عوام کیلیے کچھ نہیں، ایک سرکاری اسامی پر 3 گنا بھرتیاں کررہے ہیں، چیف جسٹس

134

کراچی: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری ملازمت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا، ایک ایک سرکاری اسامی پر تین تین بھرتیاں کررہے ہیں۔

حیدر آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیرسربراہی جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کی۔

دوران سماعت درخواست گزار کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ میں کنٹریکٹ پر نہیں بلکہ حیدر آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ریگولر ملازم تھا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کنٹریکٹ ملازم تھے، اپنا اپوائنٹمنٹ لیٹر پڑھیں۔ کیا آپ کی اپوائنٹمنٹ میں اصول و ضوابط کی پاسداری کی گئی تھی؟ کیا معلوم آپ کے پاس کوئی ڈگری ہے یا نہیں ہے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں معلوم ہے کمیٹی میں کیا ہوتا ہے، فہرست آتی ہے کہ اِنہیں رکھنا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ بس ملازمین کی بھرتیاں کی جا رہی ہیں، عوام کی خدمت کہاں ہے؟، سرکاری ادارے صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔ ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ایک ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین کی بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالا جائے؟۔

درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے عدالت میں مؤقف اپنایا گیا کہ حکومت نے منصوبہ خود شروع کیا تھا، بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا گیا۔ صدر اور گورنر کے پیکیج کے تحت بھرتیاں ہوئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اُڑائیں گے، تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔ صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ کسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔ کب ہوا تھا یہ؟ کس نے کیا تھا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھرتیاں ہوئیں اور پیکیج ملا تھا۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے ، چیز قائم نہیں رہ سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سڑکیں، پانی، بجلی کیا مل رہا ہے عوام کو؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ آپ ان لوگوں کی بات کر رہے ہیں، صوبے کی بات نہیں کررہے۔ صوبے میں ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی۔