قومی اسمبلی حلقہ نمبر75 ڈسکہ: پُرتشدد ضمنی انتخاب – میاں منیر احمد

861

کے پی کے، پنجاب اور سندھ میں منتخب ارکان اسمبلی کے انتقال کے باعث خالی ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔ عمومی طور پر روایت یہ رہی ہے کہ ضمنی انتخاب میں حکومت کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں، یہ روایت سندھ اور فاٹا کی حد تک تو درست ثابت ہوئی، تاہم پنجاب میں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کو شکست دی ہے۔ ڈسکہ کے حلقے میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف دونوں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کررہی ہیں تاہم الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی اس نشست پر انتخابی نتائج روک لیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جو بھی آئے، اس حلقے میں ہونے والی بد مزگی حکومت اور الیکشن کمیشن کی انتظامی مشینری کی اہلیت اور صلاحیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ تحریک انصاف کو گزشتہ عام انتخابات میں اگر کامیابی ملی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ انتخابی دھاندلی کی ہر شکل کو دفن کرنے کے لیے باہر نکلی تھی، لیکن اقتدار میں آکر تین سال مکمل کرنے جارہی ہے اور ابھی تک انتخابی اصلاحات نہیں لا سکی، اور انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی جو کمیٹی بنی تھی اُس کا کوئی اجلاس تک نہیں ہوسکا۔ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، پارلیمانی نظام میں وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے۔ ان تین برسوں میں قومی اسمبلی کے350 ایام ہوچکے ہیں اور وزیر اعظم اب تک کُل21 روز اجلاس میں آئے ہیں۔ جہاں وزیر اعظم کی سطح پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت کا یہ عالم ہو،وہاں انتخابی اصلاحات کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس نہ ہونے کا گلہ اور شکایت کس سے کی جائے؟ انتخابات میں دھاندلی کی بدترین مثال بھٹو دور میں تھی کہ پاکستان قومی اتحاد کے امیدواروں کے بیلٹ پیپر گندے نالوں سے برآمد ہوئے تھے، تب تو میڈیا بھی اس قدر وسعت نہیں رکھتا تھا۔ آج کے تیز اور جدید دور میں بھی انتخابی دھاندلی کی مختلف شکلیں سامنے آئی ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں آر ٹی ایس سسٹم ہی بیٹھ گیا تھا اور حالیہ ضمنی انتخاب میں قومی اسمبلی کی ڈسکہ کی نشست کا انتخابی نتیجہ اس لیے روک دیا گیا کہ 20 پولنگ اسٹیشن کے پریزائیڈنگ افسران ریکارڈ سمیت لاپتا ہوگئے، اور جب رابطے میں آئے تو جواز یہ پیش کیا کہ دھند کی وجہ سے رابطہ نہیں کر سکے۔قومی اسمبلی کے حلقہ 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں پولنگ کے اوقات میں شدید بدامنی لاقانونیت کی ایک الگ مثال ہے، اور پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسروں کا ووٹوں کے تھیلوں سمیت لاپتا ہو جانا انتخابات کی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے درست فیصلہ کیا اور نوٹس لے کر مکمل تحقیقات تک نتائج کا اعلان روک دیا۔ ضمنی انتخاب میں کس جماعت کی فتح اور کس کی شکست ہوئی اس کا فیصلہ تو ابھی باقی ہے، یہ بات طے ہے کہ بیوروکریسی ناکام ہو گئی۔ ریاستی امور اور معاملات چلانے کے لیے دنیا بھر میں بیورو کریسی ایک مضبوط ادارہ تصور کیا جاتا ہے، بیورو کریسی یا سرکاری مشینری کا بنیادی کام حکومتی امور کو ریاستی اور عوامی بہبود میں چلانا ہوتا ہے۔امن و امان،نظم و نسق کا قیام،عوام کو انصاف اور ریلیف کی فراہمی،حکومت اور حکمرانوں کو آئین و قانون کے ضابطے میں رکھنا اس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، قانون کی حکمرانی کا قیام اس کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے،مگر ڈسکہ میں جو کچھ بھی ہوا ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سابق بیوروکریٹ ہیں، گجرات کی ایک سیاسی فیملی سے ان کا تعلق ہے، ان کے سسر نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری رہے ہیں، ڈسکہ حلقے کا نتیجہ اور پولنگ عملے کا غائب ہونا اُن کے خاندانی پس منظر کے باوجود کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے متعلقہ انتخابی حلقے کے بیس پولنگ اسٹیشنوں کے نہ تو نتائج بروقت موصول ہوئے، نہ رات بھر عملے سے رابطے کی کوششیں کامیاب ہو سکیں، اس صورتِ حال کے باعث ریٹرننگ افسر نے ان پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ظاہر کیا ہے، لہٰذا تحقیقات کاحکم دے دیا گیا ہے۔

اعلامیے میں کیا گیا یہ انکشاف بہت حیرت انگیز اور فوری وضاحت طلب ہے کہ الیکشن کمیشن کی فون کالز آئی جی سمیت تمام متعلقہ پولیس حکام نے سننے سے گریز کیا، جبکہ صوبے کے چیف سیکرٹری لاپتا عملے کا سراغ لگانے کی یقین دہانی کرا کے خود بھی عنقا ہو گئے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ این اے 75سیالکوٹ فور کے ضمنی الیکشن کے نتائج غیرضروری تاخیر کے ساتھ موصول ہوئے، اس دوران متعدد پریزائیڈنگ افسروں کے ساتھ رابطے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اعلامیے کی رُو سے چیف سیکرٹری پنجاب سے رات تین بجے کے قریب رابطہ ہوا اور انہوں نے گمشدہ پریزائیڈنگ افسروں اور ووٹوں کے تھیلوں کا پتا لگا کر نتائج کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی، مگر پھر انہوں نے بھی نہ خود کوئی جواب نہ دیا نہ ان سے فون پر بات ہو سکی۔ بڑی تگ و دَو کے بعد صبح چھے بجے پریزائیڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ دستیاب ہوئے۔ ان حالات کے پیش نظر ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر نے این اے 75کے ضمنی الیکشن کے بیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں ردو بدل کا خدشہ ظاہر کیا ہے، لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقے کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔ ڈی آر او تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن کو فوری طور پر بھیج رہے ہیں جس کے بعد کمیشن کے اجلاس میں ان پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی مکمل تحقیقات کے ذریعے سے حقائق کا پتا لگانے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بعد نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے بقول یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری کا لگتا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بیس حلقوں کی تحقیقات کے بجائے پورا الیکشن ہی دوبارہ کرانے کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے دلیل دی کہ متعلقہ حلقے میں شروع ہی سے خوف و ہراس کی فضا پیدا کردی گئی تھی جس کی وجہ سے بہت سے رائے دہندگان ووٹ دینے کے لیے اپنے گھروں ہی سے نہیں نکل سکے۔ تاہم حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ یہ الیکشن حکمراں جماعت نے جیت لیا ہے اور اب اپوزیشن کا شور و غوغا بے جواز ہے، چنانچہ الیکشن کمیشن کو کسی قسم کی تحقیقات کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر فوری طور پر نتائج کا اعلان کردینا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے مدمقابل پر پولنگ اسٹیشنوں کو یرغمال بنانے اور بعض سرکاری افسروں پر مسلم لیگ (ن) کی خواہشات پوری کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن سے تحقیقات کے بغیر نتائج کا اعلان کرنے کے مطالبے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس لیے بے لاگ تحقیقات ہونی چاہیے کہ ڈسکہ کے الیکشن کے پراسرار واقعات کا معمّا کیا ہے؟

ملک میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں دو پہلو بہت اہم ہیں۔ عام انتخابات کی طرح ہر ضمنی انتخاب میں ٹرن اوور ہمیشہ کم رہتا ہے، اگرچہ مثالی گہما گہمی نہیں تھی تاہم ملک میں سیاسی صورت حال کے پیش نظر مہنگائی کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام ووٹ کے لیے باہر نکلے اور انتخابی نتائج کے مطابق اپوزیشن کو حکومت کی نسبت زیادہ ووٹ ملے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے مشترکہ امیدوار تو کھڑے کیے مگر متحد ہوکر الیکشن نہیں لڑا۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو ملنے والے ووٹ میں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کا ووٹ نظر نہیں آیا۔ کے پی کے میں مسلم لیگ(ن) کو برتری ملی مگر بہت کم مارجن سے اس کا امیدوار کامیاب ہوا ہے۔ جس طرح کے نتائج آئے ہیں اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ تین سال اقتدار کے بعد تحریک انصاف کا بیانیہ پٹ چکا ہے، یہ بیانیہ تنخواہ دار اور کارپوریٹ مڈل کلاس کا بیانیہ تھا جو میرٹ، ٹیکس دہندگی اور قانون کی پابندی پر مشتمل تھا۔ تحریک انصاف نے تنخواہ دار طبقے سمیت مڈل کلاس کو نقصان پہنچایا اور ملک کے تعمیراتی شعبے کو اُس کی ہر خرابی کے ساتھ قبول کیا۔ بزنس مڈل کلاس نے اب اس بیانیے کے سراب سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اِس حکومت کے ذریعے کاروبار کے حالات درست نہیں ہوں گے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کے لیے ضمنی انتخاب کے نتائج مستقبل میں سیاسی فتح کی کوئی کلید ثابت نہیں ہوں گے، اگلے عام انتخابات میں ابھی دو سال باقی ہیں مگروقت جس تیزی سے گزر رہا ہے یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ 2023ء سے شروع ہونے والا اگلا عشرہ پاکستان کی سیاست میں بہت کچھ بدل کر رکھ دے گا، سیاست میں نئے چہرے اور نئے نام سامنے آجائیں گے، اگلے عام انتخابات میں عمران خان 70سال اور نوازشریف 72سال کے ہوجائیں گے، دونوں جماعتوں میں پارٹی قیادت کی منتقلی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نوازشریف کی جانب سے مریم نواز کے لیے سیاسی میدان صاف کرنے کی کوشش اسی لیے کی جارہی ہے کہ وہ انہیں اپنا متبادل بناچکے ہیں۔ ایک نجی محفل میں مریم نواز نے بلاول کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دونوں کی سیاست میں ایک قدر مشترک ہے کہ تمہاری والدہ اپنے والد کی سیاست آگے بڑھاتے ہوئے ان کے قدموں میں جاسوئی ہیں، اور میں بھی اپنے والد کے بیانیے کو آگے بڑھاکر ان کے قدموں میں جانا چاہتی ہوں‘‘۔ نئی نسل کے ان سیاست دانوں کے بیانیے بتا رہے ہیں کہ اگلا سیاسی عشرہ ماضی سے بہت مختلف ہوگا، جس میں نئی سیاسی قیادت ہوگی اور نئے سیاسی بیانیے ہوں گے۔ 2023ء کا الیکشن پیپلزپارٹی نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان فیصلہ کن سیاسی معرکہ ہوگا۔ تحریک انصاف کو اس وقت جو سب سے بڑا طعنہ دیا جاتاہے وہ اس کے وعدے ہیں، جو عمران خان اور ان کی جماعت نے اپنے منشور میں درج کرکے 2018ء کے الیکشن میں ببانگِ دہل سب کے سامنے رکھے تھے۔ مگر حکومت میں آنے کے بعدہر وعدے کو حکمران جماعت پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ضمنی انتخاب کے بعد اب حکومت اور اپوزیشن کا انتخابی ملاکھڑا سینیٹ میں لگے گا۔ سینیٹ میں سب سے اہم انتخابی معرکہ یوسف رضا گیلانی اور عبدالحفیظ شیخ کے مابین ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو شکست ہوئی تو حکومت کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا، گیلانی جیت گئے تو تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کے رحم و کرم پر ہوگی۔ اپوزیشن بھلے اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ لائے مگر پارلیمنٹ میں اسے نفسیاتی برتری مل جائے گی۔ جہاں تک جمہوریت اور موجودہ نظام کا تعلق ہے، فیصلہ یہی ہے کہ حکومت کا 5 سالہ وقت پورا ہونا ضروری ہے۔ طاقتور حلقوں میں وزیراعظم عمران خان کی حیثیت مرکزکی سی ہے، ان کی اہلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور اٹھتے رہیں گے، لیکن ان کی مرکزی حیثیت کو ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ اور آصف علی زرداری نے بہت سوچ سمجھ کر یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اتارا ہے، انہیں سینیٹ میں بھیجنا ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کچھ حاصل کرنے کے موڈ میں ہے، یہ رعایت کے بدلے رعایت بھی ہوسکتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے لیے سندھ سے منتخب ہونا آسان تھا، مگر شاید وہ اس کے لیے رضامند نہ ہوتے۔ آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی نشست پر سینیٹ کا انتخاب لڑنے کے لیے کہا، ابتدا میں تو انہوں نے معذرت کی۔ اصرار کیا گیا تو راضی ہوئے۔ اگر یہ نشست یوسف رضا گیلانی جیت لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکی ہے، اس صورت میں عمران خان کو وزیراعظم رہنے کے لیے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ یہ نشست جیت گئے تو وزیراعظم عمران خان کو یوں سمجھیے کہ اعتماد کا ووٹ مل گیا۔

فیٹف کا اہم اجلاس

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس شروع ہوچکا ہے۔ یہ اجلاس 24 فروری تک جاری رہے گا، جبکہ اس کا اعلامیہ 25 فروری کو جاری ہوگا۔ یہ بہت اہم اجلاس ہے جس میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ دہشت گردوں کی اعانت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام سے متعلق عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اکتوبر 2020ء کے اجلاس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پاکستان نے ٹاسک کے تحت 27 میں سے 21نکات کو مکمل کرلیا ہے، باقی 6پر جزوی عمل کیا ہے۔ اس طرح فالو اپ لسٹ میں ڈال کر 6 نکات کو مکمل کرنے کی شرط رکھ دی گئی۔ اب چارہ ماہ کی مدت مکمل ہونے کے بعد ایف اے ٹی ایف کا اجلاس پیرس میں شروع ہوگیا ہے جس میں پاکستان سمیت گرے لسٹ میں شامل کیسوں پر غور اور فیصلہ ہوگا۔ پاکستان 6 سفارشات پر عمل کرنے کے بعد اس کی تفصیلات ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو بھیج چکا ہے۔ پاکستان نے دیے گئے نکات پر مکمل عمل کیا ہے، اب اسے مزید گرے لسٹ میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا، اس کے باوجود اگر امریکہ یا کسی نے پاکستان پر کوئی دبائو ڈالا تو یہ امتیازی سلوک قرار دیا جائے گا۔ خدشہ ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے لیے کوئی کھیل کھیلے گا، وہ رواں برس جون تک پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کے لیے لابنگ کرسکتا ہے۔ پاکستان کے مکمل ہوم ورک کے بعد اگر اس کے خلاف کوئی بھی منفی صورت حال پیدا کی گئی تو ضروری ہوگا کہ عالمی برادری پر حقائق واضح کیے جائیں، لیکن امید ہے کہ موجودہ اجلاس میں پاکستان کو وائٹ لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔ ضرورت پڑی تو عالمی عدالتِ انصاف کا آپشن موجود ہے۔ پاکستان انسداد ِمنی لانڈرنگ اقدامات پر رپورٹ پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کو بھیج چکا ہے، 27 میں سے 26 اہداف پر پیش رفت ہوئی ہے جبکہ 14 اہداف مکمل کیے ہیں، پاکستان نے 8 اہداف میں بڑی اور ٹھوس، جبکہ 5 اہداف پر جزوی پیش رفت کی ہے۔

(This article was first published in Friday Special)