سینے یا رازوں کے قبرستان

مجھے بہت پہلے کی باتوں کا تو علم نہیں لیکن جو بات بہت اچھی طرح یاد ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے ریٹائرڈ سالارِ اعظم اسلم بیگ وہ پہلے گوشہ نشین سالار تھے جن کو عدالت نے اپنی حضوری میں طلب کرنے کی جسارت کی تھی۔ کوئی اسکینڈل تھا جس کا جواب انھیں عدالت میں دینا تھا۔ انھیں اس اسکینڈل سے انکار بھی نہیں تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ “اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں”۔ یہ کہنا بھی رو برو عدالت تھا۔ گویا ان کو اس بات سے کوئی انکار نہیں تھا کہ “کچھ غلط” ہے البتہ بقول ان کے وہ کوئی پنڈورا بکس نہیں کھولنا چاہتے اور شاید عدالت بھی کبھی اس قسم کے صندوقوں کو کھولنا کبھی پسند نہیں کرتی جس کے کھل جانے پر “تصویر بتاں اور حسینوں کے خطوط” برآمد ہوں اور حسن و عشق رسوا ہوں اس لئے چند ہی پیشیوں کے بعد معاملہ رفع دفع ہوگیا اور “رات گئی بات گئی” والی کہانی تمام ہوئی۔

پاکستان کا کوئی بھی “فلور” ہو وہاں سے یہی جملے سننے کو ملتے ہیں “میرامنھ نہ کھوائیں ورنہ میں فلاں فلاں راز افشاں کر دونگا” وغیرہ وغیرہ۔ ریلیاں ہوں، جلوس ہوں، جلسے ہوں، قومی و صوبائی اسمبلیاں ہوں، ٹی کی ٹاک شوز ہوں یا سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کے انٹر ویوز، ہر فلور سے اسی قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ اگر مجھے چھیڑا گیا تو پھر وہ قیامت برپا ہوگی کی پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے گالوں کی مانند اڑنے لگیں گے۔ اس قسم کی دھمکیاں ہر ایک کی ہر دوسرے کیلئے اور ہرایک دوسرے کی ہر پہلے کیلئے اتنی عام ہو گئی ہیں کہ جہاں کسی نے کسی دوسرے کی دم پر پاؤں رکھا، دوسرا شعلہ جوالہ بن جاتا ہے۔ جب اس قسم کی باتیں، دعوے اور دھمکیاں سامنے آتی ہیں تو عوام کے کان انٹینے کی مانند کھڑے ہوجاتے ہیں اور لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب کسی “شریف” انسان کا نام منظر عام پر آئے لیکن آج تک ان دھمکی آمیز بیان کے بعد آگ سرد ہوجاتی ہے اور اس وقت تک سرد رہتی ہے جب تک پھر کوئی کسی کی دم پر پاؤں رکھے۔

مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ایک دوسرے کو دھمکانے والے یہ تمام افراد عام طور پر یا تو عوام کے چھوٹے بڑے سیاسی رہنما ہوتے ہیں یا پھر بڑے بڑے عہدوں پر فائز وہ افراد جو ملک کی دولت اور وسائل پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹے ہوئے لوگ۔ سب سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے وہ جب رازوں کو افشاں کرنے دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں تواس وقت بھی یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان رازوں کو افشاں کرنے پاکستان کا بھلا ہے اور جب ان رازوں کو بیان نہ کرنے کا سمجھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی ان کا استدلال یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کی عزت و وقار کی وجہ سے ان کو بیان نہ کرنا یا چھپانا پاکستان کیلئے بہتر سمجھتے ہوئے انھیں اپنے سینے میں ہی دفن کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ایسے موقعہ پر مجھے گداگروں کی وہ صدا یا آجاتی ہے جو یہ کہتے ہوئےآپ کے قریب سے گزرجاتے ہیں کہ “جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا”۔ وہسے اگر غور کیا جائے تو یہ بھی گدا گر ہی ہیں جو الیکشن کے الیکشن عوام کے درمیان ووٹوں کی بھیک لینے جھولیاں پھیلائے پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک بھکاری بھیک لینے کے بعد آپ کو دکھائی نہیں دیتا اسی طرح یہ بھی بھیک میں ملے ووٹ لیکر اگلے الیکشن کیلئے غائب ہوجاتے ہیں۔

یہ ساری تمہید جو میں نے باندھی ہے بے شک کسی حد تک شوخ انداز میں باندھی ہے لیکن اللہ گواہ ہے کہ

بظاہر مسکراتے ہیں مرے لب

مگر اندر کا انساں رو رہا ہے

سوچتا ہوں کہ یہ کسے ظالم اور شقی لوگ ہیں جن کو قوم کے دکھ درد کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ انھیں اگر مطلب ہے تو صرف اور صرف اپنی ذات سے ہے خواہ اپنی ذات کی آبیاری کیلئے چمنِ پاکستان کو اجاڑ ہی کیوں نہ دیا جائے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے ” وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ایل پی جی کوٹہ اسکینڈل میں بڑے بڑے سیاسی لوگوں کے نام ہیں ،اگر بتا دوں تو تہلکہ مچ جائے لیکن میں یہ گندا کام نہیں کروں گا ، تحقیقات کرنا تحقیقاتی اداروں کا کام ہے ، مجھے الزام لگانے کی ضرورت نہیں ہے ، دولت کمانے کے خواہشمندوں نے بہت بڑے کوٹے الاٹ کیے جو قوم کے ساتھ ظلم تھا”۔ دیکھا آپ نے، یہ کون بول رہا ہے؟۔ “اسلامی” جمہوریہ پاکستان کی حکومت کا سب سے بڑا عہدیدار، وزیر اعضم پاکستان، ایک بہت بڑا نام خاقان عباسی۔ جس کو بروز حشر اس بات تک کا جواب بھی دینا پڑے گا کہ “نیل” کے ساحل پر ایک کتا بھوک سے کیوں مرگیا۔ وہ فرمارہے ہیں کہ ایل پی گی کوٹے میں “اسلامی” جمہوریہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی لوگوں کے نام ہیں لیکن میں اس گند میں نہیں پڑنا چاہتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب وزیر اعظم کسی گند میں نہیں پڑنا چاہتے تھے تو اس بات کا ذکر ان کے لبوں تک ہی کیوں آیا اور دوسرا اہم نقظہ یہ ہے کہ گند آخر ہے کس لحاظ سے؟۔ کیا کرپشن اور کرپشن میں شامل افراد کو بے نقاب کرنا گند کا کام ہے؟۔ وہ لوگ جو پاکستان کے عوام کی دولت کو یوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہوں ان کے چہروں سے نقابیں نوچ نوچ کر پھینکنا گند ہے یا جو ایسے کرپٹ اور آستینوں کے سانپوں کے ناموں کو قوم سے پوشیدہ رکھیں وہ گند اور جرم عظیم ہے؟۔ پھر فرمارہے ہیں کہ یہ کام تحقیاتی اداروں کا ہے کہ وہ کوٹہ اسکینڈل میں ملوث لوگ کو بے نقاب کریں، میں ان کی اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ یہ کام تحقیقاتی اداروں کا ہی ہے لیکن جس ملک کے وزیر اعظم کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا ہو اس کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تحقیقاتی اداروں تک ہر وہ بات پہنچائے جس کا اسے علم ہو۔ لہٰذا میں یہ کہوں کہ تحقیقاتی ادارے وزیر اعظم پاکستان کو گرفتار کریں اس جرم پر کہ اس نے جانتے بوجھتے مجرموں کے ناموں کو چھپایا اور پھر عدالت سے استدعا کریں کہ نہ صرف جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی پر ان کو نااہل قرار دیا جائے بلکہ ان کی گرفتاری کے باقائدہ احکامات بھی جاری کئے جائیں۔

ایک ایسے ملک کا وزیر اعظم جس کے ساتھ “اسلامی” بھی لگا ہوا ہو اور وہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو جانتا بھی ہو اور پھر بھی ان کے ناموں کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہو اس کو تو ایک لمحے کیلئے بھی ایسی کرسی پر بیٹھنے کاکوئی حق پہنچتا ہی نہیں۔ اگر اس بات کا علم کہ وہ بہت بڑے بڑے ڈاکوؤں کو جانتے ہیں، اداروں کو پہلے نہیں بھی پتا تھا تو اب تو وہ خود ہی اقراری مجرم بن چکے ہیں اس لئے کم از کم اب تو ان کو گرفت میں لینا ہر صورت میں بنتا ہے۔

وزیر اعظم “اسلامی” جمہوریہ پاکستان یہ بات کوئی رازداروں کے درمیان بیٹھ کر نہیں کہہ رہے ہیں اور ناہی یہ بیان پولیس کے ڈرائنگ روم سے باہر آیا ہے جس کو شک کی نظر سے دیکھا جائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو وزیراعظم آفس میں تیل و گیس کے شعبے میں اپنی حکومت کی 5سالہ کارکردگی کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔ اول تو ہمارے میڈیا کا یہ عالم ہے کہ وہ سیاستدانوں کا تعقب ان کے واش روموں کے اندر تک گھس کر کرتا ہے اور اب جبکہ وہ خود ہی اپنے سارے کپڑے میڈیا کے سامنے اتار کر بیٹھ گئے ہیں تو ان کی یہ پریس کانفرس عدالت کیلئے ایک ڈاکومنٹری ثبوت بھی بن گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کی تشہیر اب پوری دنیا میں ہوجانے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خاقان عباسی عدالت کو ایل پی جی اسکینڈل میں مطلوب بھی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ جب جب بھی کسی کی دم پر قانون یا قانونی اداروں کا پیر پڑتا ہے اس کے منھ سے چیخیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پھر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ وہ “مگرمچھوں” کا حوالہ دینا شروع کردیتا ہے سو اگر وزیر اعظم ایسے موقعہ پر بھی مگر مچھوں کا ذکر نہ کرتے تو پاکستان کی روایات کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیئے جاتے۔ کیا وزیر اعظم یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جس بات پر ان کی طلبی ہونی ہے اس بات کو انھوں نے عدالت سے باہر کیوں آشکار کیا؟۔ کیا اس کامقصد یہ ہے کہ وہ سب مگرمچھ جو اس اسکینڈل میں شریک ہیں وہ سب ایک ہوکر عدالت طلبی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے تو میں اکیلا کسی صورت اپنی گردن نہیں کٹواؤنگا۔ جب جنرل مشرف کو بھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا تو ان کا بیان بھی یہی تھا “میں اکیلا نہیں تھا”۔ یہی وہ رویے ہیں جس کی وجہ سے آج تک کوئی عدالتی کارروائی اپنے آخری انجام تک نہیں پہنچ پائی۔

اے پی این ایس ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ غلط خبروں نے ن لیگ کی حکومت کو بہت نقصان پہنچایا،خدا کرے عام انتخابات وقت پر ہوں اور ان کا حشر بلوچستان حکومت اور سینیٹ الیکشن جیسا نہ ہوجائے ،ایسے انتخابات کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ منفی خبروں کا بہت برا اثر ہوتا ہے،میری خواہش ہے کہ غلط
خبروں کا ازالہ کرنے کے لیے ایک نظام بنایا جائے،ہم نے پہلی بار ایسا کیا کہ ان 5برس میں ایک روپے کا بھی سیکرٹ فنڈ نہیں دیا گیا،مشکل ترین لمحوں میں بھی آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے۔وزیراعظم کے بقول میں میڈیا پر سنسر شپ لگانے کا مخالف ہوں لیکن میڈیا خود بھی تو اپنا رویہ درست کرے،خبروں اور رپورٹس میں مثبت پہلو سامنے لانے چاہئیں،پے درپے منفی خبروں کے بعد ہمارے سامنے تجویز تھی کہ وقتی طور پر سوشل میڈیا پر سنسرشپ عاید کی جائے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اس پر فخر ہے، جدید دنیا میں سنسر شپ نہیں چل سکتی، سوشل میڈیا کے دور میں سنسر شپ بے سود کام ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہمارا میڈیا ان باتوں پر زیادہ نظر رکھنا ہے جس میں منفی رجحان زیادہ ہو۔ منفی پہو ہونا اور خبر کا غلط ہونا دونوں الگ الگ باتیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کمزوریوں کو اجاگر نہیں کریگا تو پھر اور کون کریگا۔ کسی بھی حکمران کیلئے تنقید اس کو رہنمائی فراہم کرتی ہے اس لئے حکمرانوں کو تنقید پر ملامت کی بجائے اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ البتہ میڈیا کو بھی میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور مثبت پہلوؤں کو بھی اپنی رپورٹوں حصہ بنانا چاہیے۔ ان باتوں سے عوام کی مایوسیاں دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں