سیاست کےبیم و رجا

عجب پاکستان ہے، عجب قوم ہے اور عجب آئین و قانون ہے۔

ایک ایسا ملک جس میں کسی بات میں قطعیت نہ ہو۔ مارشل لا بھی ٹھیک ہی ہے جمہوریت بھی واہ بھئی واہ۔ بس اب فوجی حکومت کے بعد کوئی اور نظام نہیں آئے گا؟، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اچھا پہلا فوجی نظام تو بعد میں صدارتی نظام بن گیا تھا، تو کیا ہوا بعد کا فوجی نظام اس سے مختلف تھا اور عین ممکن تھا کہ وہ پارلیمانی نظام ہی بن جاتا لیکن برا ہو جنیجو کا جو “کرپٹ” نکلا اس لئے منصوبہ بدلنا پڑگیا۔ پھر کوشش کی گئی اس نظام کو خلافت میں بدل دیا جائے لیکن آموں کی پیٹیاں خلیفہ کو پورے جہاز سمیت لے اڑیں۔ پھرمجبوراً جمہوریت کو بحال کرنا پڑا لیکن پاکستان کی قسمت میں “ایک ادارے” کے سوا کوئی اس قابل ہی نہ ملا جو حکومتی امور کو آگے بڑھا سکے لہٰذا بیوقف عوام کے بیوقوفانہ فیصلوں کے نتیجے میں منتخب حکمرانوں کی خوب خوب تواضع کی گئی۔ مگر سیاست کی نیا پار نہ لگتے دیکھ کر ایک اور بھرپور تجربہ کیا گیا اور عسکری و سویلین کی “کاک ٹیل” تیار کی گئی۔ بقول فراز

غمِ دوراں میں غم عشق بھی شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں

 عسکریوں نے صدارت سنبھالی تو عسکریوں ہی نے ساری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ملاکراوران کو”ق” کے ساتھ پیوست کرکے ایک عجیب کھچڑا تیار کیا گیا لیکن جب چکھا تو مصالحہ ندارد اس لئے اس میں “پیٹریاٹ” کا تڑکا لگاکرعوام کے سامنے فخریہ پیشکش کے بطور پیش کیا گیا۔ کیونکہ عوام جب بھی اس بدذائقہ ہانڈی کو کھانے سے گریز کرتے ہوئے اپنے پیچھے کی جانب دیکھتے تو انھیں بندوقیں نظر آتیں اسلئے چاروناچار مقرہ مدت تک اسے کھانا ہی پڑا۔

جمہوریت کی گاڑی بڑی مشکل سے دوبارہ پٹڑی پر چڑھی لیکن گزشتہ دس برس سے تا حال یہی لگتا رہا کہ گاڑی اب ڈی ریل ہوئی کہ تب ڈی ریل ہوئی۔ اب جبکہ جمہوریت کی گاڑی ہچکولے در ہچکولے کھاتی، گرتی پڑتی لڑکھڑاتی اپنے آخری اسٹیشن پر پہنچا ہی چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو نئے الیکن کی سمری مع مجوزہ تواریخ منظوری کیلئے ارسال کر دی ہے لیکن وہی بات قوم مسلسل اس سوچ میں مستغرق ہے کہ کیا واقعی الیکشن ہونگے؟ اور اگر ہوئے تو کیا وقت مقررہ پر ہی ہونگے؟۔

کبھی سوچا کہ آخر پاکستان میں یہ امید و ناامیدی کی کیفیت کیوں پائی جاتی ہے؟۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان میں قانون اور آئین نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ یہاں جس کے پاس لاٹھی ہے بھینس بھی اسی کی ہی ہے۔ اب بھینس کا مالک خواہ روئے پیٹے، شور و غوغا مچائے، چلائے یا فریاد پر فریاد کرے، منصف نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہوگی بھینس اسی کے حوالے کی جائے گی۔ اب اگر بھینس کے مالک میں اتنا تپڑ ہے کہ وہ لاٹھی والوں کے ہاتھوں سے لاٹھی چھین سکتا ہے تو قاضی کو بہر صورت اپنے فیصلہ پر اسی طرح اٹل پائے گا۔

پاکستان کے کچھ گوالے (سیاسی پارٹیاں) بھی وقت کے ساتھ ساتھ سیانے ہوتے جارہے ہیں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ نہ تو وہ لاٹھی والوں سے لاٹھی چھین سکتے ہیں اور نہ ہی قاضی اپنا فیصلہ کبھی بدلے گا لہٰذا اگر بھینس بچانی ہے تو لاٹھی سے صلح ہی کر لی جائے لیکن کچھ نادان “گوالے” اس فریب میں مبتلا ہیں کہ بھینس کے دودھ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اس لئے وہ لاٹھی کو چھین ہی لیں گے۔ ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ “بیم و رجا” کی یہ ایسی کیفیت ہے جس میں کبھی بھینس کے دودھ کی طاقت اپنا کام کر دکھاتی ہے اور کبھی لاٹھی کی سرکار کی بن آتی ہے اور دودھ کالا قرار پاتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے سمری صدر مملکت کو بھجوا دی ہے ،عام انتخابات میں فوج کی تعیناتی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا،15جولائی تک انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے جائیں گے،عام انتخابات میں رزلٹ مینجمنٹ اور رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کا استعمال کیا جائے گا،پولنگ عملے کی انتخابی بے ضابطگی میں ملوث ہونے پر کمیشن سزا بھی دے سکے گا جبکہ انتخابی امیدواروں کی بے ضابطگیوں پر انتخابی عمل سے باہر رکھنے سمیت 50ہزار روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے ۔انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو سمری ارسال کر دی ہے ،پیر کے روز بھجوائی جانے والی سمری میں الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے لیے3 تاریخیں تجویز کی گئی ہیں جس میں 25،26اور 27جولائی کی تاریخیں شامل ہیں، انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹری ظفر اقبال نے بتایاکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت 31مئی کو ختم ہورہی ہے۔ کمیشن نے عام انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں زیادہ تر انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں 85ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے جائیں گے جبکہ 2لاکھ 85ہزار سے زاید پولنگ بوتھ بنائیں جائیں گے اور مجموعی طور پر تقریباً9لاکھ کے قریب پولنگ کا عملہ انتخابی فرائض سرانجام دے گا ۔

اگر قوم کو گرمی نے زیادہ پریشان نہ کیا ہو اور ان کا بھیجا گرمی کی شدت کی وجہ سے ناک کے راستے لسی بن کر نہیں بہہ گیا ہو تو اس کو ایک بات بھولی تو نہیں ہوگی کہ نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ آئندہ جو بھی انتخابات ہونگے وہ انتخابی اصلاحات کے بعد ہونگے۔ اگر طبع نازک پر گراں نہ ہو تو اس پیاری پیاری قوم سے اتنا تو پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا انتخابی طریقہ کار میں وہ تمام تبدیلیاں ہو چکی ہیں جن کے بغیر ہر آنے والے نتیجے کو شفافیت کا درجہ حاصل ہو جائے گا؟۔

یاد رہے کہ یہ مطالبہ سب سے زیادہ اپوزیشن کی انھیں پارٹیوں کا تھا جو آنے والے انتخابات کے تقریباً اعلان ہوجانے کے باوجود اپنی اس بات کو دہرانے کیلئے تیار نظر نہیں آرہیں جس میں اصلاحات کے بغیر الیکشن نامنظور قرار دیئے گئے تھے۔ ہم پہلے ہی عرض کر چکی ہیں کہ کیونکہ پاکستان میں عملاً آئین و قانون کی حکمرانی ہے ہی نہیں اس لئے اصلاحات والی بات اگر حق میں جارہی ہو تو پھر اصلاحات ہی ضروری ہوتی ہیں لیکن بغیر اصلاح احوال معاملہ اپنے حق میں جارہا ہو تو پھر بگڑا ہوا نظام ہی خوبصورت لگنے لگتا ہے۔

پہلے احتساب پھر انتخابات والی بات ضیاالحق کے دور سے شروع ہوئی۔ اس وقت کی تمام اپوزیشن کی پارٹیاں بہت اچھے طریقے سے آگاہ تھیں کہ اگر ضیاالحق نے واقعی انتخابات کرادیئے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کی موجودگی میں، خواہ وہ جیل ہی میں کیوں نہ ہو، کامیاب نہیں ہو سکتیں اس لئے جب جب بھی ضیاالحق نے انتخابات کا اعلان کرنا چاہا (جھوٹ سچ سے ہٹ کر) تمام اپوزیشن کی پارٹیوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ پہلے احتساب۔ یہاں تک بھی ہوا کہ پی پی پی سمیت ایک دو پارٹیوں کا نام لیکر یہاں تک کہا گیا کہ جب تک ان ان پارٹیوں کو کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا ہم انتخابات کے انعقاد کے خلاف ہیں۔

اب معاملہ شاید اس کے بر عکس ہے اور اپوزیشن کی پارٹیوں کو توقع ہے کہ وہ اسی فرسودہ، بنا اصلاحات اور دھاندلی زدہ طریقہ کار کے ذریعے ہی انتخاب جیت جائیں گے اس لئے کہ کچھ پارٹیوں کا قیمہ بنادیا گیا ہے اور کچھ کے ہاتھ پاؤں توڑ تاڑ کر رکھ دیئے گئے ہیں اور صرف لفظ “کالعدم” کا استعمال نہیں کیا گیا ہے البتہ دم اور خم سب نکال دیا گیا ہے نیز لاٹھی بھی ساتھ ہے اور منصف کا فیصلہ بھی لاٹھی ہی ہے تو پھر پرانے گلے سڑے نظام سے خوشبودار نظام اور کیا ہوسکتا ہے لہٰذا اصلاحات کی خیر ہے۔

انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ انتخابی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں بھی کمیشن نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے ۔کمیشن کو ملک بھر سے مجموعی طور پر 1280 اعتراضات موصول ہوئے تھے جن میں 614 اعتراضات انہوں نے بتایاکہ آئندہ عام انتخابات کے لیے پولنگ اسٹاف کو تربیت دینے کا سلسلہ جاری ہے جس کے پہلے مرحلے میں لیڈ ٹرینردوسرے مرحلے میں ماسٹرٹرینرز کی تربیت مکمل جبکہ تیسرے مرحلے میں پریزائیڈنگ اور اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کی تربیت کی جائے گی جو 25جون سے 15جولائی تک جاری رہے گی ۔انہوں نے بتایا کہ انتخابات میں فوج یا رینجرز کی تعیناتی کے بارے میں الیکشن کمیشن نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور اس سلسلے میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا تاہم الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایاکہ انتخابات میں استعمال ہونے والا 70فیصد پولنگ میٹریل کی خریداری کی جاچکی ہے ۔انتخابات میں واٹر مارک بیلٹ پیپر کا استعمال کیا جائے گا جو خصوصی طور پر جرمنی سے منگوایا گیا ہے اور ہر پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز کی تعداد اور اینوائس کے مطابق بیلٹ پیپر فراہم اور وصول کیے جائیں گے۔

اب کوئی یہ سمجھائے کہ جس ملک میں مردم شماری ہی شفاف نہ ہوئی ہو، جس ملک کی آبادی برھنے کی بجائے کم ہو گئی ہو، جس ملک میں 18 سال سے کم عمر افراد کی تعدا ووٹرز کی تعداد کے برابر آگئی ہو اور کچھ شہروں، خصوصاً کراچی جیسے شہر میں ووٹر زیادہ اور 18 سال کی عمر سے کم لوگ آدھے سے بھی کم شمار میں آرہے ہوں اس ملک میں انتخابی حلقہ بندیاں بھی کر لی گئیں ہیں اور اگر کسی جانب سے کچھ اعتراضات اٹھائے بھی گئے ہیں تو ان کو “بحسن و خوبی” نمٹابھی دیا گیا ہے۔ جس ملک میں مجرموں کو سرعام قتل کرتے، ڈاکے ڈالتے اور چوریاں چکاریاں کرتے رنگے ہاتھوں پکڑلیا جاتا ہے ان کو انجام تک پہنچانے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہوں وہاں اگر اتنی اہم بات راتوں رات طے کی جاسکتی ہے تو پھر عدالتوں میں فیصلے برس ہا برس میں ہونا اس بات کا ثبوت ہوا کہ جن معاملات کو انجام دینا ہو وہ اپنے انجام تک پہنچ جاتے ہیں اور جن کو ہوا میں لٹکانا ہو وہ تا قیامت بھی لٹکائے جاسکتے ہیں۔

میں حیران ہوں کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ انتحابات کا انعقاد کرایا ہی جائے؟۔ پھر یہ کہ آخر جب اس اپوزیشن کی نظر میں اس جمہوریت سے بہتر فوجی حکومت ہوتی ہے اور ہر انتخاب کے نتیجے کے بعد جو “اپوزیشن” بنتی ہے اس کی رائے بھی یہی ہوتی ہے کہ اس ناقص حکومت سے “لاٹھی” ہی بھلی تو پھر ہر مرتبہ آخر انتخابات کرائے ہی کیوں جاتے ہیں۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ انتخابات کے نتیجے کے بعد بھی اگر وہ پارٹی جو اقلیت میں ہو اس کی تعداد کو بڑھایا اور جو اکثریت میں ہو اس کی تعداد کو لوٹا کریسی کے ذریعے یا ہم خیال بنا کر یا پیٹریاٹ تشکیل دے کر “بھینس” والوں کو “خر” سے بھی بدتر بنایا جاسکتا ہے تو پھر پارٹی کی بنیاد پر ہی الیکشن کیوں؟۔ بس الیکشن ہوں، ممبران ہوں، ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے ایک جانب ملک میں کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا اور ممبران کو بھی بار بار اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر چھلانگ لگانے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوگی۔

میں عوام پر بھی حیران ہوں کہ جب ان کو معلوم ہے کہ ان کی “پرچی” کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور ان کی “بھینس” بنا لاٹھی کبھی ان کی نہیں ہو سکتی تو وہ اس کھیل کود پر یہ کہہ کر مٹی کیوں نہیں ڈالتے کہ “رات گئی بات گئی”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں