سپریم کورٹ  اور اس کا حکم

بہت ہی ڈرتے ڈرتے کچھ کلمات سپریم کورٹ کے ایک حکم کے بارے میں کہنے کی جسارت کر رہا ہوں اس لئے کہ پاکستان ایک ایسا عجیب و غریب ملک ہے جس میں ریاست کے سب سے بڑے اور سب سے اہم ادارے ‘حکومت’ اور اس کے سربراہ تک کی پگڑی آپ سر بازار اتار بھی سکتے ہیں اور اچھال بھی سکتے ہیں، ڈونکی کہہ سکتے ہیں اور کتا بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن کچھ ادارے ایسے ہیں کہ ان کی طرف رخ کرکے بھرپور طریقے سے یعنی نظربھر کر دیکھ لینا بھی عذاب جان بن سکتا ہے جس میں پاکستان کی عدالتیں اور ان کے جج صاحبان بھی شامل ہیں۔

ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے بیرون ملک ملازمت کے این او سی کو غیر قانونی قراردے کر اس کی درستی کے لئے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے قراردیا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہ ہونے کی صورت میں جنرل (ر) راحیل شریف اپنی موجود ہ غیر ملکی ملازمت سے فوری طور پر سبکدوش تصور کئے جائیں گے ۔

بات یوں عجیب و غریب ہے کہ پاکستان کی آرمی کے سب سے بڑے عہدے پر ایک سالار اپنی ریٹائرڈمنٹ کے بعد اس بات کی اجازت طلب کرتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان سے باہر جاکر کسی بھی دوسرے ملک یا مشترکہ ممالک کی افواج کی سربراہی کر سکتے ہیں ؟،  تو جواب میں حکومت پاکستان بلا تامل ایک اجازت نامہ جاری کرتی ہے کہ آپ بصد خوشی ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ اجازت نامہ اس وقت کی حکومت جاری کرتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایک معمولی سے معمولی نوکری کیلئے بھی ہر اس فرد کو جو ایک ادارہ چھوڑ کر  کسی دوسرے ادارے میں ملازمت کرنا چاہتا ہو،  اسے اپنے سابقہ محکمے کی جانب سے ایک تصدیق درکار ہوتی ہے جس کو این او سی یعنی نو آبجکشن سرٹیفیکیٹ کہا جاتا ہے۔  پھر ایسے اہم عہدے والا جو کسی بھی ملک  کی فوج کا سربراہ رہا ہو اور اسے کسی اور ملک میں  یہ موقعہ مل رہا ہو کہ وہ کسی غیر ملک کی فوج کی سربراہی کرے، اس کیلئے تو بنا این او سی ایسا کرنے کی ضرورت دوسروں سے کہیں زیادہ رہی ہوگی۔ یہی وہ بنیاد بنی ہوگی جس کی وجہ سے حکومت وقت نے اسے این او سی جاری کیا ہوگا اور اس این او سی کی بنیاد پر جنرل (ر) راحیل شریف کو متحدہ اسلامی ممالک کی افواج کا سربراہ بننے کا اعزاز ملا ہوگا۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کے سالار اعظم کو کیا اس بات کی اجازت دینا کہ وہ کسی بھی ملک یا ممالک کی افواج کا سربراہ بن سکتا ہے، پاکستان کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی خدشے والی بات نہیں تھی؟۔ کیا دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال ہے جہاں ریٹائرڈ سالاروں کو ایسی اجازت حاصل رہی ہو؟۔

ہر ملک کے کچھ راز ہوتے ہیں اور جو کسی بھی ملک کے کسی بھی اہم ادارے کے اہم عہدے پر ہوتا ہے اس کے علم میں اپنے محکمے کی بہت سی ایسی اہم باتیں ہوتی ہیں جن کا کسی بھی سبب کسی دوسرے ملک کے علم میں آجانے کی وجہ سے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہو۔ یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ راحیل شریف ایک ایسی محب وطن شخصیت کا نام ہے جو مرنا تو گوارہ کر سکتا ہے لیکن ملک سے غداری کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ اگر اس بات کو اتنے اعتماد کے ساتھ مانا جاسکتا ہے تو پھر اس بات کو بھی مان لینا چاہیے کہ راحیل شریف ایک ‘بشر’ کا نام ہے اور ہر بشر میں ‘شر’ بھی ہوتا ہے۔ نیت پر شک کئے بغیر بشری کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لئے خواہ راحیل شریف کا اسلامی اتحادی فوج کا سربراہ بننا پاکستان کیلئے جتنا بھی اعزاز مان لیا جائے، بشری کمزوریوں کو سامنے رکھ کر خدشات کو نظر اندازکرنا کسی صورت مناسب نہیں جبکہ دنیا کے علم میں یہ بات ہو کہ اسلامی اتحادی افواج پر اصل دسترس امریکہ کی ہی ہے اور فوج کا نظم و ضبط اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ ہر حکم پر ‘یس’ کے علاوہ اور کچھ نہ کہے۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس حکم کو جاری ہوئے اچھی خاصی مدت گزر چکی ہے۔ اتنے طویل عرصے کے بعد یہ بات کورٹ کے علم میں آئی کہ راحیل شریف کیلئے جاری اجازت نامہ قانونی نہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ سب سے طاقتور  اور سب سے اہل ادارے کو اس بات کا علم ہی نہ ہوسکے کہ جو سرٹیفیکیٹ اس کیلئے یعنی اس کے سابق سربراہ کیلئے جاری کیا جارہا ہے اس کی کوئی قانونی حقیقت ہی نہیں ہے؟۔

ایک اور اہم بات کہ جس ملک نے پاکستان کے ایک سالار کو اس بات کا اہل سمجھا کہ وہ 40 اسلامی ممالک کی افواج کی سربراہی کر سکے وہاں بھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ این او سی قانونی بھی ہے یا نہیں؟۔

ان چند باتوں کی روشی میں اگر یہ قیاس کر لیا جائے کہ پاکستان سے جاری شدہ کسی بھی قسم کے این او سی پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کبھی بھی اور کہیں بھی چیلنج کئے جا سکتے ہیں تو کوئی ایسی بات نہ ہوگی جس پر تعجب یا حیرت کا اظہار کیا جاسکے۔ جب اتنے اہم محکمے کے  اہم ترین فرد کیلئے جاری کردہ این او سی غیر قانونی ہو سکتا ہے تو پھر عام افراد کیلئے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ان تمام مذکورہ باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک اور بات جو سب سے اہم ہے وہ کورٹ کی یہ عجیب و غریب منطق ہے کہ اگر مقررہ وقت میں  قانونی مو شگافیوں یا سقم کو درست نہ کیا گیا تو پھر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے گا کہ جنرل راحیل شریف غیر ملکی افواج کی سر براہی سے سبک دوش ہو چکے ہیں۔

کورٹ جب  ان کے اجازت نامے کو غیر قانونی کہہ ہی چکی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ان کی سروس کو اس دن سے غیرقانوی نہ سمجھا جائے جس دن ایک غیر قانونی این او سی پر ایک عہدہ حاصل کیا تھا؟۔  ساتھ ہی ساتھ وہ تمام ذمہ داران، خواہ وہ افراد ہوں یا محکمہ،  ان سب کیلئے قانونی نوٹس جاری  کرنا اور جواب طلب کرنا ضروری کیوں خیال نہیں کیا گیا؟۔ کیا اس میں پاکستان کی سبکی نہیں؟۔

جب یہ خبر پاکستان سے باہر گئی ہو گی اور خاص طور سے اس ملک میں جس ملک کی افواج کی سربراہی جناب راحیل شریف صاحب کر رہے ہیں تو وہ کیسا محسوس کر رہے ہونگے اور خود راحیل شرف صاحب کے کیا احساسات ہونگے؟، یہ بات خود اپنی جگہ بہت اہم ہے۔

پاکستان اب ایسا ملک بن گیا ہے جہاں کسی بھی بات کا ہوجانا کوئی حیران کردینے  والی بات رہی ہی نہیں ہے اور لگتا ہے کہ دنیا میں اس کا اعتماد جیسے اٹھ چکا ہے۔ نہ تو یہاں تعلیمی قابلیت کے جاری کردہ سرٹیفیکیٹ کا کوئی اعتبار رہا ہے نہ ڈگریوں کی کوئی اہمیت۔ اس زمانے میں پی ایچ ڈی کا کوئی اعتبار رہا ہے اور نہ ہی کسی فزیشن ڈاکٹر کا۔ جس کی ڈگری کو چیلنج کیا جاتا ہے وہ اصل ثابت ہو کر نہیں دیتی۔ ملک بھر مین ہزاروں کی تعداد میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آچکا ہے اور ان میں لاتعداد ایسے ادارے ہیں جن کو انسان کی ظاہری آنکھ دیکھ بھی نہیں سکتی ایسے میں اگر این او سی کا اعتبار اٹھ گیا (اٹھ ہی چکا ہے) تو پھر کسی کا بھی کسی محکمے میں منتقل ہوجانا اور کسی کا بھی کسی غیر ملک میں ملازم ہوجانا مشکوک ہوجانے سے محفوظ نہیں رہ سکے گا اور اللہ نہ کرے کہ ایک وہ وقت بھی آئے جب ہر فرد کو اپنے والدین  کی تصدیق کیلئے بھی ‘ڈی این اے’ کرانا لازمی قرار دیدیا جائے اور یوں انسانوں کا انسانوں پر اعتبار بھی تار تار ہوجائے۔ اس سے قبل کہ نوبت یہاں تک آئے بہتر ہے کہ پاکستان اپنے  معاملات ٹھیک کر لے ورنہ آنے والے حالات نہ جانے کیا کیا کہانیاں سنا رہے ہوں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں