شک دور ہوا

کسی دیہات میں دو سگے بھائی ہوا کرتے تھے۔ نیک، شریف اور محنتی۔ اسی گاؤں کے چودھری صاحب بھی اچھی شہرت کے مالک تھے۔ نیک، شریف، مزارعوں کے غمخوار اور ان کا دکھ درد سننے والے۔ ان کے پاس ایک نہایت سفید، براق اور خوبصورت گھوڑی بھی ہوتی تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا وہ چودھری صاحب کو کم اور گھوڑی کو زیادہ دیکھتا تھا۔ وہ جب جب بھی اپنی بڑی ساری حویلی سے باہر تشریف لاکر گاؤں والوں سے ملنے آتے تو اسی سفید، براق اور حسین گھوڑی پر بیٹھ کر آیا کرتے تھے۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی سارا گاؤں امڈ آیا کرتا تھا۔ بڑی سی چارپائی بچھ جایا کرتی تھی جس پر وہ بیٹھ جایا کرتے اور سب کا حال احوال لیا کرتے اور ان کی فلاح و بہبود کے وعدے کرتے اور چلے جاتے۔ ان کی آمد، گاؤں والوں کیلئے کیا کم باعث مسرت تھی کہ اس پر وعدے وعید قیامت سے کیسے کم ہو سکتے تھے۔ وعدے تو وعدے ہی ہوا کرتے ہیں ہر مرتبہ کسی نہ کسی بہانے ٹل جایا کرتے تھے لیکن آس کی ڈور چودھری صاحب کبھی نہ توڑتے اور ہر مرتبہ ایک نیا لولی پاپ گاؤں والوں کے ہاتھ میں تھما کر چلے جایا کرتے تھے۔

ان کی یہ ہمدردانہ باتیں، سادگی کے ساتھ گاؤں والوں کے درمیان بیٹھ جانا، ہمدردانہ سلوک اور نئے نئے لولی پاپ گاؤں والوں کو بہت متاثر کیا کرتے تھے اور خاص طور سے دو بھائیوں میں جو چھوٹا (ینگ) تھا وہ تو بس صدقے واری تھا۔ وہ چودھری صاحب سے زیادہ صدقے واری ان کی گھوڑی کا تھا اور اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اس گھوڑی پر بیٹھ کر ایک چھوٹا سا چکر ہی لگا لے۔ ان کی آمد پر اکثر وہ اپنے بڑے بھائی سے اس خواہش کا اظہار کیا کرتاتھا تو بڑا بھائی جوکہ “ینگ” نہیں تھا وہ اسے روک دیتا اور کہتا کہ “اوئے” چودھری چودھری ہی ہوتا ہے، چپ کرکے بیٹھ جا۔ جواب میں چھوٹا (ینگ) کہتا نہیں بھائی دیکھ چودھری بڑا ہی شریف ہے، کون غریبوں کے پاس آتا ہے لیکن بڑا بھائی اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا کرتا۔

اس مرتبہ جب چودھری صاحب گاؤں تشریف لائے تو اس چھوٹے (ینگ) نے بڑے کی ایک نہ مانی اور بڑے بھائی کے روکنے کے باوجود بھی وہ چودھری صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ چودھری صاحب کی بڑی تعریفیں کیں اور زمین و آسمان  کے قلابےملائے۔ چودھری صاحب جو پہلے ہی کافی چوڑے تھے تعریفوں کے پلوں نے ان کو اور چوڑا کردیا۔ پھر وہ ان کی گھوڑی کی تعریف میں زمین و آسمان ملاتا رہا جس سے وہ اور بھی کپا ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ پھول پھول کر پھٹ ہی جاتے، چھوٹے (ینگ) نے کہا کہ چودھری صاحب میرا دل کرتا ہے کہ آپ کی گھوڑی پر بیٹھ کر ایک چھوٹا سا چکر ہی لگا لوں۔ بس یہ سننا تھا کہ خوشی سے بھری ساری ہوا بدن سے خارج ہو گئی اور یوں چودھری صاحب پھٹنے سے بچ گئے۔ اپنے ساتھ آنے والے ایک باڈی گارڈ کو حکم دیا کہ ایسی گستاخانہ فرمائش پر اس چھوٹے (ینگ) کی مرمت کی جائے۔ دس بارہ تھپڑ کھاکر جب چھوٹا (ینگ) بھائی بڑے بھائی کہ پاس پہنچا تو بڑے بھائی (جو ینگ نہیں تھا) نے کہا، میں تجھے منع نہیں کرتا تھا اور سمجھاتا نہیں تھا کہ چودھری چودھری ہی ہوتا ہے۔ یہ سن کر چھوٹے (ینگ) نے کہا، خیر ہے بھائی شک تو دور ہوگیا ناں۔

بات یہ ہے کہ حکومت کے اندر بیٹھ کر جو مناظر باہر والے کو نظر آرہے ہوتے ہیں وہ مناظر ان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں جو اندر والے کو نظر آرہے ہوتے ہیں۔ وہی شاہانہ تب و تاب جو حکمرانوں کی بری لگ رہی ہوتی ہے وہی تب و تاب اور آن بان حکومت میں آنے کے بعد پاؤں کی زنجیر اور حفظ ما تقدم کے اصول میں تبدیل ہوجایا کرتی ہے اور پھر ہوتا یہی ہے کہ حکمرانی کا پورا دورانیہ ان کے وزرا، مصاحبین اور چاہنے والوں کیلئے تاویلیں دیتے گزرجاتا ہے اور ایسا سب کچھ کرنے میں جھوٹ سچ سب برابر کرنا پڑجاتا ہے۔

یہی حال آج کل “یوتھیوں” کا ہے۔ گاؤں میں چھوٹے (ینگ) بھائی کا شک تو پھر بھی دور ہوگیا تھا لیکن “یوتھیوں” کا شک ابھی تک دور نہیں ہوا اور وہ ہر غلط کام کی ایسی ایسی تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ دل حیران بھی ہوجاتا ہے اور پریشان بھی۔

بی بی سی کی رپورٹ کی مطابق “طاہر عمران” رقم طراز ہیں کہ ” پاکستانی سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم عمران خان کی کفایت شعاری کے حوالے سے زوروشور سے بحث جاری ہے۔ گذشتہ دنوں بنی گالہ میں عمران خان کے ایک ہمسائے نے سوشل میڈیا پر وزیرِاعظم کے زیرِاستعمال ایک ہیلی کاپٹر کی ویڈیو شیئر کی جس میں یہ لکھا گیا کہ یہ ہیلی کاپٹر آج کل بنی گالہ وزیرِاعظم کو لانے اور لے جانے کے لیے آتا جاتا ہے۔ گذشتہ رات وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کا دفاع کیا اور کہا کہ ہیلی کاپٹر کا خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے۔ جہاں فواد چوہدری کے اس بیان پر ان کا شدید مذاق اڑایا جا رہا ہے وہیں ان کی جانب سے دیے گئے چیلنج پر جب ہم نے حساب کتاب کیا تو یہ سفر اتنا سستا نہیں جتنا فواد چوہدری صاحب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے گوگل کے نقشے پر عمران خان کی بنی گالا میں موجود رہائش گاہ سے پاک سیکرٹیریٹ کا فاصلہ چیک کیا تو وہ 15 کلومیٹر بنتا ہے۔ ہوابازی کی زبان میں یہ فاصلہ 8 ناٹیکل میل بنتا ہے۔ جو ہیلی کاپٹر بنی گالا آتا جاتا ہے وہ آگسٹا ویسٹ لینڈ کمپنی کا ہیلی کاپٹر ہے جسےAW139 کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کے سات ہیلی کاپٹر حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں جن میں دو سویلین ہیلی کاپٹر وزیرِاعظم کے زیرِاستعمال رہتے ہیں۔ اس ہیلی کاپٹر کا فی ناٹیکل میل خرچ 13 ڈالر یعنی 1600روپے بنتا ہے۔ اسے آٹھ سے ضرب دیں تو یہ خرچ 104 ڈالر بنتا ہے جو پاکستانی روپوں میں 12800 روپے سے زیادہ بنتا ہے”۔

یہ تو ہوئے صرف فیول چارجز، اس میں وہ اخراجات شامل ہی نہیں ہیں جو کسی ہیلی کاپٹر کی تمام تر مینٹیننس، اس کی نگرانی پر متعین عملے، اسکے پائیلٹ کی اور عملے کی دیگر افراد کی تنخواہیں اور مدات میں درکار ہوتے ہیں۔ وہ سب بھی اگر ان میں شامل کر لئے جائیں اور تیزی سے بڑھتی تیل اور دیگر فیول اور اسپئیر پارٹس کو بھی گنتی میں لایا جائے تو نہ معلوم ایک ناٹیکل میل کتنی لاگت کا پڑے۔ ان ساری مدات کو شامل کرکے اگر وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری کی باتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تاویلیں کتنی غیر سنجیدہ باتیں لگیں گی۔ اسی طرح ہر معاملے میں اگر وزرا، مصاحبین اور حامیوں کی تاویلوںکا پھس پھساپن اگر پورے دورانیے  جاری رہا تو خود حکمرانوں اور ان کے پیروکاروں کیلئے کس مصیبت کا سبب بنے گا۔

پروٹوکول کے متعلق کئے گئے دعوئوں کی پولیں بھی جس بری طرح کھل کر سامنے آرہی ہیں وہ بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں اور یہ بات بھی “دفاع” کرنے والوں کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ثابت ہو رہی لیکن کیونکہ “ینگ برادر” شک دور کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ اس سلسلے میں ہر قسم کے جوتے کھانے کیلئے تیار ہے۔

طاہر عمران آگے چل کر لکھتے ہیں ” وزیراعظم کی سکیورٹی کے حوالے سے پولیس کے ایک سینیر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا پی ایم سیکریٹیریٹ سے لے کر بنی گالہ تک پولیس اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر کے راستے میں بھی اضافی نفری تعینات کی جاتی ہے”۔

یہ ادضافی نفری اور ہیلی کوپٹر کے سارے راستے میں اضافی پولیس یا حساس اداروں کی نگرانی کیا پروٹو کول نہیں؟۔ کیا ہیلی کوآپٹر کا سفر غیر محفوظ نہیں؟۔ کیا روٹین کا آنا جانا کسی بھی قسم کے نشانے پر نہیں آسکتا؟۔ کیا ہیلی کوآپٹر گرایا نہیں جاسکتا؟۔ اورکیا یہ سب عمل پروٹوکول نہ لینے کے دعوے کے خلاف نہیں؟۔ یہ ساری باتیں وہ ہیں جو چھوٹے (ینگ) بھائی کا “شک” دور کرنے کی جانب گامزن ہیں اور جن کا دفع بہت عرصہ جاری نہیں رکھا جاسکتا۔

طاہر عمران اپنی رپورٹ میں آگے چل کر لکھتے ہیں ” آرمی ایوی ایشن سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے جب میں نے یہ سوال کیا تو ان کا جواب تھا کہ ایک ہیلی کاپٹر کو سٹارٹ کرنے پر ہی ہزاروں کا خرچ آتا ہے بے شک وہ اڑے یا نہ اڑے تو یہ بچپنے والی بات ہے جو کم علمی سے زیادہ کچھ نہیں۔ انہوں نے ازراہِ مذاق کہا کہ عمران خان کے لیے سب سے سستا کام ہے کہ وہ جاگنگ کر کے دفتر جایا کریں جیسے وہ ہر روز صبح کرتے ہیں۔ ورزش کی ورزش اور وقت کی بچت علیحدہ۔ ورنہ ڈچ وزیراعظم کی تقلید سے بھی خرچ میں نمایاں کمی آئے گی۔ مگر خرچ بہرحال ہو گا”۔

عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم جناب عمران خان کی ہدایات کی دھجیاں خود ان کے وزرا اور رفقا اڑانے کے درپے ہیں۔ اگر ان کو ایسے ہی ہمدرد اور دوست ملے ہیں تو پھر آسمان کو ان کی دشمنی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔ شیخ رشید کی بد زبانیاں اور سینئر افسران سے ان کا سلوک تو سامنے آہی گیا تھا لیکن جس طرح ان کا پروٹوکول سامنے آیا ہے اور جس طرح ان کے راستے سے موٹر سائیکلیں ہٹائی اور گرائی گئی ہیں اور ایک شہری کے احتجاج پر شیخ رشید کے منھ سے جو پھول جھڑے ہیں، کیا ان کا دفع کیا جاسکتا ہے اور کیا اب بھی چھوٹے (ینگ) بھائی کا شک دور نہیں ہوجانا چاہیے؟۔

پھر ابھی یہ سب کچھ ہو ہی رہا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب “بزدار” صاحب کا ایک ہسپتال کا دورہ ایک غریب بچی کی جان لے گیا۔ سندھ میں جناح ہسپتال کے پی پی کے سینئرز کے پروٹوکول کی وجہ سے بھی اسی قسم کا معاملہ ہوا تھا تو پی پی کو جواب دینا مشکل ہو گیا تھا۔ اگر ان کیلئے پاکستان میں قیامت برپا کی گئی تھی اور کرنے والے بھی موجودہ حکمران تھے تو پھر کیا وہ جوابدہی سے بچ سکیں گے؟۔

پھر یہی نہیں ہوا، پاک پتن کے دورے اور حاضری کے دوران بھی حاضرین کے ساتھ بہت کچھ بد سلوکی ہوئی اور بازار تک بند کرا دیئے گئے۔ کیا یہی پروٹوکول تھا جس کی ہدایات وزیر اعظم نے جاری کی تھیں؟۔

جہاز کا سفر شیڈول کی فلائٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے جس کیلئے عمران خان نے ہدایات جاری کی تھیں لیکن بزدار صاحب کیلئے سرکاری جہاز کا استعمال زیادہ موزوں تھا اور پھر ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ اس جہاز کے مزے ان کا خاندان بھی نہ لوٹے۔

یہ اور ایسی قسم کی بہت ساری باتیں ایسی ہیں ہیں جس کی وجہ سے ایک ہفتے کے اندر اندر پی ٹی آئی میں کافی دراڑیں پرتی محسوس ہو رہی ہیں جس کی ابتدا کراچی سے تو ہو ہی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ ابھی اس میں وہ شدت نظر نہیں آئے اور سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی چھوٹے (ینگ) بھائی کی انا سچ اگلنے میں مانع ہو لیکن ایک دن پی ٹی آئی کا ہر جھوٹا (ینگ) یہی کہہ رہا ہوگا کہ “چلو شک تو دور ہوا”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں