رمضان اور عدالتی احکامات

اس بات کو میں المیہ کہوں یا کوئی اور نام دوں کہ دنیا بھر میں جو کام حکومت اور حاکمانِ وقت کے ہوتے ہیں وہ کم از کم حکومت پاکستان اور پاکستان کے حکام کے ہاتھوں سے ایک ایک کرکے نکلتے جارہے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے پاس کرسیاں ہی رہ گئی ہیں اور وہ بھی نہایت خستہ حالت میں ہیں جن کے پارو و پو باد مخالف کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی بکھیر کر رکھ سکتا ہے۔ حکومت کے جملہ امور سے ان کا اختیار اٹھ چکا ہے اور اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنی ہزار کوشش کے باوجود اپنا جاری کیا ہوا کوئی ایک حکم بھی عوام سے یا متعلقہ اداروں سے منوا سکیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ چاہیں کہ بازار میں غیر معمولی منافع خوری بند ہوجائے تو ایک خوانچہ فروش بھی اس حکم کو ہوا میں اڑادے گا اور حکم نہ ماننے والے خوانچہ فروش کا حکومت بال بھی بیکا نہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات عدالتوں کو آگے آنا پڑتا ہے اور بہت ساری اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو میں لانے کیلئے عدالتی احکامات جاری کرنے پڑتے ہیں۔

چینی کی قیمت ہو یا دودھ اور دہی کی ان سب معاملات میں عدالت ہی کو مداخلت کرنی پڑتی ہے جب کہیں جاکر معاملات طے پاتے ہیں۔

یہ وہ اشیا ہیں جن کو مقامی سطح پر ہی حل ہوجانا چاہیے لیکن دیکھا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، کمشنر ڈپٹی کمشنر وزیر اعلیٰ اور گورنر کے احکامات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے یا باالفاظ دیگر ان کے احکامات کو در خوراعتناع بھی نہ سمجھتے ہوئے اس بری طرح رد کر دیا جاتا ہے جیسے یہ احکامات وقت کے حاکم کے نہ ہوں بلکہ کہ گلی محلے کے بچوں کے ہوں جن کو سننا یا ان کے احکامات پر عمل کرنا سخت توہین کی بات ہو۔

رمضان کے مبارک مہینے اور اس کی فضیلت و اہمیت سے وہ کون مسلمان ہوگا جو واقف نہ ہو۔ اس ماہ کی برکتیں، رحمتیں اور مغفرتیں سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اس ماہ کا ادب و احترام ہر مسلمان مرد و زن پر واجب اور فرض ہے۔ جہاں اس ماہ میں کی جانے والی ایک ایک نیکی کا صلہ عام دنوں سے بہت زیادہ ہے وہیں ہر فرد و بشر کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ماہ رمضان میں کی گئیں لغزشیں، کوتاہیاں اور گناہ بھی شدید قابل گرفت اور لائق تعزیر ہیں۔

رمضان کی ساری برکتیں اور فضیلتیں اور مغفرتیں بے شک ہر فرد کو حاصل ہوتی ہیں لیکن یہ سب اسی کا نصیب بنتی ہیں جس نے اس مہینے کو ان ساری شرائط کے مطابق گزارا ہو جس کا تقاضا یہ ماہِ بابرکت کرتا ہے۔

ہم جس ملک میں رہتے ہیں یہ ملک بھی ہمیں ماہ رمضان میں ہی حاصل ہوا تھا۔ اس ملک کو ملک خداداد بھی کہا جاتا ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس ماہ کے ادب و احترام کی اہمیت اور بھی سوا ہوجاتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے تمام شعبہ ہائے حیات اس کا احترام کرتے نظر نہیں آتے۔ ان تمام شعبوں میں جو سب سے خراب کردار ہے وہ ہمارے الیکٹرونک میڈیا کا ہے۔ ویسے تو یہ پورے سال ہی “غیراسلامی” پروگرام نشر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا لیکن رمضان میں تو یہ بالکل ہی ہتھے سے اکھڑجاتا ہے اور وہ وہ خرافات نشر کرتا ہے جس کا تصور کم از کم کسی ایسے ملک میں ناقابل برداشت ہے جس کو حاصل ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ یہاں وہ دستور نافذ کیا جائے گا جس کا تقاضہ ہمارا خالق و مالک ہم سے کرتا ہے۔

اس قسم کے سارے امور جو حکومت اور حاکموں کے ہوا کرتے ہیں وہ اگر عدالت کو انجام دینیں پڑیں تو بے شک اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس سے حکومت کا کمزور ہونا یا اپنی رٹ کو منوانے میں ناکامی کے اعتراف کا پتہ چلتا ہے۔

یہ ایک خوش کن خبر ہے کہ “اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ رمضان نشریات اور مارننگ شوز میں اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا”

یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اسلام کے حساس موضوعات پر ایسے لوگوں کو مدعو کیا جائے جن کے پاس اسلام کا کوئی مستند علم نہ ہو۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “کرکٹ میچ پر تجزیہ کرنے کے لیے بیرون ملک سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جب کہ اسلامی موضوعات پر بات کرنے کے لیے کرکٹرز اور اداکاروں کو بٹھا دیا جاتا ہے”

میرٹ کا لفظ کیونکہ اب ایک گالی کی شکل اختیار کرچکا ہے اس لئے اب اس بات کا لحاظ کہیں بھی نہیں رکھا جاتا کہ کس پروگرام میں کن افراد کو بلایا جائے۔ اپنی مرضی و منشا کے مطابق افراد کا چناؤ ہوتا ہے جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہر قسم کے پروگرام کو اپنی اور مالکان کی خواہش کے مطابق چلایا جائے۔ اگر ہر پروگرام میں اس پروگرام کے مطابق اہل اور قابل بندوں کو بلایا جائے تو ممکن ہے وہ باتیں بھی سننا یا نشر کرنا پڑجائیں جن باتوں کو چینلوں کے مالکان سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہوں۔ ایسا صرف کسی اسلامی موضوعات کیلئے ہی مختص نہیں ہوتا، ہر قسم کے ٹالک شوز میں سارے مہمانان گرامی چنیدہ اور ذاتی پسند ہی کے شریک کئے جاتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق “۔جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔ پی بی اے، پیمرا، پاک سیٹ کے نمائندے اور درخواست گزار وقاص ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ پیمرا رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے کل 117 میں سے صرف3 چینلز اذان نشر کررہے ہیں۔ ڈی جی آپریشنز پیمرا نے کہا کہ ضابط اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ پی بی اے کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی بی اے چینلز پیمرا آئین اور ضابطہ اخلاق کے تحت چل رہے ہیں، عدالت کوئی عمومی حکم جاری نہ کرے، پیمرا کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لیے ہدایات جاری کرے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سحر اور افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے، میں کوئی ایسا حکم نہیں کرتا جس پر عملدرآمد نہ کراسکوں، اچھل کود کا کلچر عامر لیاقت نے متعارف کرایا باقی سب شاگرد ہیں، عامر لیاقت، ساحر لودھی، فہد مصطفے اور وسیم بادامی باز نہ آئے تو تاحیات پابندی لگا دیں گے۔عدالت نے حکم دیا کہ مغرب کی اذان سے 5منٹ پہلے اشتہار نہیں بلکہ درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کریں، پی ٹی وی کے 8 چینلز کو الگ سے ہدایات جاری کریں گے۔جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عجیب تماشا لگا ہے، حمد ،نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں، رپورٹ پیش کی جائے کہ پاکستان میں انڈین چینلز کون آپریٹ کررہا ہے، جو بھارت سے دوستی کی بات کرے اسے سیکورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے، اداروں کیخلاف بات سنسر ہوتی ہے تو دین کیخلاف کیوں نہیں ہوسکتی”۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ “رمضان کے مبارک مہینے میں پیمرا کی گائیڈلائن کے خلاف کوئی پروگرام نشر نہیں ہوگا اور تمام پروگراموں کی سخت نگرانی کی جائے گی جبکہ خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی ہوگی۔ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو۔ رمضان المبارک میں تمام چینلز پانچ وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان مقامی وقت کے مطابق نشر کرینگے، اسکے علاوہ مغرب کی اذان یعنی افطار کے وقت سے پانچ منٹ قبل درود شریف اور پاکستان کے استحکام ، سلامتی اور امن کیلئے دعا کی جائیگی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ کوئی لاٹری اور جوا پر مشتمل پروگرام، یہاں تک کہ حج اور عمرے کے ٹکٹوں کے حوالے سے بھی کسی چیز کو براہ راست یا ریکارڈ شدہ نشر نہیں کیا جائے گا، اس کے علاوہ نیلام گھر اور سرکس جیسے پروگرام لازمی رکنے چاہئیں۔ وزارت اطلاعات اور داخلہ کے سیکرٹریز اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی رمضان کے پہلے عشرے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی۔ عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ غیر ملکی مواد خاص طور پر بھارتی ڈرامے، اشتہارات اور فلموں پر پابندی ہوگی جبکہ صرف 10 فیصد غیر ملکی مواد ضابطہ اخلاق کے تحت نشر کرنے کی اجازت ہو گی اور اس میں ریاست اور اسلام مخالف چیزوں کی مانیٹرنگ ہونی چاہئے۔ سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے خبر دار کیا گیا کہ میزبان باز نہ آئے تو تاحیات پابندی لگا دیں گے”۔

بے شک اس میں افسوس کا یہ پہلو ضرور ہے کہ ایسا کام اور ایسے احکامات حکومت وقت کی جانب سے جاری ہونے چاہئیں تھے لیکن اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی اور یہ مستحسن قدم عدالت کو اٹھانا پڑا تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ اس بات کا تمام پاکستانیوں کو خیرمقدم کرنا چاہیے۔

میں اپنی جانب سے جسٹس شوکت عزیزصدیقی صاحب کے اٹھائے گئے اس قدم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی خدمت میں کچھ گزارشات بھی رکھنا چاہتا ہوں اور اس بات کی خواہش رکھتا ہوں کہ جہاں انھوں نے اتنا خوش کن قدم اٹھایا ہے وہاں اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ یہ سارے کام محض رمضان شریف اور اس کے بھی مخصوص اوقات تک محدود نہ رکھے جائیں۔ دنیا اس بات سے خوب واقف ہے کہ یہ ملک دین الٰہی کے نفاذ کیلئے ہی وجود میں آیا تھا۔ اب اگر ہمارے چینلوں سے ایسے حلیوں والے لوگ پروگرام نشر کریں گے جن کے لباس کی کوئی ایک تراش خراش تک اسلامی تہذیب و تمدن کی عکاسی نہ کرتی ہو، ان کی سوچ کا اسلامی تعلیمات سے قریب کا بھی واسطہ نہ ہو، خواتین کا بناؤسنگھار، ان کا بنا آنچل پیش ہونا، لباس کا ساتر نہ ہونا بلکہ برہنگی کا مظہر ہونا، بہت زیادہ مخلوط پروگرام ہونا جیسے پروگراموں کا صرف رمضان اور ان کے مخصوص اوقات میں بند ہوجانا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ اشتہارات تو اس حد تک بیہودہ اور اسلامی قید و بند سے باہر ہوچکے ہیں کہ اپنے ملک کے ساتھ “اسلامی” لگاتے ہوئے بھی ایک سچا مسلمان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔ اگر اس کے جواز میں کوئی اسے “تجارتی” مجبوری کہہ کر جائز ماننے پر مجبور کرتا ہے تو جوئے خانے، قحبہ خانے اور جسم فروشی کواور ان کی آمدنیوں کو بھی “پاکیزگی” کے سرٹیفکیٹ جاری کر دیئے جانے چاہئیں۔

مجھے امید ہے کہ جہاں رمضان کے احترام کو سامنے رکھ کرانھوں نے ایسا مستحسن قدم اٹھایا ہے وہاں ایسے تمام پروگراموں اور خاص طور سے نشر ہونے والے اشتہارات پر فوری “بین” لگادیں جن کا اسلام، اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہ ہو۔

مجھے امید ہے کہ عدالتیں میری بات سنیں گی بھی اور اس کیلئے مناسب احکامات بھی جاری کئے جائیں گے۔

اس اٹھائے گئے مستحسن قدم کا اللہ آپ کو اجردے اور مزید اقدامات اٹھانے کی ہمت اور جرات عطا کرے (آمین ثم آمین)۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں