راہزن!!۔۔۔’’جاذب نظر‘‘ دنیا۔3

ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۳)
قرآنِ کریم میں دنیا کا تذکرہ ۱۱۵ مرتبہ آیاہے، اﷲ نے اسے اپنے بندوں کے دلوں میں پسندیدہ بنایا ہے، اور اس میں شہوات کی محبت کو انکے لئے مزین کر دیا ہے: (زین للناس حب الشھوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ والخیل المسومۃ والانعام والحرث ذلک متاع الحیاۃ الدنیا واﷲ عندہ حسن المآب) (آل عمران، ۱۴) (لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس ۔ عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔)
اور اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان دنیا کو آباد نہ کرتا، اور ایک لمحے کے لئے بھی اس میں رہنا پسند نہ کرتا، جیسا کہ وہ ایک ابتلاء کا گھر اور امتحان کی جگہ ہے، اور جانچ کی جگہ اور شھوات کی سرزمین، اور شبہات کی جگہ اور دشمنیوں کا گڑ ہے ۔۔ اس سب کے باوجود یہیں وہ واحد راستہ ہے جس میں نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں، اسی میں ذکر ،تسبیح و تہلیل وتکبیر کے بیج ان جنتوں میں بوئے جا سکتے ہیں، ہم میں سے کوئی بھی اسی طریقے سے اپنے آخری مستقر کو پار کر سکتا ہے، یا زندگی کی سرنگ عبور کر سکتا ہے، اور اسکے زادِ راہ کو بڑھا سکتا ہے۔
اور دنیا ۔ میرے گمان کے مطابق ۔ اضداد پر مشتمل ہے! اگر یہ دنیا ہمارے لئے جاذبِ نظر ہے، تووہ ہمارا راستہ کاٹتی ہے اور کبھی بیچ راہ میں آکر ہمارا چلنا معطل کر دیتی ہے، اسکی محبت ہمارے سر پر سوار ہو جاتی ہے، اور ہم یہ دیکھے بنا کہ وہ کس انجام اور عاقبت کی طرف ہمیں لے کر جا رہی ہے، بگٹٹ بھاگتے چلے جاتے ہیں، وہ ہمارے لئے راستہ آسان کرتی چلی جاتی ہے، اور ہمارے قدم مضبوط جما دیتی ہے، اور ہمیں وہاں پہنچانے میں مدد دیتی ہے! اور اگر ہم اسکی ماہیت جان لیتے ہیں، اور اسکی گود میں زندگی کا مقصد بھی جان جاتے ہیں، اور اسکی گرم گود میں تربیت حاصل کرتے ہیں، تو کیا ہم اسے اﷲ کی راہ سے روکنے والا بنائیں گے، یا اسے اپنا حامی اور مددگار بنائیں گے، تاکہ ہم سلامتی سے رہیں؟
دوست یا دشمن؟!
آپ کی کیا رائے ہے کہ اس طرح وہ ہمارے لئے ظالم ہے، اورچھپا دشمن ہے، کہ ہم اسکی قاتل اور مہلک محبت کا شکار ہو جائیں، جبکہ وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیں اپنے اندر کے خزانے عطا کرتی ہے، اور اپنے اوپر سے خیر عطا کرتی ہے، وہ ایک لمحے کے لئے بھی انہیں مانگنے والوں، محبت کرنے والوں اور اسے چاہنے والوں سے روک کر نہیں رکھتی، نہ انہیں دیتے ہوئے ترساتی ہے نہ غرور کرتی ہے، وہ خود کو ہر لمحے سجا بنا کر، نئے نئے رنگوں کے ساتھ، اور اپنی رونقیں بڑھا کر دنیا والوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اور جب کوئی اسے حاصل کرنے کے لئے پوری طرح محنت کرتا ہے، تو وہ انکار کر دیتی ہے کہ اسکے چاہنے والے کے دل میں اس کے سوا کوئی اور بھی ہو، وہ ان پر قبضہ جما لیتی ہے، اور دلوں کو قید اور روحوں کو غلام بنا لیتی ہے، پس ہم اسکے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں، اور وہ بڑی بے رحمی سے ہم سے ہمارا ٹھکانا چھین کر ہمیں سمندر کی سیاہ گہرائی میں چھوڑ دیتی ہے، اور اسکا عطا کردہ ٹھکانا تو ہے ہی محتاط رہنے کے قابل!
آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے برے سلوک کے سبب وہ مظلوم ہے، جب ہم نے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی، اور اس سے اپنے حق سے زیادہ حاصل کیا، اور ہم پر اسکی محبت اس قدر سوار ہو گئی، کہ ہم نے اسے قابلِ اعتراض حد تک حاصل کرنا شروع کر دیا، اور وہ بھی ہمارے دل کے پردے چیر کر ان میں براجمان ہو گئی، حالانکہ اسے وہاں بیٹھنے کی حقیقی ضرورت نہ تھی، اور ہم نے بھی اسکی صحیح قدر نہ کی، کہ وہ کس لئے اپنے رہنے والوں کے لئے مسخر کی گئی تھی، ہم اسے نہ تو اسکا حق دے سکے اور نہ اسکی عمر کی قدروقیمت بڑھا سکے، اسی لئے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا ہے، پس فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں فقر کا خوف نہیں، بلکہ میں ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلا نہ دی جائے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے لئے پھیلائی گئی تھی، پھر تم بھی آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے لگو، جس طرح وہ اسے حاصل کرنے لگے تھے، اور وہ تمہیں بھی ہلاکت میں ڈال دے جس طرح اس نے اگلوں کو ڈالا تھا‘‘ ایک اور روایت میں ہے ’’اور وہ تمہیں بھی غافل کر دے جس طرح اس نے اگلوں کو کیا تھا‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
پس کیا یہ دنیا واقعی ہماری دشمن ہے جس سے بیزار ہو جانا چاہیے، اور آپ ہمیشہ اس سے جھگڑتے رہیں اور اس سے جنگ کریں، اور اسے شکست دیں اور قتل کر ڈالیں، یا وہ ہماری مددگار دوست ہے، جس کے ساتھ کچھ شرائط کے ساتھ رہنا چاہیے؟ یا وہ دونوں کردار ایک ساتھ ادا کرتی ہے، اور ہر عقلمند، صاحبِ خرد کو اسکی بھلائیوں اور خوبیوں کی پہچان ہونی چاہیے، تاکہ اس سے نفع حاصل کر سکیں، اور اسکے عیوب ، اور برائیوں کو الگ کریں اور انہیں دیوار سے پرے پھینک دیں؟
دنیا ترازو میں!
دنیا کو کیا تولیں، اﷲ سبحانہ وتعالی کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے بھی برابر نہیں ۔۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اگر دنیا اﷲ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی، تو وہ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ بھی نہ دیتا‘‘ (ترمذی)، اور ابنِ عباسؓ سے روایت ہے : نبی اکرم ﷺ ایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے، جسے اسکے گھر والوں نے پھینک دیا تھا، پس آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اﷲ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنی یہ اپنے گھر والوں کے لئے ہے’’ (احمد) نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا اور فرمایا: ’’جس میں حبِ دنیا سرایت کر گئی، اس میں تین چیزیں گڑگئیں: ایسی شقاوت جو ختم نہیں ہوتی، اور حرص جو بے پرواہ نہیں ہونے دیتی، اور ایسی آرزو جسکی کوئی انتہا نہیں ہے، پس دنیا مانگتی بھی ہے اور منگواتی بھی ہے، پس جس نے دنیا طلب کی ، اسے آخرت طلب کرتی ہے، یہاں تک کہ جب اسے موت آ جاتی ہے، تو وہ اسے پکڑ لیتی ہے، اور جو آخرت کا طلبگار ہو دنیا اسے طلب کرتی ہے حتی کہ وہ اس میں سے اپنا رزق پورا کر لیتا ہے‘‘ (الطبرانی)۔
دنیا کو حقیر جانئے، تاکہ اﷲ اور آخرت کے گھر کی محبت ہی ہماری مشغولیت ، ہمارا شغل اور اول و آخر ہماری سب سے بڑی فکر رہے، اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اﷲ تعالی اس دنیا میں ہمیں اسی کے ذریعے آزمائے گا، اور اﷲ نے اسے ہمارے لئے سرسبز اور شیریں بنایا ہے، جو کبھی کمزور ہے اور کبھی طاقت ور، اور اچھا سروسامان ہے، لیکن وہ دھوکے کی ٹٹی ہے، وہ اپنے ساتھی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا، بلکہ وہ گرمی کی دوپہر میں سائے کی مانند ہے، جس کے نیچے مسافر سستانے کے لئے ٹیک لگا لیتے ہیں، اور جب سورج سفر کرتا ہوا پیچھے کی جانب مڑتا ہے، تو وہ اسے (سائے کو) چھوڑ دیتے ہیں، اور وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے، اسی لئے نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میری اور دنیا کی مثال تو ایک سوار کی سی ہے، جو کچھ دیر پیڑ کے سائے میں بیٹھا، پھر اسے چھوڑ کر چلدیا‘‘ ( احمد)۔ اور حضرت مسیحؑ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: کون ہے جو سمندر کی موجوں پر گھر بناتا ہو، ایسی ہی ہے دنیا، پس اس میں ٹھکانا نہ بناؤ‘‘۔ جس نے اﷲ کے مقابلے میں دنیا کو حقیر جانا تاکہ اسکی نافرمانی نہ کرے، مگر اس میں رہے، اور اس میں موجود چیزوں کو چھوڑ دینے کے ارادے سے استعمال کرے۔
دھوکے کا سامان:
اﷲ تعالی نے اپنی کتابِ کریم میں اس کی صفت یوں بیان کی ہے: (وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور) (آل عمران، ۱۸۵) (یہ دنیا تو محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔)
مفسرین کہتے ہیں: متاع سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے گزر بسر ہوتی ہو اور وہ نفع مند ہو، جیسے کلہاڑی، ہنڈیا، پیالہ وغیرہ، جو فنا ہونے والی چیزیں ہیں، جنکی ملکیت باقی نہیں رہتی، یہ سب متاع ہیں، اور متاع ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جو مومن کو دھوکہ دے کہ وہ لمبے عرصے تک رہنے والی ہے اور وہ فانی ہو، پس اسے اپنا دل آخرت کی جانب متوجہ رکھنا چاہیے، اور دنیا اسکے لئے آخرت کی طرف جانے کا سفینہ (کشتی) ہو، اور قتادۃ نے فرمایا: یہ متروکہ متاع ہے، اہلِ (دنیا) کو ساتھ لیکر تباہ ہونے والی ہے؛ پس انسان اس متاع سے اﷲ کی اطاعت کرتے ہوئے جو کچھ لے سکے لے لینا چاہیے، اور اس مقام پر بعض حکماء نے کہا ہے: حیرت ان لوگوں پر ہے جن سے دنیا منہ موڑ رہی ہے، اور آخرت انکی جانب بڑھ رہی ہے، جو سامنے ہے وہ اس میں مشغول ہیں اور جو پیچھے آرہی ہے اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔
آخرت کے مقابلے میں دنیا محض ایک کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا، خواہ وہ کتنی ہی دیر رہے، اور لہو جب بھی زیادہ دیر کے لئے ہو،وہ اپنے طالب کو مشغول کر لیتا ہے، اور جب وہ اسکی طلب میں لگ جاتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے، اور کم کھیل زیادہ نافع ہوتا ہے کیونکہ وہ تروتازہ کر دیتا ہے، اسی طرح تھوڑا سا لہو حلال اور مباح ہے، لیکن آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے ۔۔ اﷲ تعالی نے فرمایا: (وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولھو ولالدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون) (الانعام، ۳۲)
پس دنیا ہر اس شخص کے لئے کھیل اور تماشا ہے، جس نے بلا مقصد اور بلا غایت اسے حاصل کیا، اور اس نے اسے آخرت کے گھر میں پہنچنے کے لئے وسیلہ اور سیڑھی نہ بنایا، جہاں کا متاع حقیقی اور ابدی ہے، اسی لئے ابنِ عباس فرماتے ہیں: ایسی زندگی تو کافر کی ہے کہ وہ اسے غرور اور باطل میں گزارتا ہے، رہی مومن کی زندگی تو وہ نیک اعمال کی جانب مائل رہتی ہے، نہ اس میں کھیل ہوتا ہے نہ تماشا‘‘۔ اور سعید بن جبیر فرماتے ہیں: ’’متاع الغرور وہ ہے جو تمہیں آخرت کی طلب سے غافل کر دے؛ پس متاع الغرور کے لئے کوشش نہ کرو، بلکہ اس متاع کو پانے کی کوشش کرو جو اس سے بہتر ہے‘‘۔ اور کہا جاتا ہے: دنیا کی زندگی کے لئے عمل متاع الغرور ہے، اور جو دنیا کا زھد اختیار کرتے ہوئے، اور آخرت کے عمل کے لئے ترغیب ہو(وہ اصل متاع ہے)۔
دنیا کی زندگی ۔۔ اور پانی:
اﷲ تعالی نے دنیا کی زندگی کے لئے پانی کی مثال دی ہے، پس فرمایا: (واضرب لھم مثل الحیاۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض فاصبح ھشیماً تذروہ الریاح وکان اﷲ علی کل شیء مقتدراً) (الکھف، ۴۵)۔ (اور اے نبیؐ، انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤکہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا، تو زمین کی پود خوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں۔ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔)
حکماء کہتے ہیں: ’’اﷲ تعالی نے دنیا کو پانی سے تشبیہہ دی؛ کیونکہ پانی ایک جگہ نہیں رکتا، اسی طرح دنیا ایک شخص کے لئے نہیں رہتی، جس طرح پانی باقی نہیں رہتا اور اڑ جاتا ہے، اسی طرح دنیا بھی فنا ہو جاتی ہے، اسی طرح ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پانی میں داخل بھی ہو اور گیلا نہ ہو، اور دنیا بھی اپنے میں داخل ہونے والے کو فتنوں اور آفتوں سے محفوظ نہیں رکھتی، اور پانی بھی جب ایک حد تک ہوتا ہے وہ نافع اور پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے، اور جب حد سے تجاوز کر جائے تو نفصان دہ اور مہلک ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح ضرورت بھر دنیا نافع ہوتی ہے اور اسکی زیادتی نقصان دیتی ہے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ دنیا اور پانی میں اور بھی متشابہ چیزیں ہیں، مثلاً پانی میں جسموں کے لئے زندگی، اور بندوں کے لئے بادل اور رحمت اور نفع اتنا زیادہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی، بلکہ اسکے کے بغیر زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی، یہی دنیا کا حال ہے، اس میں زادِ راہ سے لوگ جسموں کے لئے غذا پاتے ہیں، اور اس میں نیکیاں کما کر روح زندہ رہتی ہے۔
پانی وقت گزرنے کے ساتھ خشک ہو جاتا ہے اور بخارات بن کر اڑ جاتا ہے، اور پھر ایک خاص انداز میں چلنے کے بعد دوبارہ پانی بن کر ہم پر برستا ہے، مگر یہ وہ پانی نہیں ہوتا جو بخارات بن کر اڑ گیا، بلکہ اسکی جگہ دوسرا پانی آجاتا ہے، خواہ ہم چاہیں یا انکار کریں، یہی چکر چلتا رہتا ہے؛وہ ان لوگوں سے دور ہو جاتا ہے یا وہ لوگ مر کر اس سے دور ہو جاتے ہیں، اور پانی کو اگر ہم حرکت نہ دیں، یا اسے کوئی خدمت نہ لیں، اور نہ اسے بدلیں نہ صاف کریں تو ٹھہرا ہوا پانی خراب ہو جاتا ہے اور اس میں بساند پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی حال دنیا کا ہے اگر ہم اﷲ کے حقوق ادا کرنے کے لئے اسے حرکت نہ دیں، اور بندوں کے مصالح کے لئے کام کرنے کے لئے اس میں تطور اور تجدد نہ پیدا کریں، اسے خیر کے کاموں سے آباد نہ کریں، تو وہ اسکے رہنے والوں کے لئے رک جاتی ہے اور اپنی راہیں بند کر دیتی ہے۔
ہم اس دنیا سے کتنے ہی ثمرات پا لیں، اور ہم کتنے ہی مال، اولاد اور جاہ اور اقتدار یا جمال اور جائیداد یا سامانِ دنیا کے مالک ہو جائیں، ان سب کو زوال آ جائے گا، وہ ہم سے اور لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے، اور ہمارے پاس باقی سرمایا صرف دلوں میں جاگزیں ایمان اور ہمارے جسم کے کئے ہوئے اعمال ہونگے۔ اسی لئے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: ’’دنیا تمہارے لئے قرار کی جگہ نہیں ہے، اﷲ نے اسکے لئے فنا لکھی ہے، اور اسکے رہنے والوں کے لئے بھی کوچ کرنا لکھا ہے، پس کتنے ہی آباد(بندے) اسکے تھوڑے پر بھروسہ کرنے والے تھے جنہیں اس نے خراب کر دیا، اور کتنے ہی اس میں خوشی اور سرور سے رہنے والے تھے، جو کوچ کر گئے، پس بھلا کرو ۔ اﷲ تم پر رحم فرمائے ۔ اس سے کوچ کر جانا اس میں حاضر رہنے سے اچھا ہے، اور زادِ راہ لے لو، پس بہترین زادِ راہ تقوی ہے‘‘۔
تین اصناف:
پہلی صنف:
پہلی صنف میں وہ افراد ہیں،جنکی دنیا کسی راہزن کی مانند بن جاتی ہے، جو عمل چھوڑ دیتے ہیں، یا اسے ٹالتے رہتے ہیں، اور اسے ہی چرا لینا چاہتے ہیں اور اس میں فساد مچاتے ہیں، اور ایسا تب ہوتا ہے جب دنیا ہی انکی فکر، اور انکی چاہت بن جائے، اور اسکا شغل اور اسکی مصروفیت بن جائے، اور وہی انکا مقصد اور انکا منتہی قرار پائے، اور وہ اپنا بیشتر وقت اسی میں ضائع کر دیں، اور انکی زندگی اس(دنیا) کی خاطر بسر ہونے لگے، اور انکی محبتیں اور نفرتیں اسی کی خاطر ہونے لگیں، اور انکا بھائی چارہ اور دشمنیاں اسی کی خاطر ہونے لگیں، وہ ہر طریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں، اور ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کریں کہ آیا وہ حلال ہے یا حرام، پس حقوق ضائع ہوں، اور فرائض سے غفلت برتی جائے، اور وہ اپنے اوپر بھی ظلم کریں اور دوسروں پر بھی، یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی گمراہ ہوے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، انکے بارے اﷲ تعالی کا یہ فرمان سچ ہے کہ: (فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرۃ من خلاق) (البقرۃ، ۲۰۰) (ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے، ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں۔)
یہ ان سب کی مثالیں ہیں، اﷲ تعالی فرماتا ہے: (بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا ۰ والآخرۃ خیر وابقی) (الاعلی، ۱۶ ۔ ۱۷) (بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخر بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔)
(ارضیتم بالحیاۃ الدنیا من الآخرۃ فما متاع الحیاۃ الدنیا فی الآخرۃ الا قلیل) (التوبۃ، ۳۸)(کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔)
(وما الحیاۃ الدنیا الا لعب و لھو وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون) (الانعام، ۳۲) (دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے اور حقیقت میںآخرت ہی کامقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں)
اور نبی اکرم ﷺ انہیں اسکی محبت میں انتہائی کمی اور سرکش الفت، دونوں کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جس نے دنیا سے محبت کی، اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیا، اور جس نے آخرت سے محبت رکھی ،اس نے اسکی دنیا کو نقصان پہنچا دیا، پس باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی پر ترجیح دو‘‘ (صحیح ابنِ حبان)، اور کہا جاتا ہے: دنیا اور آخرت ترازو کے دو پلڑوں کی مانند ہیں، جو ایک کو جھکائے گا دوسرے کو ہلکا کر دے گا، اور نتیجہ وہی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اور دنیا جسکا غم بن گئی، اﷲ اسے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکا فقیر بنا دے گا، اور اسکے خوف میں مبتلا کر دے گا، اور وہ دنیا اسی قدر حاصل کر سکے گا جتنی اسکے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘‘ (ترمذی)۔
دوسری صنف:
جو دنیا کو کلیۃ دھتکار دیں، اور اس میں سے جو انہیں مل رہا ہو، اسے بھی ترک کر دیں، اگرچہ وہ حلال اور طیب ہو، اس پر اسکا نفس اور اسے گھر والے تنگ ہوں، اور شدت سے حاجت مند ہونے کے باوجود تھوڑے پر راضی رہے، اور اپنے آپ کو اسکو حاصل کرنے کی مشقت میں نہ ڈالے، اور اسکی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے کوشش بھی نہ کرے، اور یہ سمجھے کہ ایسی ہر کوشش ایمان کے منافی ہے، اور بندگی کے مفہوم میں کمی کرتی ہے، پس وہ اسکی طلب میں دوسروں کی جانب دیکھتا رہے، اور اسباب کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ وہ گمان کرتا ہو کہ فقر عزت افزائی ہے، اور مال و دولت ہونا (عزت میں )کمی ہے، اسے مشکلات اور پریشانیاں پیش آتی ہیں، اسے تنگی اور مشقت لاحق ہوتی ہے، اور اﷲ عزوجل اپنے ایسے بندوں سے راضی نہیں ہوتا، کیونکہ وہی تو ہے جو ہماری تکلیفیں دور کرتا ہے، اور اس نے ہم سے بوجھ اور بیڑیاں ہٹائیں، اور رہبانیت ، کنارہ کشی، اور دنیا سے کٹ جانے کو ہم پر حرام کیا۔
یہ گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ بعینہ زہد ہے، اور وہ واقعی زاہد ہے، کچھ اور نہیں! اور یہ زاہدوں کا کیسا زہد ہے جبکہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دنیا میں زہد اختیار کرنا حلال کو حرام ٹھہرانا نہیں ہے، اور نہ مال کا ضیاع کرنا ہے، لیکن دنیا کا زہد یہ ہے کہ آپ کو اس پر بھروسہ نہ ہو جو آپ کے ہاتھ میں ہے، بلکہ اس پر کامل بھروسہ ہو جو اﷲ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (ترمذی اور احمد)، اور ابنِ حلا کا قول ہے: زہد، دنیا کو زوال کی نظر سے دیکھنا ہے، اسطرح وہ آپکی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہے، اور اس سے اعراض کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں: زہد تین طرح کا ہوتا ہے: پہلا: حرام کو ترک کر دینا، اور یہ عوام کا زہد ہے، دوسرا: حلال میں سے زائد کو ترک کر دینا، اور یہ خواص کا زہد ہے، اور تیسرا: ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جو اﷲ سے مشغول کر دے، اور یہ عارفین کا زہد ہے، اسی لئے علماء نے فرمایا: زاہد وہ نہیں ہے جس کے پاس مال نہ ہو، بلکہ زاہد وہ ہے جس کے دل کو مال مشغول نہ کر لے، اگرچہ اسکا پاس قارون جتنا خزانہ بھی ہو۔
یہ دونوں صنفیں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے دنیا کی حقیقت سمجھنے میں غلطی کھائی، وہ نہ جان سکے کہ اس سے کیسے معاملہ کیا جائے، جبکہ بنیادی وجہ ان کے اندر موجود تھی، اور یہ دونوں گروہ افراط اور تفریط کا شکار ہوئے، اور ان دونوں کا رویہ ایک دوسرے کی ضد کے باوجود غلط ہے، اور ان دونوں کا رویہ قابلِ مذمت ہے۔
تیسری صنف:
اسکا ذکر اﷲ تعالی نے اپنی کتابِ کریم میں کیا ہے: (ومنھم من یقول ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) (البقرۃ، ۲۰۱) (اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔)
ابنِ کثیر اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس دعا میں دنیا کی سب خیر جمع ہو گئی، اور ہر شر دور ہو گیا، کیونکہ دنیا میں مطلوب ہر خیر اور بھلائی،عافیت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشائش والے رزق، نافع علم، عملِ صالح، اچھے تذکرے اور ان ہی جیسی دوسری چیزوں سے عبارت ہے، دوسرے مفسرین نے بھی تفسیر میں انہیں چیزوں کو شامل کیا ہے، اور کسی نے بھی انکی نفی نہیں کی؛ کیونکہ یہ سب دنیا کی بھلائیوں میں شامل ہیں، رہی آخرت کی بھلائی، تو اسکا اعلی درجہ جنت میں داخلہ ہے، اور اسکے بعد حشر کے میدان میں بڑی گھبراہٹ سے امن، حساب میں آسانی، اور اچھی آخرت سے متعلق امور ہیں، رہا آگ سے نجات کا معاملہ تو وہ دنیا کے اسباب پر مبنی ہے، کہ حرام اشیاء سے کس قدر پرہیز کیا، گناہوں سے کس قدر بچے، اور شبہات اور حرام سے کس قدر کنارہ کشی اختیار کی، اسی لئے سنت میں اس دعا کو مانگنے کی ترغیب آئی ہے: انسؓ بن مالک سے روایت ہے، کہ بنی ﷺ یوں دعا فرماتے تھے: ’’اللھم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ (بخاری)۔
اور یہ صنف دنیا میں بھی اپنا حصہ پاتی ہے؛ تاکہ آخرت کے لئے عمل کرنے کے لئے اس سے مدد حاصل کرے، اور اسکی فکر، انکی نیت اور مقصد آخرت کی طلب ہے، نبی اکرم ﷺنے فرمایا ہے: ’’جس کی فکر آخرت ہو گی، اﷲ اسکے دل کو غنی کر دے گا، اور اسکے لئے سب کچھ شامل کر دے گا، اور دنیا بھی اسے عطا کرے گا ، اس (دنیا) کے نہ چاہنے کے باوجود‘‘۔
***

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں