ایمان مغازی الشرقاوی
ترجمہ: ڈاکٹر میمونہ حمزہ
(۳)
قرآنِ کریم میں دنیا کا تذکرہ ۱۱۵ مرتبہ آیاہے، اﷲ نے اسے اپنے بندوں کے دلوں میں پسندیدہ بنایا ہے، اور اس میں شہوات کی محبت کو انکے لئے مزین کر دیا ہے: (زین للناس حب الشھوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرۃ من الذھب والفضۃ والخیل المسومۃ والانعام والحرث ذلک متاع الحیاۃ الدنیا واﷲ عندہ حسن المآب) (آل عمران، ۱۴) (لوگوں کے لئے مرغوباتِ نفس ۔ عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اﷲ کے پاس ہے۔)
اور اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان دنیا کو آباد نہ کرتا، اور ایک لمحے کے لئے بھی اس میں رہنا پسند نہ کرتا، جیسا کہ وہ ایک ابتلاء کا گھر اور امتحان کی جگہ ہے، اور جانچ کی جگہ اور شھوات کی سرزمین، اور شبہات کی جگہ اور دشمنیوں کا گڑ ہے ۔۔ اس سب کے باوجود یہیں وہ واحد راستہ ہے جس میں نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں، اسی میں ذکر ،تسبیح و تہلیل وتکبیر کے بیج ان جنتوں میں بوئے جا سکتے ہیں، ہم میں سے کوئی بھی اسی طریقے سے اپنے آخری مستقر کو پار کر سکتا ہے، یا زندگی کی سرنگ عبور کر سکتا ہے، اور اسکے زادِ راہ کو بڑھا سکتا ہے۔
اور دنیا ۔ میرے گمان کے مطابق ۔ اضداد پر مشتمل ہے! اگر یہ دنیا ہمارے لئے جاذبِ نظر ہے، تووہ ہمارا راستہ کاٹتی ہے اور کبھی بیچ راہ میں آکر ہمارا چلنا معطل کر دیتی ہے، اسکی محبت ہمارے سر پر سوار ہو جاتی ہے، اور ہم یہ دیکھے بنا کہ وہ کس انجام اور عاقبت کی طرف ہمیں لے کر جا رہی ہے، بگٹٹ بھاگتے چلے جاتے ہیں، وہ ہمارے لئے راستہ آسان کرتی چلی جاتی ہے، اور ہمارے قدم مضبوط جما دیتی ہے، اور ہمیں وہاں پہنچانے میں مدد دیتی ہے! اور اگر ہم اسکی ماہیت جان لیتے ہیں، اور اسکی گود میں زندگی کا مقصد بھی جان جاتے ہیں، اور اسکی گرم گود میں تربیت حاصل کرتے ہیں، تو کیا ہم اسے اﷲ کی راہ سے روکنے والا بنائیں گے، یا اسے اپنا حامی اور مددگار بنائیں گے، تاکہ ہم سلامتی سے رہیں؟
دوست یا دشمن؟!
آپ کی کیا رائے ہے کہ اس طرح وہ ہمارے لئے ظالم ہے، اورچھپا دشمن ہے، کہ ہم اسکی قاتل اور مہلک محبت کا شکار ہو جائیں، جبکہ وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیں اپنے اندر کے خزانے عطا کرتی ہے، اور اپنے اوپر سے خیر عطا کرتی ہے، وہ ایک لمحے کے لئے بھی انہیں مانگنے والوں، محبت کرنے والوں اور اسے چاہنے والوں سے روک کر نہیں رکھتی، نہ انہیں دیتے ہوئے ترساتی ہے نہ غرور کرتی ہے، وہ خود کو ہر لمحے سجا بنا کر، نئے نئے رنگوں کے ساتھ، اور اپنی رونقیں بڑھا کر دنیا والوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اور جب کوئی اسے حاصل کرنے کے لئے پوری طرح محنت کرتا ہے، تو وہ انکار کر دیتی ہے کہ اسکے چاہنے والے کے دل میں اس کے سوا کوئی اور بھی ہو، وہ ان پر قبضہ جما لیتی ہے، اور دلوں کو قید اور روحوں کو غلام بنا لیتی ہے، پس ہم اسکے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں، اور وہ بڑی بے رحمی سے ہم سے ہمارا ٹھکانا چھین کر ہمیں سمندر کی سیاہ گہرائی میں چھوڑ دیتی ہے، اور اسکا عطا کردہ ٹھکانا تو ہے ہی محتاط رہنے کے قابل!
آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے برے سلوک کے سبب وہ مظلوم ہے، جب ہم نے اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی، اور اس سے اپنے حق سے زیادہ حاصل کیا، اور ہم پر اسکی محبت اس قدر سوار ہو گئی، کہ ہم نے اسے قابلِ اعتراض حد تک حاصل کرنا شروع کر دیا، اور وہ بھی ہمارے دل کے پردے چیر کر ان میں براجمان ہو گئی، حالانکہ اسے وہاں بیٹھنے کی حقیقی ضرورت نہ تھی، اور ہم نے بھی اسکی صحیح قدر نہ کی، کہ وہ کس لئے اپنے رہنے والوں کے لئے مسخر کی گئی تھی، ہم اسے نہ تو اسکا حق دے سکے اور نہ اسکی عمر کی قدروقیمت بڑھا سکے، اسی لئے ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا ہے، پس فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں فقر کا خوف نہیں، بلکہ میں ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر پھیلا نہ دی جائے، جس طرح تم سے پہلے لوگوں کے لئے پھیلائی گئی تھی، پھر تم بھی آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے لگو، جس طرح وہ اسے حاصل کرنے لگے تھے، اور وہ تمہیں بھی ہلاکت میں ڈال دے جس طرح اس نے اگلوں کو ڈالا تھا‘‘ ایک اور روایت میں ہے ’’اور وہ تمہیں بھی غافل کر دے جس طرح اس نے اگلوں کو کیا تھا‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے)۔
پس کیا یہ دنیا واقعی ہماری دشمن ہے جس سے بیزار ہو جانا چاہیے، اور آپ ہمیشہ اس سے جھگڑتے رہیں اور اس سے جنگ کریں، اور اسے شکست دیں اور قتل کر ڈالیں، یا وہ ہماری مددگار دوست ہے، جس کے ساتھ کچھ شرائط کے ساتھ رہنا چاہیے؟ یا وہ دونوں کردار ایک ساتھ ادا کرتی ہے، اور ہر عقلمند، صاحبِ خرد کو اسکی بھلائیوں اور خوبیوں کی پہچان ہونی چاہیے، تاکہ اس سے نفع حاصل کر سکیں، اور اسکے عیوب ، اور برائیوں کو الگ کریں اور انہیں دیوار سے پرے پھینک دیں؟
دنیا ترازو میں!
دنیا کو کیا تولیں، اﷲ سبحانہ وتعالی کے نزدیک وہ مچھر کے پر کے بھی برابر نہیں ۔۔ رسول اﷲ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اگر دنیا اﷲ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی، تو وہ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ بھی نہ دیتا‘‘ (ترمذی)، اور ابنِ عباسؓ سے روایت ہے : نبی اکرم ﷺ ایک مری ہوئی بکری کے پاس سے گزرے، جسے اسکے گھر والوں نے پھینک دیا تھا، پس آپ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، دنیا اﷲ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنی یہ اپنے گھر والوں کے لئے ہے’’ (احمد) نبی کریم ﷺ نے ہمیں اس سے ڈرایا اور فرمایا: ’’جس میں حبِ دنیا سرایت کر گئی، اس میں تین چیزیں گڑگئیں: ایسی شقاوت جو ختم نہیں ہوتی، اور حرص جو بے پرواہ نہیں ہونے دیتی، اور ایسی آرزو جسکی کوئی انتہا نہیں ہے، پس دنیا مانگتی بھی ہے اور منگواتی بھی ہے، پس جس نے دنیا طلب کی ، اسے آخرت طلب کرتی ہے، یہاں تک کہ جب اسے موت آ جاتی ہے، تو وہ اسے پکڑ لیتی ہے، اور جو آخرت کا طلبگار ہو دنیا اسے طلب کرتی ہے حتی کہ وہ اس میں سے اپنا رزق پورا کر لیتا ہے‘‘ (الطبرانی)۔
دنیا کو حقیر جانئے، تاکہ اﷲ اور آخرت کے گھر کی محبت ہی ہماری مشغولیت ، ہمارا شغل اور اول و آخر ہماری سب سے بڑی فکر رہے، اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اﷲ تعالی اس دنیا میں ہمیں اسی کے ذریعے آزمائے گا، اور اﷲ نے اسے ہمارے لئے سرسبز اور شیریں بنایا ہے، جو کبھی کمزور ہے اور کبھی طاقت ور، اور اچھا سروسامان ہے، لیکن وہ دھوکے کی ٹٹی ہے، وہ اپنے ساتھی کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا، بلکہ وہ گرمی کی دوپہر میں سائے کی مانند ہے، جس کے نیچے مسافر سستانے کے لئے ٹیک لگا لیتے ہیں، اور جب سورج سفر کرتا ہوا پیچھے کی جانب مڑتا ہے، تو وہ اسے (سائے کو) چھوڑ دیتے ہیں، اور وہ انہیں چھوڑ دیتا ہے، اسی لئے نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے: ’’میرا دنیا سے کیا واسطہ؟ میری اور دنیا کی مثال تو ایک سوار کی سی ہے، جو کچھ دیر پیڑ کے سائے میں بیٹھا، پھر اسے چھوڑ کر چلدیا‘‘ ( احمد)۔ اور حضرت مسیحؑ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: کون ہے جو سمندر کی موجوں پر گھر بناتا ہو، ایسی ہی ہے دنیا، پس اس میں ٹھکانا نہ بناؤ‘‘۔ جس نے اﷲ کے مقابلے میں دنیا کو حقیر جانا تاکہ اسکی نافرمانی نہ کرے، مگر اس میں رہے، اور اس میں موجود چیزوں کو چھوڑ دینے کے ارادے سے استعمال کرے۔
دھوکے کا سامان:
اﷲ تعالی نے اپنی کتابِ کریم میں اس کی صفت یوں بیان کی ہے: (وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور) (آل عمران، ۱۸۵) (یہ دنیا تو محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔)
مفسرین کہتے ہیں: متاع سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے گزر بسر ہوتی ہو اور وہ نفع مند ہو، جیسے کلہاڑی، ہنڈیا، پیالہ وغیرہ، جو فنا ہونے والی چیزیں ہیں، جنکی ملکیت باقی نہیں رہتی، یہ سب متاع ہیں، اور متاع ایسی چیز کو بھی کہتے ہیں جو مومن کو دھوکہ دے کہ وہ لمبے عرصے تک رہنے والی ہے اور وہ فانی ہو، پس اسے اپنا دل آخرت کی جانب متوجہ رکھنا چاہیے، اور دنیا اسکے لئے آخرت کی طرف جانے کا سفینہ (کشتی) ہو، اور قتادۃ نے فرمایا: یہ متروکہ متاع ہے، اہلِ (دنیا) کو ساتھ لیکر تباہ ہونے والی ہے؛ پس انسان اس متاع سے اﷲ کی اطاعت کرتے ہوئے جو کچھ لے سکے لے لینا چاہیے، اور اس مقام پر بعض حکماء نے کہا ہے: حیرت ان لوگوں پر ہے جن سے دنیا منہ موڑ رہی ہے، اور آخرت انکی جانب بڑھ رہی ہے، جو سامنے ہے وہ اس میں مشغول ہیں اور جو پیچھے آرہی ہے اس سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔
آخرت کے مقابلے میں دنیا محض ایک کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا، خواہ وہ کتنی ہی دیر رہے، اور لہو جب بھی زیادہ دیر کے لئے ہو،وہ اپنے طالب کو مشغول کر لیتا ہے، اور جب وہ اسکی طلب میں لگ جاتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے، اور کم کھیل زیادہ نافع ہوتا ہے کیونکہ وہ تروتازہ کر دیتا ہے، اسی طرح تھوڑا سا لہو حلال اور مباح ہے، لیکن آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے ۔۔ اﷲ تعالی نے فرمایا: (وما الحیاۃ الدنیا الا لعب ولھو ولالدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون) (الانعام، ۳۲)
پس دنیا ہر اس شخص کے لئے کھیل اور تماشا ہے، جس نے بلا مقصد اور بلا غایت اسے حاصل کیا، اور اس نے اسے آخرت کے گھر میں پہنچنے کے لئے وسیلہ اور سیڑھی نہ بنایا، جہاں کا متاع حقیقی اور ابدی ہے، اسی لئے ابنِ عباس فرماتے ہیں: ایسی زندگی تو کافر کی ہے کہ وہ اسے غرور اور باطل میں گزارتا ہے، رہی مومن کی زندگی تو وہ نیک اعمال کی جانب مائل رہتی ہے، نہ اس میں کھیل ہوتا ہے نہ تماشا‘‘۔ اور سعید بن جبیر فرماتے ہیں: ’’متاع الغرور وہ ہے جو تمہیں آخرت کی طلب سے غافل کر دے؛ پس متاع الغرور کے لئے کوشش نہ کرو، بلکہ اس متاع کو پانے کی کوشش کرو جو اس سے بہتر ہے‘‘۔ اور کہا جاتا ہے: دنیا کی زندگی کے لئے عمل متاع الغرور ہے، اور جو دنیا کا زھد اختیار کرتے ہوئے، اور آخرت کے عمل کے لئے ترغیب ہو(وہ اصل متاع ہے)۔
دنیا کی زندگی ۔۔ اور پانی:
اﷲ تعالی نے دنیا کی زندگی کے لئے پانی کی مثال دی ہے، پس فرمایا: (واضرب لھم مثل الحیاۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض فاصبح ھشیماً تذروہ الریاح وکان اﷲ علی کل شیء مقتدراً) (الکھف، ۴۵)۔ (اور اے نبیؐ، انہیں حیاتِ دنیا کی حقیقت اس مثال سے سمجھاؤکہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا، تو زمین کی پود خوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں۔ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔)
حکماء کہتے ہیں: ’’اﷲ تعالی نے دنیا کو پانی سے تشبیہہ دی؛ کیونکہ پانی ایک جگہ نہیں رکتا، اسی طرح دنیا ایک شخص کے لئے نہیں رہتی، جس طرح پانی باقی نہیں رہتا اور اڑ جاتا ہے، اسی طرح دنیا بھی فنا ہو جاتی ہے، اسی طرح ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پانی میں داخل بھی ہو اور گیلا نہ ہو، اور دنیا بھی اپنے میں داخل ہونے والے کو فتنوں اور آفتوں سے محفوظ نہیں رکھتی، اور پانی بھی جب ایک حد تک ہوتا ہے وہ نافع اور پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے، اور جب حد سے تجاوز کر جائے تو نفصان دہ اور مہلک ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح ضرورت بھر دنیا نافع ہوتی ہے اور اسکی زیادتی نقصان دیتی ہے‘‘۔
میرا خیال ہے کہ دنیا اور پانی میں اور بھی متشابہ چیزیں ہیں، مثلاً پانی میں جسموں کے لئے زندگی، اور بندوں کے لئے بادل اور رحمت اور نفع اتنا زیادہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی، بلکہ اسکے کے بغیر زندگی قائم ہی نہیں رہ سکتی، یہی دنیا کا حال ہے، اس میں زادِ راہ سے لوگ جسموں کے لئے غذا پاتے ہیں، اور اس میں نیکیاں کما کر روح زندہ رہتی ہے۔
پانی وقت گزرنے کے ساتھ خشک ہو جاتا ہے اور بخارات بن کر اڑ جاتا ہے، اور پھر ایک خاص انداز میں چلنے کے بعد دوبارہ پانی بن کر ہم پر برستا ہے، مگر یہ وہ پانی نہیں ہوتا جو بخارات بن کر اڑ گیا، بلکہ اسکی جگہ دوسرا پانی آجاتا ہے، خواہ ہم چاہیں یا انکار کریں، یہی چکر چلتا رہتا ہے؛وہ ان لوگوں سے دور ہو جاتا ہے یا وہ لوگ مر کر اس سے دور ہو جاتے ہیں، اور پانی کو اگر ہم حرکت نہ دیں، یا اسے کوئی خدمت نہ لیں، اور نہ اسے بدلیں نہ صاف کریں تو ٹھہرا ہوا پانی خراب ہو جاتا ہے اور اس میں بساند پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی حال دنیا کا ہے اگر ہم اﷲ کے حقوق ادا کرنے کے لئے اسے حرکت نہ دیں، اور بندوں کے مصالح کے لئے کام کرنے کے لئے اس میں تطور اور تجدد نہ پیدا کریں، اسے خیر کے کاموں سے آباد نہ کریں، تو وہ اسکے رہنے والوں کے لئے رک جاتی ہے اور اپنی راہیں بند کر دیتی ہے۔
ہم اس دنیا سے کتنے ہی ثمرات پا لیں، اور ہم کتنے ہی مال، اولاد اور جاہ اور اقتدار یا جمال اور جائیداد یا سامانِ دنیا کے مالک ہو جائیں، ان سب کو زوال آ جائے گا، وہ ہم سے اور لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے، اور ہمارے پاس باقی سرمایا صرف دلوں میں جاگزیں ایمان اور ہمارے جسم کے کئے ہوئے اعمال ہونگے۔ اسی لئے عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: ’’دنیا تمہارے لئے قرار کی جگہ نہیں ہے، اﷲ نے اسکے لئے فنا لکھی ہے، اور اسکے رہنے والوں کے لئے بھی کوچ کرنا لکھا ہے، پس کتنے ہی آباد(بندے) اسکے تھوڑے پر بھروسہ کرنے والے تھے جنہیں اس نے خراب کر دیا، اور کتنے ہی اس میں خوشی اور سرور سے رہنے والے تھے، جو کوچ کر گئے، پس بھلا کرو ۔ اﷲ تم پر رحم فرمائے ۔ اس سے کوچ کر جانا اس میں حاضر رہنے سے اچھا ہے، اور زادِ راہ لے لو، پس بہترین زادِ راہ تقوی ہے‘‘۔
تین اصناف:
پہلی صنف:
پہلی صنف میں وہ افراد ہیں،جنکی دنیا کسی راہزن کی مانند بن جاتی ہے، جو عمل چھوڑ دیتے ہیں، یا اسے ٹالتے رہتے ہیں، اور اسے ہی چرا لینا چاہتے ہیں اور اس میں فساد مچاتے ہیں، اور ایسا تب ہوتا ہے جب دنیا ہی انکی فکر، اور انکی چاہت بن جائے، اور اسکا شغل اور اسکی مصروفیت بن جائے، اور وہی انکا مقصد اور انکا منتہی قرار پائے، اور وہ اپنا بیشتر وقت اسی میں ضائع کر دیں، اور انکی زندگی اس(دنیا) کی خاطر بسر ہونے لگے، اور انکی محبتیں اور نفرتیں اسی کی خاطر ہونے لگیں، اور انکا بھائی چارہ اور دشمنیاں اسی کی خاطر ہونے لگیں، وہ ہر طریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں، اور ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کریں کہ آیا وہ حلال ہے یا حرام، پس حقوق ضائع ہوں، اور فرائض سے غفلت برتی جائے، اور وہ اپنے اوپر بھی ظلم کریں اور دوسروں پر بھی، یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی گمراہ ہوے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، انکے بارے اﷲ تعالی کا یہ فرمان سچ ہے کہ: (فمن الناس من یقول ربنا آتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرۃ من خلاق) (البقرۃ، ۲۰۰) (ان میں سے کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ، ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے، ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں۔)
یہ ان سب کی مثالیں ہیں، اﷲ تعالی فرماتا ہے: (بل تؤثرون الحیاۃ الدنیا ۰ والآخرۃ خیر وابقی) (الاعلی، ۱۶ ۔ ۱۷) (بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخر بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔)
(ارضیتم بالحیاۃ الدنیا من الآخرۃ فما متاع الحیاۃ الدنیا فی الآخرۃ الا قلیل) (التوبۃ، ۳۸)(کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔)
(وما الحیاۃ الدنیا الا لعب و لھو وللدار الآخرۃ خیر للذین یتقون افلا تعقلون) (الانعام، ۳۲) (دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے اور حقیقت میںآخرت ہی کامقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زیاں کاری سے بچنا چاہتے ہیں)
اور نبی اکرم ﷺ انہیں اسکی محبت میں انتہائی کمی اور سرکش الفت، دونوں کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جس نے دنیا سے محبت کی، اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچا لیا، اور جس نے آخرت سے محبت رکھی ،اس نے اسکی دنیا کو نقصان پہنچا دیا، پس باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی پر ترجیح دو‘‘ (صحیح ابنِ حبان)، اور کہا جاتا ہے: دنیا اور آخرت ترازو کے دو پلڑوں کی مانند ہیں، جو ایک کو جھکائے گا دوسرے کو ہلکا کر دے گا، اور نتیجہ وہی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اور دنیا جسکا غم بن گئی، اﷲ اسے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکا فقیر بنا دے گا، اور اسکے خوف میں مبتلا کر دے گا، اور وہ دنیا اسی قدر حاصل کر سکے گا جتنی اسکے نصیب میں لکھ دی گئی ہے‘‘ (ترمذی)۔
دوسری صنف:
جو دنیا کو کلیۃ دھتکار دیں، اور اس میں سے جو انہیں مل رہا ہو، اسے بھی ترک کر دیں، اگرچہ وہ حلال اور طیب ہو، اس پر اسکا نفس اور اسے گھر والے تنگ ہوں، اور شدت سے حاجت مند ہونے کے باوجود تھوڑے پر راضی رہے، اور اپنے آپ کو اسکو حاصل کرنے کی مشقت میں نہ ڈالے، اور اسکی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے کوشش بھی نہ کرے، اور یہ سمجھے کہ ایسی ہر کوشش ایمان کے منافی ہے، اور بندگی کے مفہوم میں کمی کرتی ہے، پس وہ اسکی طلب میں دوسروں کی جانب دیکھتا رہے، اور اسباب کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ وہ گمان کرتا ہو کہ فقر عزت افزائی ہے، اور مال و دولت ہونا (عزت میں )کمی ہے، اسے مشکلات اور پریشانیاں پیش آتی ہیں، اسے تنگی اور مشقت لاحق ہوتی ہے، اور اﷲ عزوجل اپنے ایسے بندوں سے راضی نہیں ہوتا، کیونکہ وہی تو ہے جو ہماری تکلیفیں دور کرتا ہے، اور اس نے ہم سے بوجھ اور بیڑیاں ہٹائیں، اور رہبانیت ، کنارہ کشی، اور دنیا سے کٹ جانے کو ہم پر حرام کیا۔
یہ گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ بعینہ زہد ہے، اور وہ واقعی زاہد ہے، کچھ اور نہیں! اور یہ زاہدوں کا کیسا زہد ہے جبکہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’دنیا میں زہد اختیار کرنا حلال کو حرام ٹھہرانا نہیں ہے، اور نہ مال کا ضیاع کرنا ہے، لیکن دنیا کا زہد یہ ہے کہ آپ کو اس پر بھروسہ نہ ہو جو آپ کے ہاتھ میں ہے، بلکہ اس پر کامل بھروسہ ہو جو اﷲ کے ہاتھ میں ہے‘‘ (ترمذی اور احمد)، اور ابنِ حلا کا قول ہے: زہد، دنیا کو زوال کی نظر سے دیکھنا ہے، اسطرح وہ آپکی نگاہ میں چھوٹی ہو جاتی ہے، اور اس سے اعراض کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں: زہد تین طرح کا ہوتا ہے: پہلا: حرام کو ترک کر دینا، اور یہ عوام کا زہد ہے، دوسرا: حلال میں سے زائد کو ترک کر دینا، اور یہ خواص کا زہد ہے، اور تیسرا: ہر اس چیز کو چھوڑ دینا جو اﷲ سے مشغول کر دے، اور یہ عارفین کا زہد ہے، اسی لئے علماء نے فرمایا: زاہد وہ نہیں ہے جس کے پاس مال نہ ہو، بلکہ زاہد وہ ہے جس کے دل کو مال مشغول نہ کر لے، اگرچہ اسکا پاس قارون جتنا خزانہ بھی ہو۔
یہ دونوں صنفیں ان لوگوں کی ہیں جنہوں نے دنیا کی حقیقت سمجھنے میں غلطی کھائی، وہ نہ جان سکے کہ اس سے کیسے معاملہ کیا جائے، جبکہ بنیادی وجہ ان کے اندر موجود تھی، اور یہ دونوں گروہ افراط اور تفریط کا شکار ہوئے، اور ان دونوں کا رویہ ایک دوسرے کی ضد کے باوجود غلط ہے، اور ان دونوں کا رویہ قابلِ مذمت ہے۔
تیسری صنف:
اسکا ذکر اﷲ تعالی نے اپنی کتابِ کریم میں کیا ہے: (ومنھم من یقول ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار) (البقرۃ، ۲۰۱) (اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔)
ابنِ کثیر اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس دعا میں دنیا کی سب خیر جمع ہو گئی، اور ہر شر دور ہو گیا، کیونکہ دنیا میں مطلوب ہر خیر اور بھلائی،عافیت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشائش والے رزق، نافع علم، عملِ صالح، اچھے تذکرے اور ان ہی جیسی دوسری چیزوں سے عبارت ہے، دوسرے مفسرین نے بھی تفسیر میں انہیں چیزوں کو شامل کیا ہے، اور کسی نے بھی انکی نفی نہیں کی؛ کیونکہ یہ سب دنیا کی بھلائیوں میں شامل ہیں، رہی آخرت کی بھلائی، تو اسکا اعلی درجہ جنت میں داخلہ ہے، اور اسکے بعد حشر کے میدان میں بڑی گھبراہٹ سے امن، حساب میں آسانی، اور اچھی آخرت سے متعلق امور ہیں، رہا آگ سے نجات کا معاملہ تو وہ دنیا کے اسباب پر مبنی ہے، کہ حرام اشیاء سے کس قدر پرہیز کیا، گناہوں سے کس قدر بچے، اور شبہات اور حرام سے کس قدر کنارہ کشی اختیار کی، اسی لئے سنت میں اس دعا کو مانگنے کی ترغیب آئی ہے: انسؓ بن مالک سے روایت ہے، کہ بنی ﷺ یوں دعا فرماتے تھے: ’’اللھم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ (بخاری)۔
اور یہ صنف دنیا میں بھی اپنا حصہ پاتی ہے؛ تاکہ آخرت کے لئے عمل کرنے کے لئے اس سے مدد حاصل کرے، اور اسکی فکر، انکی نیت اور مقصد آخرت کی طلب ہے، نبی اکرم ﷺنے فرمایا ہے: ’’جس کی فکر آخرت ہو گی، اﷲ اسکے دل کو غنی کر دے گا، اور اسکے لئے سب کچھ شامل کر دے گا، اور دنیا بھی اسے عطا کرے گا ، اس (دنیا) کے نہ چاہنے کے باوجود‘‘۔
***
اہم بلاگز
محنت کشوں کا عالمی دن
یکم میں زیادہ تر ممالک میں مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے 1886 کو چند مزدور اپنے حق کے لیے اکٹھے ہوئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے پر اور آٹھ گھنٹے مزدوری کا وقت طے کرنے پر احتجاج کیا پولیس نے احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلا دی یہ واقعہ عدالت میں گیا مقدمہ ہوا 21 جون 1886 کو کریمینل کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کی گئی مخالفین نے عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں کو سزا دینے پر دباؤ ڈالا اور اخر کار 19 اگست کو پانچ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت سنا دی گئی ان رہنماؤں کے جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی 189 میں پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ یادگاری تقریب کے موقع پر ریمون لیونگ نے تجویز رکھی کہ 1890 میں شکاگو کے مزدوروں کی برسی کے موقع پر عالمی طور پر احتجاج کیا جائے اس تجویز کو 1891 باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا اور یوں دنیا کے چند ممالک میں یکم مئی کو اسی دن کو لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے
عالمی طور پر اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ مزدوروں کے حقوق فرائض اُجرت مسائل اورمسائل کا حل کیا جائے، بدقسمتی سے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح جُتنے والے یہ محنت کش اپنی اُجرت تو کیا اتنی کمائی بھی نہیں کر سکتے کہ وہ روز مرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں صبح سویرے نکلنے والے یہ محنت کا جب گھر سے روانہ ہوتے ہوں گے تو کتنی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر گھر سے جاتے ہوں گے لیکن دن بھر کی کمائی کے بعد نہ جانے کتنی ہی ضروریات کا گلا گھونٹ کر گھر کی دہلیز پار کرتے ہوں گے اپنی اور اپنی اولاد کی بنیادی ضرورت کو تو چھوڑیے جن والدین نے ان جوانوں کو اپنے جگر کے خون سے بڑا کیا ہوگا اور یہ خواہش دل میں رکھی ہوگی کہ جب یہ بڑے ہوں گے تو شاید کہ یہ اولاد ان کے کسی کام آسکے گی مگر یہ افراد تو اپنے والدین کی دوائی تک کو پورا نہیں کر سکتے ہوں گے، ساری زندگی جوانی وقت محنت اور تگ و دو کے ساتھ بڑی بڑی عمارتوں کو تعمیر کرنے والے یہ لوگ خود شاید ساری زندگی اپنے ایک سادہ مکان کو پکا کر لینے کی بھی سکت نہ رکھتے ہوں گے۔
مزدوروں کے ساتھ دن بدن ترقی اور ہاتھ سے کام کی جگہ مشینوں کے کام نے لے لی اس طرح ان سادہ لوگوں کے کام مشینوں نے سنبھال لیے اور یہ محنت کش اپنی دیہاڑیوں سے بھی محروم ہو گئے ۔ موجودہ مہنگائی حقوق کے استحصال اور معصیت کی تنگی نے تو بڑوں بڑوں کو چاند تارے دکھا دیے ہیں یہ لوگ جو پہلے ہی مفلص اور مسکین تھے اتنی مہنگائی میں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا سالوں بعد دن منا لینا بہت سے فیچرز لکھ لینا...
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...