یہ چند روزہ زندگی 

ایمان لانے کی پہلی شرط کلمہ طیبہ ہے جسے پڑھنے کے بعد ہم خود کو اللہ کے سپرد کر تے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرنا، اس کی رضا و خوشنودی حاصل کر نے کیلئے تمام ارکان اسلام کی تعمیل کر نا ہی ہر مسلمان کا مقصد حیات ہونا چاہیے ۔
رب کریم کی کبریائی اور رحمانیت کا ہر دم احسا س ہمیں اس مقصد حیات کو حاصل کرنے میں معاون ہو تا ہے اور خلیفہ ارض ہونے کے ناطے اللہ کی رضا حا صل کرنے کی پوری جدو جہد کر تے ہیں لیکن شیطان مردود جو کہ ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے اپنے وعدے کے عین مطابق ہمیں بہکانے کے سارے حربے استعمال کرتا ہے۔
کبھی بدعت میں تو کبھی معصیت میں ڈا ل کر اور کبھی یہ خام خیال دل میں ڈا ل کر کہ چھوٹے گناہ کرنے میں کوئی حرج نہیں “تم تو بہت ہی نیک ہو بہت پرہیزگار ہو تمہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ کرتے ہی معاف کردے گا ، تم دوسروں سے بہت بہتر ہو “۔ تمہیں کیا پڑی ہے اپنی جان جوکھوں میں ڈا لنے کی “۔
لیکن یہی سب چھوٹی چھوٹی خرابیاں آخرکار ہماری آخرت کو تباہ کردیتی ہیں ۔ بے شک پیارا رب انتہائی مہربان اور معاف کرنے والا ہے لیکن کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ جوابدہی کے کڑے وقت اور مرحلے کے تصور سے پیارے نبیؐ جو کہ تمام عالم انسانیت کی پاکیزہ ترین ہستی ہیں آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ یہ دنیا مومن کے لئے دل لگانے کی چیز نہیں بلکہ آخرت کو سنوارنے کی چیزہے۔
سورۃ زلزال میں ربّ کریم فرماتے ہیں ۔
ترجمہ: “جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اورجس نے ذرہ برابر بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا “۔
اس قر آنی آیت سے ہمیں اندازہ ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر باریک بین ہے اور ہم اپنا جا ئزہ لیں کہ ہم کس قدر غفلت میں مبتلا ہیں ۔
آج کل میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا میں بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے ۔ فلمیں او رڈرامے ایسے ایسے نت نئے وا ہیات موضوعات پر بن رہے ہیں کہ جو نو جوانوں کی سوچ کے زاویئے ہی غلط سمت میں موڑ رہے ہیں ۔
اشتہارات اور مارننگ شو بھی کسی مغربی معاشرے یا پڑوسی ہندوستانی معاشرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ جن میں کھلم کھلا شرعی احکامات کی خلاف ورزی کی جار ہی ہے ۔
اسی طرح انٹرنیٹ پر چوبیس گھنٹے طرح طرح کی سائٹس موجود ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر غیر اخلاقی مواد سے بھرے پڑے ہیں۔
حضرت علیؓ کا ارشاد ہے ۔
“مومن وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو ، بلکہ مومن وہ ہے جس کی تنہائی بھی پاک ہو ”
میری بہنوں اور بھائیوں اس دنیا کی زندگی نہایت مختصر ہے ، جس کی کوئی متعین مدت بھی نہیں کہ کب اور کس لمحے یہ مہلت ختم ہو جائے ۔ اس کے علاوہ نیکیوں کے کسی بھی مر حلے پر پہنچ کر یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ یہ نیکیاں “جنت ” کے حصول کیلئے کافی ہیں ۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے ۔ اخلاق و کردار کی خرابیاں اقوام میں سے غیرت ، شجاعت ، دانشمندی ، استقلال جیسی خوبیوں کو یکسر ختم کر دیتی ہیں ۔
ہمیں آخرت کی کامیابی کیلئے دشوار گھا ٹی یعنی بدنی اور نفسا نی صبر سے گزرنا ہوگا اور نفس کے تزکیہ کے لئے آخری سانس تک جدوجہد و جہاد کرنا ہے ۔
سورۃ الشمس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ : “یقیناًفلاح پا گیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے دبا دیا ” ۔
اسی لئے ہمیں خود کو اوراپنے اہل و عیال کو ان تمام لا حا صل اور فضول چیزوں سے بچانا ہے۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ جو گزررہا ہے ہمیں جوابدہی کے قریب تر کر رہا ہے اور پیارے رب سے ملاقات سے قریب تر کررہا ہے لہٰذا ” آ ل عمران” کی اس آیت پر عمل کریں ۔
“اور دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اس کی جنت کی طر ف جاتی ہے جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں