیں لیکن عالم یہ ہے حکومت میں آتے ہیں موجودہ حکومت نے پٹرول، گیس، ڈیزل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں وہ ہوش ربا اضافہ کر دیا ہے کہ عوام کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہر قسم کے ٹیکسوں کی مدآت میں اضافہ در اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک سونامی ہے جس کو بڑھنے سے روکا ہی نہیں جاسکتا۔

امیر جماعت اسلامی نے درست ہی کہا ہے کہ ایک جانب مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے اور دوسری جانب عوام شدید سردی میں گیس کی لوڈشیڈنگ سے پریشان  توتھے ہی اب بجلی کی بھی لوڈشیڈنگ ہونے لگی ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے احتساب کے عمل کو شفاف نہیں بنایا جارہا جس کی وجہ سے کرپٹ افراد بچ نکلنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا دائرہ احتساب سارے کرپٹ افراد کا احاطہ کرنے کی بجائے زیادہ تر حکومت مخالف افراد کے گرد ہی تنگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس تاثر کو غلط ثابت کرے اور کوئی بھی کرپٹ فرد اس دائرہ سے باہر نہ نکل سکے۔

ایک تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پانچ ماہ گزرنے کے بووجود بھی حکومت کا کوئی ایک قدم بھی ایسا اٹھتا ہوا نظر نہیں آیا جس سے عوام کو یہ ڈھارس ہو سکے کہ آنے والے ماہ سال اس کی مشکلات میں کمی لا سکیں گے۔

عوام کی اصل امید کیا ہوتی ہے؟۔ یہی کہ مہنگائی میں کمی آئے گی، اضافہ ہو رہا ہے۔ ملازمتوں کے مواقع ملیں گے، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کاروبار کی راہیں کھلیں گی، پہلے سے کھلی راہیں بھی مسمار کر دی گئی ہیں۔ سرچھپانے کو گھر میسر ہونگے، گھروں کی بھی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی گئی ہے۔ المختصر یہ کہ جو جو وعدے کئے گئے تھے، جو جو امیدیں دلائی گئیں تھیں ان سب پر پانی پھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ موجودہ صورت حال کسی بھی طور عوام کیلئے خوش کن نہیں۔ اس قسم کی صورت حال عوامی رائے کو کسی وقت بھی تبدیل کر سکتی ہے جس کے آثار نظر آنے شروع تو ہو گئے ہیں اور اگر حکومت نے بروقت راست اقدامات نہیں اٹھائے تو بعید نہیں کہ عوام موجودہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لہٰذا امیر جماعت اسلامی نے حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ وہ مزید کسی کوتاہی کا مظاہرہ کئے بغیر عوام کی مشکلات میں کمی کرنے والے اقدامات اٹھائے تاکہ ملک کی ترقی کا پہیہ حرکت میں آ سکے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں