آہ میرا مشرقی پاکستان

رکھیوں غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آ ج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

  1971 کی جنگ میں پاکستان کی شکست کے بعد اندرا گاندھی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت نے دو قومی نظریے کو سمندر برد کر دیاہے۔ شاید یہ بات بہت غلط بھی نہیں ہے اس لئے کہ ایک ایسا خطہ زمین جس کو حاصل تو نظریہ اسلام پر کیا تھا، لیکن چوتھائی صدی بعد ہی وہ ٹوٹا تو لسانیت کے نام پر ٹوٹا۔ لسانیت کی بنیاد پر موجودہ پاکستان سے جو علاقہ جدا ہوا وہیں سے پاکستان مسلم لیگ کا آغاز ہوا تھا جس کے پرچم تلے مسلمانان ہند نے اپنے لئے ایک ملک حاصل کیاتھا جس کو پاکستان کہا جاتا تھا اور اس کے متحد رہنے کا ایک ہی راز تھا اور وہ راز ”اسلام“ تھا جس کے نظام کے نفاذ کا وعدہ برصغیرکے مسلمانوں سے کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ جس کی چھتری تلے مسلمان جمع ہوئے اس کی داغ بیل اس وقت کے مشرقی پاکستان ہی میں پڑی تھی اور یہی وہ خطہ تھا جس نے انگریزوں کے خلاف بڑی جدوجہد کی۔ سراج الدولہ، فتح علی ٹیپو اور حیدرعلی ٹیپو جیسے سپوت اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک فرنگیوںسے بر سر پیکار رہے۔ افسوس یہی ہے کہ وہ لوگ جو حقیقی پاکستانی تھے، پاکستان بننے کے 25 برس بعد ہی پاکستان کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان سے بغاوت پر اتر آئے جو آخر کارپاکستان سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن جانے کا سبب بنے۔ اور اس طرح ایک ایسا ملک جو بناتو اسلام کے نام پر تھا لیکن بد قسمتی سے اس کے ٹوٹ جانے کا سبب عصبیت بنی یا تم اُدھر اور ہم اِدھر کا نعرہ عام طور پر 1970کے انتخابات کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے، شاید ایسا نہیں تھا۔ 12نومبر 1970کو مشرقی پاکستان، بھارت ، مغربی بنگال میں انتہائی شدید نوعیت کا سیلاب آیا جس میں پانچ لاکھ اموات ہوئیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے۔ متاثرین سیلاب کی امداد کے لئے پوری دنیا میں ایک مہم چلی۔ پاک فوج نے امدادی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تاہم مشرقی پاکستان میں اکثریتی جماعت نے امدادی کارروائیوں کو انتخابی مقاصد کے لئے پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا۔ جب انتخابی مہمات چل رہی ہوں تو سیاسی جلسوں میں ہر سیاسی جماعت کوئی نہ کوئی ایسا نقطہ ضرور اٹھاتی ہے جو لوگوں ذہن میں تیرونشترکی طرح ترازو ہو جائے خواہ اس بات کا سبب کوئی بھی ہو اور بات کا تعلق خواہ حقیقت سے دور دور کا بھی نہیں ہو۔مشرقی پاکستان سے انتخابی امیدوار اپنے بیانات میں جہاں جہاں امدادی کارروائیوں کا ذکر کرتے وہیں پاک فوج کی انتھک کاوشوں کو نظر انداز کرجاتے۔ مقصد مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی جماعتوں سے ووٹرز کا تعلق توڑنا تھا۔ دنیا بھر سے آنے والی امداداور اس کی تقسیم اور متاثرین سیلاب کے لئے جگہ جگہ ریلیف کیمپ قائم ہوئے۔ان امدادی کیمپس میں بھارتی ایجنسی ”ر‘ا‘ کو زیادہ کھل کرکھیلنے کا موقع ملا۔ امدادی سرگرمیوں میں رفتہ رفتہ کمی آنے کے بعد مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ قائم یہی کیمپ بعدازاں مکتی باہنی کے بیس کیمپ بنے۔

                یہاں جو بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ دشمن کاکام آپ پر گل پاشی کرنا نہیں ہوتا۔اس کاکام آپ کو ہر امکانی ذرائع سے نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ مکتی باہنی یوں ہی نہیں بن گئی ہوگی۔ نہ تو مشرقی پاکستان وہ خطہ تھا جس پر مغربی پاکستان نے فوج کشی کرکے قبضہ کیا تھا اور نہ ہی وہ غیر پاکستانی تھے۔ پاکستان جس مقصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا اس کیلئے مسلم لیگ کی صورت میں آغاز مشرقی پاکستان سے ہی ہواتھا۔ جب اس مقصد پر ایک انچ بھی عمل نہیں ہوا تو وہ زنجیر جو ایک ہزار میل کے فاصلہ کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے تھی وہ ٹوٹ چکی تھی اس لئے مشرقی پاکستان کا جدا ہوجانا کوئی بہت انہونی بات نہیں تھی۔ ساتھ ہی ساتھ کوئی یونہی پاگل نہیں ہوجاتا، کوئی نہ کوئی سلوک ایسا روارہا ہوگا جس کی وجہ سے نفرتوں نے گھر بنایا اور نفرتوں کے اس گھر نے مکتی باہنی کو جنم دیا۔ اتنے بڑے سانحے کے باوجود ہم نے اپنے رویے کا اعادہ نہ کیا جس کی وجہ سے موجودہ پاکستان کے حالات بھی ہر آنے والے دن کے ساتھ خراب سے خراب ہوتے جا رہے ہیں۔

                1970 کے انتخاب کے نتیجے میں مجیب الرحمن کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ، جمہوریت کا تقاضہ تو یہی تھا کہ کسی بھی حیل و حجت میں پڑنے کی بجائے جمہور کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے تھا لیکن اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کرنے کی بجائے لیت و لعل سے کام لیاجانے لگا اور اس پر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی پی پی پی اور اس کے لیڈر زیڈ اے بھٹو کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی جس کی وجہ سے ایک بہت واضح اکثریتی پارٹی کا مشتعل ہونا بننا تھا سو ایسا ہی ہوا بھی۔ شیخ مجیب کامؤقف تھا کہ چونکہ سب سے زیادہ نشستیں اس کے پاس ہیں، لہٰذا اسے حکومت سازی کی دعوت دی جائے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ اس کی شمولیت کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکتی، لہٰذا حکومت کا حق اسے حاصل ہے۔ پی پی کا یہ مؤقف کسی بھی لحاظ سے جمہوری نہیں تھا۔اس پر قیامت یہ ٹوٹی کہ نہ صرف زیڈ اے بھٹو کے مؤقف کو تسلیم کر لیا گیا بلکہ بات چیت کے بہانے مشرقی پاکستان میں فوج کشی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ جب بات چیت کے دوران مجیب الرحمن نے افواج پاکستان کو مشرقی پاکستان میں اترتے دیکھا تو وہ شعلہ جوالہ بن گیا اور اس نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں عوامی جلسہ کال کر لیا۔ جلسے کے شرکا کے سر گنے نہیں جا سکتے تھے۔ ایسے میں شیخ مجیب کے خطاب نے پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگا کر رکھ دی۔ جلسہ میں اس کے کہے گئے یہ الفاظ “بنگالیو! سن لو یہ تم سے بات چیت کرنے نہیں آئے ہیں، یہ تمہاری زمین پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔ میں حکم دیتا ہوں کہ ایک ایک گھر کو قلعہ بنادو” اس وقت کے ماحول میں یہ الفاظ محض الفاظ نہیں گولہ بارود تھے، پٹرول تھے، مٹی کا تیل تھے جس نے پورے مشرقی خطے کو پھونک کر رکھ دیا۔ اگر ذرا بھی دانشمندی دکھادی جاتی اور کسی بھی عمل سے یہ ثابت کر دیا جاتا کہ شیخ مجیب کے خدشات غلط ہیں ، اور بات چیت ہی کے دوران عوامی لیگ کو اقتدار کی پیش کش ہوجاتی تو شاید معاملات خراب ہوجانے سے بچ رہتے لیکن آنے والے دنوں نے شیخ مجیب کو اتنا سچا ثابت کیا کہ دنیا کا کوئی ایک ملک بھی موجودہ پاکستان کی حمایت میں کھڑا نظر نہ آیا۔دیکھا جائے تو جنرل یحییٰ کا تاخیری حربہ پاکستان کی دولخت ہوجانے کا سبب بنا۔

