سیاست سے گریز کریں..ماضی قریب کے جھروکے سے

                سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے۔ اس میں جتنے بھی کھلاڑی ہوتے ہیں ان کے نزدیک نہ تو انسانی جانوں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ سرکاری و غیر سرکاری املاک کی۔ حد تو یہ ہے اپنے مقاصد کے سامنے کسی کھلاڑی کے نزدیک ریاست تک کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ کسی ملک میں کیا ہوتا ہے، کیا ہوتا رہا ہے اور ،مستقبل میں کیا ہوگا، اس سے مجھے کوئی مطلب ہے نہ بحث لیکن میرے ملک میں کیا ہو تا رہا ہے، کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے، میرا ہی کیا ہر پاکستانی کا تعلق جسم و روح جیسا ہے۔

                اس بات سے پاکستان کا بچہ بچہ اور دنیا کا ہر ملک واقف ہے کہ پاکستان بنانے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول کے بنائے ہوئے قانون کو نافذ کیا جائے گا لیکن پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی یہ بات الم نشرح ہو گئی کہ یہ نعرہ بھی “سیاست” کے سوا کچھ نہیں تھی اور اس سیاست کی نذر 20 لاکھ سے زیادہ افراد کی قربانیوں کو اس طرح بھلادیا گیا جیسے وہ سب کے سب مچھر اور مکھی تھے جو اس راہ میں شہید ہوئے۔ جو زندہ رہے اور ہیں وہ بھی آج تک ”اپنے“ ملک میں عزت و وقار کی زندگی گزارنے سے محروم ہیں اور مختلف اداوار میں وہ اسی طرح ستائے گئے اور تا حال ستائے جارہے ہیں جس طرح تقسیم ہند سے پہلے اور تقسیم کے موقع پر ستائے گئے تھے۔ وہ زندہ تو ہیں لیکن اس طرح جیسے اس علاقے کے افراد جس کو فتح کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک ان کی وفاداریوں کو مشکوک سمجھا جاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی قربانیوں سے ہی یہ مملکت خدادادوجود میں آئی اور اس کے وجود میں آنے کے بعد بھی اس ملک کو اس کے پاوں پر کھڑا کرنے میں ان ہی کا مرکزی کردار رہا اس لئے یہ ہی وہ طبقہ تھا جس کا اوسط علم و ہنر میں سب سے زیادہ تھا اور یہی وہ افراد تھے جو پاکستان کے ہر ادارے میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتے تھے۔

                جیسا کہ میں نے کہا کہ سیاست رحم سے خالی ہوتی ہے اور اس کے سینے میں جو دل ہوتا ہے اس میں دھڑکنوں کی بجائے “مفاد مفاد” کی صدا آرہی ہوتی ہے۔ جوں ہی پاکستان بنا، پاکستانیوں کے مفادات بدل گئے۔ مفادات بدل گئے تو لگایاجانے والا ”نعرہ“ بدل گیا۔ جب نعرہ ہی بدل گیا تو پاکستان ہی بدل گیا جس کی وجہ سے وہ قربانیاں بھی گئیں اور اس ملک کو بنانے کا مقصد بھی فوت ہو گیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ سیاست نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ جس گھر کو مسلم قوم نے خود بنایا تھا اس کو دولخت ہوجانے پر بھی اسے کچھ دکھ نہیں ہوا کیونکہ سیاست کی لغت میں ”دکھ“ نام کا کوئی لفظ ہوتا ہی نہیں ۔

                شاباش ہے باقی ماندہ ملک کے عوام کی بھی جو بار بار اسی پرانے نعرے (اسلام) پرمسلسل جوش میں آتے رہے اور دھوکے پر دھوکا کھاتے رہے اور مفاد پرست اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے پر انھوں دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینکتے رہے۔ ایک ایسے ملک کوجس کے لوگوں نے اسلام کے نام پر اس کو بنایا، پھر تاحال وہ اسی نعرے پر ہر قربانی دینے پر تیار و آمادہ ہوئے، وہ اب اسی نعرے سے اس حد تک بیزار ہوچکے ہیں کہ کسی بھی تحریک میں وہ ”نعرہ“ سننا تک گوارہ نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ قائدین جو اسی ایک نعرہ مستانہ پر قوم کے جذبات پر کھیلا کرتے تھے اب اپنی تحاریک میں کبھی “جمہوریت”کا نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں، کبھی “روٹی کپڑا مکان” پر لوگوں کو جمع کرنے کی سعی و جہد کرتے ہیں اور کبھی “نئے پاکستان‘”کی تعمیر کے نام پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے کی مہم جوئی پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں۔ وہ نعرہ جس کیلئے مسلمانان ہند نے لاکھوں قربانیاں دیں اب شاید ہی کسی تحریک کا روح رواں بن کر اس کو مہمیز بخشنے کا سبب بن سکے۔

                ریاست اور اس کی حرمت کا سبھی نام لیتے ہیں لیکن کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو اس ریاست کا احترام کرتا نظر آرہا ہو۔ سب اس بات کو ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں کہ میرا “اقبال” سب سے بلند ہے۔ حکومت ہو، افواج پاکستان ہوں یا عدالت، سب کی اول تا آخر یہی کوشش اور خواہش ہے کہ رہے نام “ان کا” یعنی باالفاظ دیگر (خدانخواستہ) بے شک پاکستان نہ رہے۔ یہاں ضمنی طور پر میں ایک بات ضرور کہنا چاہونگا کہ “اصل پاکستان”تو 1971 میں ہی ختم ہو گیا تھا۔ پاکستان ایک خطہ زمین ہی کا نام نہیں تھا بلکہ یہ ایک نظریہ کا نام تھا۔ ایسا نظریہ جس میں کسی “عصب”کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔ جو ملک بنا “بناعصب “تو ٹوٹا کس بنیاد پر؟۔ جب ٹوٹنے کی بنیاد “عصبیت” کے علاوہ اور کچھ تھی ہی نہیں تو نہ خطہ”پاک”رہا اور نہ ہی نظریہ کا نام لینے والے مخلص۔

                حالیہ دھرانا بھی گزشتہ تحاریک کی طرح دھوکے کی ایک ٹٹی ثابت ہوا اور یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں پتھر ہوتاہے۔ بیس بائیس دنوں میں کیا کیا کچھ نہیں ہوگیا۔ جانی نقصان ہوا، مالی نقصان ہوا، لاکھوں انسانوں کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی۔ ریاستی پراپرٹیز کی توڑ پھوڑہونا، ذاتی جائیدادوں کا نذر آتش ہونا۔ وہ کونسا شدید نقصان ہے جو ان بیس بائیس دنوں میں نہیں ہوا۔ جمہوریت کو گالیاں، عدالتوں کو گالیاں، پولیس اور مخالفین پرکفر کے فتوے، ناموس رسالت کے نام لیواوں کے منہہ سے گالیوں اور فحش کلمات کا طوفان اور ان سب سے بڑھ کر ہر فحش گوئی پر اللہ اکبر و سبحان اللہ کے بلند ہوتے نعرے۔ گویا یہ ظلم کی وہ آخری حد ہے جوپاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ کی گئی۔

                لبیک یا رسول اللہ ﷺ کی تحریک جس مقصد کیلئے چلائی گئی وہ ان تمام تحاریک کی طرح اختتام پزیر ہوئی جس طرح پاکستان میں اور بیشمار تحاریک جو اسلام کے نام پر ماضی میں چلائی جاتی رہی ہیں اپنے انجام کو پہنچیں۔ اگر تحریک کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی ذمہ داران ہیں ان کو سامنے لایا جائے اور پھر ختم نبوت کے قانون کے مطابق ان کو سزا دی جائے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جبکہ ان کا دعویٰ تھا کہ جب تک ایسا نہیں ہوگا ہم اپنا دھرنا کسی صورت ختم نہیں کریں گے۔ اگر ان کا مقصد صرف یہی تھا کہ قانون کو اصل صورت میں بحال کیا جائے تو وہ تو ہوہی چکا تھا پھر اتنے بڑے کھڑاک کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔

                یہی وہ باتیں ہیں جو اداروں اور اداروں کے درمیان شک و شبہات کو جنم دیتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والوں کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ کون کس مقصد کیلئے سڑکوں پر براجمان ہے اور عام زندگی کو کیوں اجیرن بنا رہا ہے، اس کاکام اس قسم کی کسی بھی صورت حال کے پیدا ہوجانے پر ایسے عناصر کو کسی بھی غیرقانونی اور غیر انسانی کام سے روکنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کاکام یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی رٹ کا بھرم رکھے لیکن انتظامیہ کا کام بھی نیند کی گولی کھا کر سوجانا نہیں ہوتا۔ کوئی ایک ادارہ تنہا پورا ملک نہیں چلاسکتا۔ سب مل کر ہی ایک ریاست کو چلایا کرتے ہیں لیکن ان باتوں سے صرف حکومت ہی کا کمزور ہونا ظاہر نہیں ہوتا دنیا کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ سارے ادارے اپنے اپنے مفادات سے آگے سوچنے کیلئے تیار نہیں اور یہی وہ کمزوریاں ہوتی ہیں جو بیرونی مداخلتوں میں آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔

                پاکستان میں بغا وتیں ہوتی رہی ہیں جس کا سلسلہ 1958 سے جاری ہے لیکن اس قسم کی کسی بھی فوجی مداخلت کو بغاوت اس لئے نہیں سمجھا گیا کہ اس پر عوام یا اس وقت کی حکومتوں کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ حکومتی کمزوریوں کو جواز بنا کر ایسا ہوتا ضرور رہا لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جن جن الزامات کو جواز بناکر افواج پاکستان نے اقتدار پر آنے کی راہ نکالی ان الزامات پر نہ تو کوئی مقدمہ کیا گیااور نہ ہی ان الزمات کے دوبارہ ہو جانے کی راہوں کو مسدود کیا گیا۔ یہی وجہ سے کہ ہر مارشل لا کے نتیجے میں ملک کے حالات سدھار کی جانب جانے کی بجائے بگاڑ کی جانب ہی گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ نہ تومارشل لا کے آئے بنتی ہے اور نہ جائے۔ حکومت ایک ایسے دوراہے پر آکر کھڑی ہو گئی ہے جس کو عالم برزخ ہی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی ادارہ کسی کے قابو میں نہیں۔ سب اپنی اپنی اناوں میں مقید نظر آرہے ہیں۔

                حالیہ دھرنے کا متنازع اختتام ملک میں ایک نئی بحث کا باب کھول گیا ہے اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ پاکستان میں اداروں کے درمیان قربتیں کم اور دوریاں زیادہ ہیں۔ بہت قریب کی بات ہے کہ پاکستان میں دو اداروں کے درمیان کافی قربت محسوس ہوتی تھی جن میں عدلیہ اور دفاع شامل تھے لیکن اب وہ بھرم بھی درہم برہم ہوگیا۔ وہ بحران جو لبیک یا رسول اللہ ﷺ کے دھرنے اور ان کے خلاف ایکشن کی صورت میں پاکستان میں برپا ہو چکاتھا، ایک عسکری اور سول مداخلت کے معاہدے کی صورت میں اپنے اچھے انجام کو پہنچا وہ اپنی تمامتر اچھائیوں کے باوجود کئی سوالات اٹھا گیا اور عدلت اور ادارے کے درمیان اختلافات کو عیاں کر گیا۔ جسٹس شوکت کے اٹھائے گئے چند استفسار درج ذیل ہیں جن پر اگر غور نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں صورت حال اور بھی گھمبیر صورت اختیار کر سکتی ہے۔

                ان کا کہنا ہے کہ “قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان فوج کا ثالثی کردار قابل قبول نہیں ہے”۔ “انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات کو فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟”۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ “اگر فیض آباد کے قریب حمزہ کیمپ کی بجائے فو ج کا ہیڈ کوراٹر ہوتا تو تب بھی مظاہرین اسی جگہ پر دھرنا دیتے؟”۔ دھر نے کے دوران دھرنے والوں نے عدالت کے خلاف نہ صرف سخت باتیں کیں بلکہ غلیظ گالیاں بھی بکیں لہٰذا ان کا کہنا تھا کہ ” حکومت اور دھرنا دینے والی قیادت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے اس میں ججوں سے معافی مانگنے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا”۔ یہی نہیں جسٹس شوکت نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ جس جنرلوں کو سیاست کا شوق ہے وہ استعفیٰ دے کر سیاست کریں اور یہ بھی کہ ریاستی ادارے ہی ریاستی دشمنی پر اتر آئے ہیں”۔

                اس میں کوئی شک نہیں یہ باتیں صرف ریمارک کے حد تک ہی ہیں اوروہ بھی کسی ایک جج کی لیکن یہ وہ باتیں ہیں جو وقتاً فوقتاً کئی سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی عدالت کے جج نے کھل کر سخت باتیں کی ہوں اور یہ باتیں کہہ جانے کے بعد اپنے انجام کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی بر ملا کیا ہو۔

                پاکستان میں” اٹھالئے” جانے اور ماورائے عدالت مارے جانے کے بارے میں پاکستان میں اور پاکستان کے باہر ویسے ہی ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ جسٹس شوکت کے ریمارکس اس میں اور بھی جان ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے اپنا اپنا اعادہ خود کریں، خود مربوط و مضبوط ہوں اور سب مل کر پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ پاکستان ہے تو سب ہیں پاکستان نہیں تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں