اقتدار کا کھیل اور حسد و ہوس

407

مملکت خداداد مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے، بانی پاکستان محمد علی جناح کی کسمپرسی میں ایمبولینس کی خرابی سے موت ہو یا لیاقت علی خان کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہو یا ضیا الحق کی رفقا سمیت طیارے کے حادثے میں شہادت، محترمہ بینظیر بھٹو کا سانحہ ہو یا آصف نواز جنجوعہ چیف آف آرمی اسٹاف کی پرسرار موت کا معاملہ اور سب اقتداری کھیل میں اگر دیکھا جائے تو دو ہی عوامل سامنے نظر آتے ہیں ’’حسد اور ہوس‘‘۔ حسد کی خرابی کا یہ عالم ہے کہ قرآن پاک میں جن 5 چیزوں سے پناہ مانگنے کا سورہ الفلق میں بتایا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ دعا گو رہیں اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے یہ ایسی قبیح بیماری ہے جس کا ذکر قرآن میں ضرور سمجھا گیا اور حدیث پاک میں بتایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو (مفہوم) حکمرانوں پر بیتنے والے ہر سانحہ و حادثہ کا جائزہ لیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ حسد قیمتی دماغوں اور محب وطن حکمرانوں کی بھینٹ لے گیا اور ملک بحران در بحران کا شکار ہوتا رہا۔ حاسد کا حسد یہ ہوتا ہے کہ ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔ اس مرض میں مبتلا حکمرانی کے طالب گار بھی ہوتے ہیں تو خوامخواہ کے حاسد بھی، وہ افراد بھی جن کو حاصل کچھ نہیں ہوتا وہ اپنی آگ میں خود جلتے ہیں۔

ملک میں اقتدار کی اُلٹ پلٹ ہو یا مقتدرہ کی جائز ناجائز خواہشوں کی تکمیل کی پارٹی لیڈروں کی پختہ یقین دہانیاں اس کے پیچھے حسد کا مادہ سرفہرست ہوتا ہے، ہوس اقتدار بدترین ہے وہ یہاں تک کہلوا دیتی ہے کہ وعدہ قرآن حدیث نہیں ہوتے مگر قرآنی تعلیمات سے ناآشنا یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن تو بتاتا ہے کہ روز محشر وعدے کی پوچھ گچھ ہوگی، ہوس اقتدار کی قدر گھنائونا کھیل ہے، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہؐ نے سعد بن عبادہؓ کی عیادت کرتے ہوئے جب اُن سے رئیس المنافقین ابن ابی کی طرف سے اپنی ایک گستاخی و بے ادبی کا تذکرہ فرمایا تو سعد بن عبادہ نے اس رئیس المنافقین ابن ابی کی طرف سے آپ کی گستاخی اور بے ادبی کے سبب سے یہ کہہ کر پردہ اٹھایا کہ اللہ کے نبیؐ آپ کی یثرب آمد سے قبل اہل یثرب (مدینہ) والے ابن ابی کے سر پر تاج سرداری رکھنے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن آپ کی تشریف آوری سے وہ متوقع سرداری (مدینہ) سے محروم ہوگیا اس لیے وہ بے ادبی پر اتر آیا ہے۔

ملک خداداد پاکستان میں سیاسی لیڈروں کی الزام تراشیاں اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے اتحاد میں حسد کا معاملہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ’’حسد‘‘ کی ماں ہوس ہے، ہوس اقتدار کا ہو یا مال متاع کا، زمین جائداد کا ہو یا گدی نشینی کا، کہ مرض حسد میں شدت پیدا کرکے جاہلیت، قتل و غارت، ٹوٹ پھوٹ، لوٹ کھسوٹ، چھینا جھپٹی تک لے جاتی ہے۔ سیاست کے میدان میں، گدی نشینی کی تکرار میں ان کے پاس احساس محرومی کا ہتھیار ہوتا ہے جو حسد ہوس کے دوا کے طور پر یہ استعمال میں لاتے ہیں۔ ہوس کی بدولت معاشرہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے، ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا بنی نوع انسان کو، محبت کی زبان ہوجا اخوت کا نشان ہوجا کا سبق وہ بھول جاتا ہے۔ پاکستان کی ہر قسم کی تباہ کاری میں حسد اور ہوس کا بنیادی کردار ہے، یہ تباہ کن امراض ہر جگہ سرایت کرگئے، یہ میرٹ اور انصاف کو نگل گئے، انہوں نے نفرتوں اور بغض کو اگلا ہے ان کی سڑانڈ ایوان اقتدار سے عبائوں و قبائوں تک دور سے محسوس ہوتی ہے ان امراض نے دیانت و صداقت کو دریا برد کردیا ہے۔ حقوق تو یاد ہیں فرائض بھلا دیے ہیں، کثرت کی طلب نے ہلاکت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انسان اپنی ذات میں سمٹ کر رہ گیا، دنگا فساد معمول بن گئے، دلائل دم توڑ گئے ہیں تو جواز کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ حسد اور ہوس کے طوفان نے ملک کی جڑیں ہلا دی ہیں تو اس طوفان نے ہر طبقہ کو متاثر کیا ہے، کوئی جڑ سے اکھڑ گیا ہے تو کوئی شاخوں سے محروم اور کوئی پت جھڑ تک محدود ہے، متاثر ہر اک ہوگیا ہے، زبانیں زہر اگل رہی ہیں تو دل نفرتوں اور کدورتوں کے ان امراض سے لبریز کردیے ہیں انسان کی جان جو کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر ہے پامال ہو کر رہ گئی ہے۔ ربّ کی مال کی تقسیم پر ہوس کا غلبہ ہے، حسد اور ہوس نے حواس باختہ کردیا ہے۔ خوف خدا صبر و شکر جو ان امراض کا علاج ہے وہ عنقا ہے اک دوڑ ہے جو تھکا رہی ہے مگر دوڑنے والے کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ ربّ ہدایت دے۔