                کہا جاتا ہے کہ اقتدار کی منتقلی میں تاخیر خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا لیکن بھارت نے اس میں کھلی مداخلت کی۔ یہ بات ہے تو درست لیکن دو طرفہ پر تشدد کارروائیاں کسی کو بھی مداخلت کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں اس لئے کہ اب کارروائیوں میں عام آدمی بہت بری طرح زد میں آرہے تھے۔ خصوصاً بنگلہ ڈیش مخالف اور پاکستان کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کے ہاتھوں میں ہتھیار پکڑا دینے سے معاملات اور بھی خراب ہوئے۔ ایک جانب ان کو ہتھیار سپلائی کرنا، دوسری جانب ان کی پشت پناہی، یہ دونوں اقدامات خرابی حالات کا سبب بنے۔ خون خرابہ اس نہج تک جاپہنچا کہ بنگالیوں کو بہکانہ اور ورغلانہ بھارت کیلئے کوئی مشکل کام نہ رہا۔

                اب ہوا یوں کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے لئے اکیلے باہر نکلنا تک مشکل ہو چکا تھا۔ سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے “را” ا ور” بی ایس ایف” نے ان باغیوں کی تربیت شروع کردی تھی، جنہوں نے بعدازاں پاک فوج کی وردیاں پہن کر عوامی مقامات پر حملے کئے۔ اس انتہائی خطرناک صورت حال میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹونے معاملات کو حل کی جانب لے جانے کی کوشش کرنے کی بجائے فقط اقتدار کی جنگ کو ہی ملحوظ خاطررکھا۔

                جب مکتی باہنی بھارت کی مدد کے باوجود بھی پاکستانی فوج کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی تو 21نومبر 1971 کو بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کرکے پوری قوت کے ساتھ حملہ کردیا۔ 22نومبر کو اندرا گاندھی نے جب اپنی فوج کو مشرقی پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس وقت وہ کلکتہ میں تھیں۔ حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگے ہوئے بنگالی جوان، افسر اور مکتی باہنی کے دستے اس کے علاوہ تھے۔ پاک فوج کے مقابلے میں دشمن کی طاقت سات گنازیادہ تھی۔سب سے بڑھ کر منفی پروپیگنڈے کے باعث مقامی آبادی کی مدد پاک فوج کو کم حاصل تھی۔ چنانچہ 16دسمبر 1971کو پاک فوج کو ڈھاکہ ریس کورس میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ جنرل نیازی نے جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے، اپنا سروس ریوالور جنرل اروڑا کے سپرد کیا۔ ہتھیار ڈالے جانے کی دستاویز پر جنرل نیازی اور جنرل اروڑا کے دستخط تھے اور پاکستانی فوجیوں کو بھارتی سرزمین پر لے جا کر قیدی بنایا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت بھارت کی بالادستی کی جنگ تھی جو اس نے پاکستان سے ناراض بنگالیوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر لڑی تھی۔ اندرا گاندھی کا خیال تھا کہ مشرق پاکستان پکے ہوئے پھل کی طرح بھارت کی جھولی میں آگرے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بھارت میں شامل ہونے کے بجائے بنگلہ دیش بنانا پسند کیا۔

                ماضی سے ہم نے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اسلام کا نام لے لے کر ہم نے پاکستانیوں کو اس حد تک بیزار کر دیا ہے کہ اب کوئی ایک تحریک بھی اسلام کے نام پر نہیں چلتی۔ اب عالم یہ ہے کہ  کچھ جماعتیں ”جمہوریت“ خطرے میں ہے کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہیں اور جمہوریت کو اس انداز میں پیش کیا جانے لگا ہے جیسے (نعوذباللہ) یہی اسلام ہے اور پاکستان جمہوریت کیلئے بنایا گیا تھا۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے ساتھ احساسِ زیاں جاتا رہا

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں