کیا ہم دہشت گردی کی جنگ سے نمٹ سکیں گے؟ – سلمان عابد

886

پاکستان کو دہشت گردی کا سنگین چیلنج کئی دہائیوں سے درپیش ہے، اور بطور ریاست ہم اس سے نمٹنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں ہماری ریاست اور اس کے اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے مقابلے میں اِس وقت دہشت گردی کی وہ صورتِ حال نہیں جو ماضی میں درپیش تھی۔ اس کا اعتراف داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر موجود ہے ، لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ آسان نہیں، اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمیں دہشت گردی کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ ختم نہیں ہوئی، بلکہ بدستور جاری ہے۔

بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اور گیارہ معصوم لوگوں کے بے دردی سے قتل کے بعد اب محسوس ہورہا ہے کہ ایک دفعہ پھر دہشت گردی کے سائے بڑھ رہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر دہشت گرد یا دہشت گردوں کی عملی طور پر سرپرستی کرنے والے دوبارہ خود کو سرگرم یا منظم کررہے ہیں۔ یہ کیوں منظم ہورہے ہیں اورکیوں ہمیں ان کا مقابلہ کرنے میں سخت مشکلات یا ناکامی کا سامنا ہے؟ اس کا بھی مختلف حوالوں سے تجزیہ کیا جانا چاہیے۔

یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے میں مکمل ناکام ہوگیا ہے، درست تجزیہ نہیں۔ یہ واقعی زیادتی ہوگی اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں اپنی بہت سی اہم کامیابیوں کا احساس نہ کریں، اور ان کو نظرانداز کرکے اس بیانیے کو تقویت دیں کہ ہم اس جنگ میں کچھ نہیں کرسکے۔ جہاں ہمیں کئی سطحوں پر ناکامیوں کا سامنا ہے وہیں اس جنگ میں ہمیں بڑی کامیابیاں بھی ملی ہیں، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی داخلی ناکامیوں یا چیلنجز کا درست تجزیہ کریں اور ایسی حکمتِ عملی اختیار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں جو ہم سب کی ضرورت بنتی ہے۔

اگرچہ دہشت گردی اِس وقت دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن ہمارے ہاں دہشت گردی کے پیچھے جہاں سیاسی، لسانی اورعلاقائی مسائل ہیں، وہیں ایک بڑا چیلنج فرقوں کی بنیاد پر پھیلنے والی دہشت گردی بھی ہے۔ ہم نے معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر یکجا کرنے کے بجائے اسے نہ صرف مختلف مسائل پر تقسیم کیا بلکہ اس میں شدت پیدا کرکے نفرت، تعصب، غصے اور بدلے کی سیاست کو جنم دیا، جس کا نتیجہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صورت میں بطور ریاست بھگت رہے ہیں۔ بلوچستان میں ہمارے فوجی اور سیکورٹی سطح پر موجود اداروں اور عام شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف بڑی قربانیاں دی ہیں، وگرنہ کچھ برس قبل تک یہ علاقے عملی طور پر نوگوایریاز بن گئے تھے اورکوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ اس لیے ہم جہاں ریاستی اداروں یا حکومتوں پر تنقید کریں، وہیں ان کے اچھے اورمؤثر اقدامات کی بھی تعریف کریں کہ وہ اس جنگ میں نڈر سپاہی کے طور پر لڑرہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں دہشت گردی یا دہشت گردوں کو فروغ دینے میں ہمارے دشمن ممالک یا بیرونی طاقتوں کا بھی خاصا عمل دخل ہے۔ بھارت ہمیں داخلی محاذ پرکمزور اور غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا وہ برملا اعتراف بھی کرتا ہے اوراس کی داخلہ پالیسی میں بھی پاکستان دشمنی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔سانحہ مچھ یعنی بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھی ہم بھارت سے جوڑ رہے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں داخلی سطح پر جن مسائل کا سامنا ہے ان کا علاج کیسے کیا جائے؟ کیونکہ اپنی داخلی ناکامیوں کو بھی دیگر ممالک پر ڈال کر ہم خود کو نہیں بچاسکتے۔ ہمارے اپنے داخلی مسائل بھی دہشت گردی سے نمٹنے میں ہمیں مشکلات دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ خود ہماری داخلی کمزوریاں، سیاسی کمٹمنٹ میں کمی، سیاسی و معاشی عدم استحکام اور اداروں کی کمزور ی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات پر جس انداز سے ہماری سیاسی قیادت کو لیڈ کرنا چاہیے تھا اس کا فقدان نظر آتا ہے۔فوج نے انتظامی بنیادوں پر کچھ اہم کامیابیاں حاصل کیں، لیکن سیاسی محاذ پر انتہا پسندی کا خاتمہ، اداروں کی مضبوطی، فعالیت اور نگرانی یا جوابدہی کا مؤثر نظام جو سیاسی قوتوں کو آگے بڑھانا ہے، وہ کافی تضادات کا شکار ہے۔ خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان اور پیغامِ پاکستان کے وہ نکات جو براہِ راست سیاسی حکومتوں کی ترجیحات کا حصہ نظر آنے چاہیے تھے، ان میں کافی مسائل نظر آتے ہیں۔

اس وقت سی پیک اور ترقی کے دیگر منصوبوں کو خراب کرنا بھی ہمارے دشمنوں کی سیاست کا حصہ ہے۔ اسی طرح امن کی جو شکلیں موجود ہیں ان کو کمزور کرنا بھی کسی اور کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمیں داخلی، خارجی اور علاقائی تمام سطح پر مختلف نوعیت کی حکمت عملی درکار ہے جو ہمیں دہشت گردی کے اس چنگل سے مکمل طور پرباہر نکال سکے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب ہم اپنے داخلی محاذ پر اپنے گھر کو خود بھی درست کریں۔ وہ تمام معاملات جن میں ہم کمزور ہیں یا اپنی کمزوری دکھا رہے ہیں، ان پر ہمیں شفافیت پر مبنی پالیسی یا اس پر عمل درآمد کے نظام کی ضرورت ہے۔ پہلی کلید سیاسی اورمعاشی استحکام ہے۔ ان دونوں سطحوں کے استحکام کے بغیر ہم دہشت گردی یا اس میں موجود انتہا پسندی کی جنگ نہیں جیت سکیں گے۔ اس وقت جو ہمارا داخلی سیاسی بحران ہے جس میں ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی، ٹکرائو، نفرت اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش ہے وہی ہمیں نہ صرف غیر مستحکم کررہی ہے بلکہ یہ ہمارے دشمنوں کے لیے ایک بڑی سیاسی طاقت کی حیثیت رکھتی ہے۔

انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فکر کو قومی بیانیے کی شکل دینا ہوگی۔ سیاسی، انتظامی، قانونی سطح پر موجود پالیسیوں میں ایسی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی جو دہشت گردوں کو آزادانہ بنیادوں پر کام نہ کرنے دیں، یا ان کو اس انداز سے ختم کیا جائے کہ وہ دوبارہ نئی طاقت کے طور پر نہ ابھر سکیں۔اسی طرح قومی سطح پر دہشت گردی کے خلاف ہمارا جو قومی بیانیہ ہے اسے زیادہ سے زیادہ فعال کیا جائے اور لوگوں میں اس کی آگاہی یا شعوردیا جائے تاکہ ہم نہ صرف انتہا پسندی اور دہشت گردی سے باہر نکل سکیں بلکہ ایک پُرامن ملک کی جانب پیش رفت بھی کرسکیں۔

(This article was first published in Friday Special)