شرم ہم کو مگر نہیں آتی

one couple man and woman domestic violence

وہ دونوں ارد گرد سے بے نیاز بحث مباحثے میں مصروف تھیں۔ ایک اسلام و اسلامی قوانین کو عورت کے لیے سخت و مشکل اور مشرقی معاشرے کوپسماندہ قرار دے کریورپی و مغربی معاشرے کوبہترین اور وہاں کی آزادی کوعورت کابہترین حق قرار دے کراسلامی تعلیمات کو سب و شتم کا نشانہ بنا رہی تھی تو دوسری کسی حد تک اس کی بات کا رد کرتے ہوئے اسلام میں عورت کے حقوق کو بہترین قرا ر دے رہی تھی کہ عورت کو آزادی دراصل دی ہی اسلام نے ہے۔ایک ببانگ دہل کہہ رہی تھی :’’ہمارے ہاں خواتین کو ظلم سہنے کی عادت ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مردوں کو جو حقوق حاصل ہیں ان سے عورتوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ ہر جگہ تعلیم یافتہ و باشعور عورت کو جنس و نسل پرستی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کہ زیادتی ہے۔ جبکہ یورپی و مغربی ممالک میں عورتوں کے لیے آزادی ہے، انہیں مردوں سے زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں۔ جس سے وہاں کی عورتوں کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عورت کو آزادی نہیں دی گئی جس سے اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
وہ گاڑی میں ہم سے پچھلی نشست پر بیٹھی غالبا کسی کالج ، یونیورسٹی کی طالبات تھیں۔ جب کافی وقت ان کی چخ چخ اور کٹر کٹر بند نہ ہوئی اور بحث میں شدت آنے لگی تو میرے قریب بیٹھے ایک سفید ریش بزرگ تسبیح جیب میں رکھتے ہوئے پیچھے مڑ کر گویا ہوئے: بیٹا! سٹوڈنٹ لگتی ہیں؟ یونیورسٹی سے آرہی ہیں؟ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا تو بزرگ دوبارہ گویا ہوئے: بیٹے !ماشاء اللہ آپ پڑھی لکھی ہیں ، کافی دیر سے آپ کی باتیں سن رہا ہوں۔ آپ مجھ سے بہتر سمجھتی ہیں۔ لیکن بیٹا! کیا آپ کو معلوم ہے ، جس آزادی کی آپ بات کر رہی ہیں وہ کب ملی؟ انہوں نے نفی میں سر ہلایاتو بابا جی بولے: ’’انیسویں صدی میں مغرب نے عورت کے لیے کچھ حقوق ترتیب دیے تھے جسے وہ آج عورت کی آزادی کے نام سے یاد کرتا ہے۔اس کے بعد اقوام متحدہ کے چارٹر میں ’’ مرد و عورت کے حقوق برابر ہیں ‘‘لکھا گیا۔ ان اصلاحات سے ظاہرا تو عورت کی عزت میں اضافہ ہوا،وہ مردکے شانہ بشانہ کام کرنے لگی،وہ اپنے آپ کو آزاد محسوس کرنے لگی ۔ لیکن مساوات مرد و زن کا یہ تصور بھی اس کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکا۔کیوں کہ یہ مغرب کی چال تھی اس نے عورت کو چادر اور چار دیواری سے لا باہر کھڑا کیا۔
مغربی عورت نے آزادی نسواں کا نعرہ لگا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کی تھی۔مگر وہ مسائل اب ایک جدید شکل میں ااس کے سامنے تھے۔ پہلے عورت شوہر کی ہی محکوم تھی مگر اب کسی کمپنی ، کارخانے، دفتر، فیکٹری مالکان کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی محکوم ہونا پڑا ۔ عورت جسے گھر سنبھالنا مشکل تھا آج اسے گھر کے ساتھ ساتھ فکر معاش کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے عورت گھر سے باہر نکلنے کے لیے بیتاب تھی آج واپس گھر میں رہنے کے لیے بے چین، مگر کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ مغرب جو عورت کی آزادی کی بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، وہ سراسر جھوٹ، دھوکے، فریب پر مبنی ہے۔ بابا جی نے لمبا سانس لیا اور دوبارہ گویا ہوئے: بیٹا! شائد آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں مگر مغربی معاشرے میں عورت کی تذلیل ویسی ہی ہوتی ہے جیسی صدیوں پہلے ہوتی تھی۔مغرب کی جس آزادی کی آپ بات کر رہی ہیں اس کا نتیجہ انتہائی حد تک کرب و الم لیے ہوئے ہے۔
اس کا اندازہ مغربی ماہرین کے اعداد و شمارسے لگایا جاسکتا ہے۔ بیٹا! جس معاشرے کی مثال آپ نے دی ناں؟ اس سوسائٹی میں ہر دس منٹ میں ایک عورت کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔اس معاشرے میں خاندان کا شیرازہ بکھرنے کی وجہ سے صرف آٹھ ، دس فیصد بچوں کو والدین کی سرپرستی حاصل ہے۔مغربی ممالک ڈنمارک، برطانیہ،فرانس، امریکہ میں ناجائز بچوں کا تناسب ۱۵ فیصد ہے۔ صرف ایک مغربی ملک جرمنی کی مثال لے لیں۔وہاں ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ تن تنہا زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے تقریبا ۴۳فیصد نے شادی ہی نہیں کی ، اور شادی کے بغیر مرد و زن کا اکٹھا رہنے کا تناسب ۲۷ فیصد ہے۔ ایک جرمن بچے کو ۲۴ گھنٹے میں ماں باپ صرف اوسطا آدھا گھنٹہ دے پاتے ہیں۔صرف جرمنی میں تقریبا ۲۶ لاکھ خواتین ایسی ہیں جو شادی کے بغیر ایک بچے کی ماں ہیں۔اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی مرکزی حکومت کے دفاتر میں کام کرنے والی عورتوں کی ۸۲ فیصد تعداد کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔
جس معاشرے میں عورت کو مردوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں کی بات آپ کرتی ہیں ناں؟ ان میں سے امریکہ میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی تنخواہ ۲۴ فیصد کم، فرانس میں ۳۱، اٹلی میں ۳۵،ڈنمارک میں ۶۵، برطانیہ میں ۴۲ اور جرمنی میں ۴۴ فیصد کم ہے۔یہ ہے اس سوسائٹی کا اصل روپ جسے آپ بہترین سمجھ رہی ہیں اور اس کے گن گا رہی ہیں۔جبکہ اس معاشرے کے دانشورحلقوں میں کھلبلی مچی ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور اپنے آپ کو اس کریہہ زدہ معاشرے سے نکالنے کی پلاننگ میں مصروف ہیں مگر کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔بیٹا! آپ مجھ بڈھے گنوار سے اچھا سمجھتی ہیں ، سمجھدار ہیں ، باشعور ہیں۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں اسلام ہی واحد ایسا مذہب ہے جو عورت کے حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے۔ایک ایسا روشن چراغ ہے جس سے مغربی معاشرے کی سیکڑوں خواتین نے روشنی حاصل کی ہے۔صرف جرمنی و برطانیہ میں ہزاروں خواتین اسلام کے سایہ میں آچکی ہیں۔ کیوں کہ انہیں محسوس ہوگیا ہے کہ اسلام ہی محفوظ و مامون پناہ گاہ ہے۔
نومسلم معاشرے کی عورتوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا :’’اسلامی تعلیمات میں عورت کو جو عظمت و تقدس ملا ہے وہ مغربی معاشرے میں ناپید ہے۔‘‘ بیٹا! آپ بھی اسلامی قوانین کا مثبت نگاہ سے مطالعہ کیجئے، انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اور اسلام کی قدر کیجئے۔ بابا جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کچھ توقف کے ساتھ گویا ہوئے: اچھا بیٹا! میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کرنا۔ آپ کا بہت سا وقت ضائع کر کے آپ کے سفر میں بوریت کا سبب بنا ۔ساتھ ہی گاڑی رکی اور وہ فرشتہ صفت انسان ، سفید ریش بزرگ تسبیح جیب سے نکال کرعصا تھامے گاڑی سے اتر گئے اور ہم سب ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہ گئے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ اور دلوں کو چھو دینے والی تحریر۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

جواب چھوڑ دیں