روشن خیالوں کا دوہرا معیار

ہمارے ملک کے نام نہاد روشن خیال دانشوروں کے ترقی یافتہ  امریکہ کے شہر فلوریڈا کے ایک جدید تعلیم کے اسکول کے طالبعلم نے اپنے ہی اسکول کے ساتھیوں پر فائرنگ کرکے متعدد بے گناہ طالبعلموں  کو ہلاک کر دیا یہ ایک شاکنگ خبر تھی میں فورا  ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا  تا کہ تفصیل جان سکو ں اور یہ تصور کرنے لگا کہ اب دنیا کی تمام این جی اوز اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے تعلیمی نظام پر سوال کرینگی ہمارے لبرل اور موم بتی مافیا شمعیں روشن کر کے اسکولوں کے نصاب پر آواز اٹھائیں گی لیکن یہ کیا ایک چھوٹی سی خبر اور کہانی ختم پھر یاد آیا ارے یہ کسی مدرسہ کی خبرتو ہے  نہیں ہے جہاں سب شور مچائے اور اپنی دکانداری کو چمکائیں کیونکہ اس پر تو انھیں کہیں سے فنڈنگ نہیں ملے گی ہاں البتہ اگر کسی مدرسے میں خدانخواستہ کسی نے تشدد کیا ہوتا یا کسی ایک فرد کی ذاتی غلطی کے سبب تمام مدارس کے نصاب پر سوالیہ نشان ضرور اٹھائے جاتے نصاب کی تبدیلی کی بات کی جاتی  چونکہ امریکہ میں اخلاقیات انسانیت جنسیت سمیت ہر قسم کی تعلیم دی جاتی ہے جسے کچھ نا عاقبت اندیش روشن خیال دانشور پاکستان میں بھی اس پر عمل کرانا چاہتے ہیں یہ لوگ مسلمان کے گھر میں تو پیدا ہوگئے لیکن بد قسمتی سے اسلام کو سمجھا نہیں اگر یہ لوگ اسلام کی بنیادی تعلیم حاصل کر لیں تو کبھی مدارس کو نشانہ نہ بنائیں پورے یورپ میں جدید تعلیم نے انھیں ڈگری یافتہ تو بنا دیا جانوروں سے محبت کرنا تو سکھادی لیکن عورت کی عزت کرنا نہیں سکھایا اس کو تسکین کی چیز بنا دیا بچے  چائلڈ ہوم میں اور والدین کو اولڈ ہوم پہنچا دیا خاندانی نظام کو تباہ کر دیا خود غرض  بنادیا غرض معاشرتی برائیوں کو فیشن اور جدیدیت اور روشن خیالی کا لبادہ اڑھا کر اسےیورپی معاشرہ کا نام دے دیا  اور ہم اسلام جیسے ایلک مکمل اور خوبصورت نظام زندگی کو چھوڑ کر مصنوعی اور بدبودار نظام کو اپنانے کی خواہش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنی دین اور دنیا دونوں تباہ کر نا چاہتے ہیں جس پر ہمیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے  ہماری دعا ہے اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین

جواب چھوڑ دیں