سیر و تفریح اور خریداری

266

آخری حصہ

اگلے دن صبح گیارہ بجے ہم نے زیارت کو الوداع کیا، گاڑی ہوٹل کے دروازے پر ہی آگئی، ماں جی کھڑکی والی نشست پر بیٹھیں، جب گاڑی باب زیارت سے باہر نکلی تو وہ گردن گھما گھما کر پیچھے چھوٹ جانے والے حسین مناظر کو بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھیں۔ دونوں جانب پھیلے چیری اور خوبانی کے باغات کو بھی بغور دیکھتیں۔ حزن و ملال ان کے چہرے پر نمایاں تھا، وہ خاموش گردو پیش کے نظاروں کو دیکھنے میں منہمک تھیں، آہستہ سے بولیں جب وہ گھومتا ہوا پہاڑی مقام آئے جہاں بچے پھل بیچ رہے تھے تو گاڑی رکوا کر کچھ زیادہ خریدنا۔ کچھ دیر میں وہ مقام آیا گاڑی رکوائی مگر آج پھل بیچنے والے موجود ہی نہ تھے۔ یوں ماں جی کی آرزو پوری نہ کی جاسکی۔ گردو نواح میں پھلوں سے لدے درخت تھے اور ان خوبصورت نظاروں کے درمیان سے بل کھاتی ہوئی سڑک پر ہماری گاڑی نیچے کی جانب اُتر رہی تھی۔ دوپہر دو بجے کے قریب کوئٹہ پہنچے اور ہوٹل کے کمروں میں سامان رکھ کر کھانا کھانے کے لیے نیچے آگئے۔

کھانے سے فارغ ہو کر بازار کی طرف چل دیے، بڑے بڑے شاپنگ پلازہ اور ان کی کئی کئی منازل آج نہ جانے ماں جی میں کہاں سے ہمت و طاقت آگئی تھی کہ خوب چل رہی تھیں، چڑھنے اُترنے میں بھی کسی قسم کی شکایت نہ کرتی تھیں، کسی کے لیے سوٹ تو کسی کے لیے جیولری و پرس اور اپنے چہیتے چھوٹے بیٹے کے لیے کمبل خریدا۔ شام ہوتی جاتی تھی مگر ان کی خریداری مکمل ہی نہ ہوتی تھی۔ میں نے کہا کل دوبارہ آجائیں گے وہ بادل ناخواستہ واپسی پر آمادہ ہوئیں، اگلی صبح ناشتہ سے فارغ ہو کر ماں جی نے ایک بار پھر بازار کا رُخ کیا، میں نے بتایا کہ دو بجے تک واپس آجائیں کیونکہ ہنہ اور اوڑک جانا ہے جس پر وہ کچھ جذبہ ہوئیں لگتا تھا کہ ان کی دلچسپی سیر و تفریح کے بجائے خریداری پر مرکوز تھی، وہ سب ہی کے لیے تحائف خرید لینا چاہتی تھیں۔ میری اہلیہ بمشکل انہیں دو بجے تک ہوٹل لائیں، ان کا موڈ خراب تھا اور کچھ ناراض سی لگ رہی تھیں۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر پہلے اوڑک کے آبشار پر گئے جہاں بچے ایک بار پھر ٹھنڈے پانی میں نہانے لگے۔ ماں جی بولیں بلاوجہ یہاں آئے اس سے زیادہ خوبصورت نظارہ تو زیارت میں دیکھ چکے تھے۔ زندراہ آبشار اس سے کئی گنا بڑا اور پانی کا بہائو اس کے مقابلے بہت زیادہ تھا۔ یہاں سے ہم ہنہ جھیل دیکھنے گئے اور شام کے وقت ہوٹل پہنچے۔

اگلے روز صبح آٹھ بجے بذریعہ بس کراچی کی طرف روانگی تھی۔ رات دیر گئے تک سامان پیک کیا اور صبح سویرے ناشتے سے فارغ ہو کر بس اڈے کی طرف روانہ ہوئے۔ سامان بس کی چھت پر رکھوایا اور سوا آٹھ بجے بس کراچی کے لیے روانہ ہوئی۔ ماں جی اداس و خاموش بیٹھی تھیں، میں نے کہا کتنا زبردست تفریحی پروگرام تھا مگر آپ تو خوش نظر نہیں آئیں جس پر وہ بڑی ناراضی سے گویا ہوئیں۔ جہاں دو دن ٹھیرنا تھا وہاں تو تم چار دن گھومتے رہے اور جہاں چار دن ٹھیرنا چاہیے تھا وہاں محض گھنٹوں میں خریداری کا موقع دیا۔ میں خاموش ان کی شکایت سنتا رہا۔ بس سی آر سی ڈی ہائی وے پر دوڑتی ہوئی بیلہ کے مقام پر پہنچی۔ کوسٹ گارڈ کے عملے نے چیکنگ کی جس کے بعد ہماری منزل کراچی تھی ہم گھر آگئے، ماں جی لائے تحائف تقسیم کررہی تھیں اور ساتھ ہی یہ شکوہ بھی تھا کہ وقت کم تھا اور وہ دکاندار بلاوجہ ضد پر آگیا ورنہ ایک کمبل اور خرید لاتی اور تمہارا سوئٹر تو لاتے لاتے رہ گئی اور…

ماں جی دو سال اور زندہ رہیں۔ 27 ستمبر 2007ء کو وہ ہم سے جدا ہوئیں۔ تفریحی پروگرام تو اس کے بعد بھی بنے اور میں نے انہیں جانے کو بھی کہا مگر ان کی گرتی ہوئی صحت انہیں مزید کسی تفریحی سفر کی اجازت نہ دیتی تھی۔ وہ یہی کہتی بھیا! مجھے پتا نہ تھا کہ سیرو تفریحی کیا ہوتی ہے ورنہ اس سے پہلے بھی ضرور جاتی۔ اور اگر اب بھی صحت اچھی ہو جائے تو اک بار پھر تمہارے ساتھ ضرور جائوں گی۔

آہ! مگر ان کی یہ خواہش ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔ میں ان کی وفات کے بعد کئی بار زیارت جا چکا ہوں۔ گربی کچھ، چکور تنگی، زندراہ آبشار زیرو پوائنٹ، جونیفر پارک اور قائداعظم ریذیڈنسی ہر جگہ جاتا ہوں اور تصور جگا کر انہیں اپنے ہمراہ محسوس کرتا ہوں مگر جونہی تصور حقیقت میں بدلتا ہے تو ماں سے جدائی کا خیال دل کو غمگین اور ملول کردیتا ہے۔