پاکستان میں ’’درآمد وبرآمد‘‘ کا عجب کھیل

385

پاکستان دنیا کے ان کمزور ملکوں میں شامل ہے جہاں معیشت کو سدھارنے کے نام پر مستعار الخدمت ٹیکنو کریٹس کو درآمد کرنا اب معمول بن کر رہ گیا ہے۔ ان میں اکثر کا پاکستان کی دھرتی سے تعلق فقط جائے پیدائش، اوائل عمری کی یادوں یا آباء کی شکستہ قبروں تک محدود ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی تمام وفائیں اور تمام رنگ ان ملکوں کی مانگ میں سیندور بھرتے گزر چکے ہوتے ہیں جو ان کی نئی جائے رہائش ہوتے ہیں۔ نگران وزیر اعظم معین قریشی تو جب اس منصب پر بٹھائے گئے تو اس کے بعد انہیں کاغذی ضرورت کے لیے اپنا پاکستانی شناختی کارڈ بھی بنوانا پڑا اور گائوں کے بڑے بزرگوں کی مدد سے اپنے والدین کی قبروں کے کتبے بھی تلاش کرکے وہاں حاضری دینا پڑی۔ شوکت عزیز تو دھوم دھام سے وزیر خزانہ بننے آئے تھے مگر چودھری شجاعت اور ظفر اللہ جمالی جیسے مسلم لیگیوں کو کُہنی مار کر وزیر اعظم بنے اور جونہی ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی اپنا بریف کیس اُٹھائے خاموشی سے اپنے نئے وطن سدھار گئے اور دوبارہ کبھی لوٹ کر نہ آسکے۔

یہ تو درآمدات کی کہانی ہے پاکستان میں برآمدات کی کہانی بھی اس سے چنداں کم دل خراش نہیں۔ فوج کے کتنے ہی سربراہ، خفیہ اداروں کے کتنے ہی ذمے دار، سفارت اور سول سروس کی دنیا کے کتنے ہی بڑے نام ہیں جن کا نام اور نمو اسی مٹی کی دین ہے ملازمتوں کی مدت پوری کرکے ایسے برآمد ہوئے کہ دوبارہ اس ملک کی فضائوں اور ہوائوں میں سانس لیتے نہ دیکھے جا سکے۔ جنرل راحیل شریف چھتیس ملکوں کی فوج کی قیادت کے لیے بیرون ملک گئے تھے مگر غزہ پر کیا کیا قیامتیں گزر گئیں نہ وہ چھتیس ملکی فوج نظر آئی نہ اس کے کمانڈر ان چیف بیت القدس کی گلیوں میں کسی دستے کی قیادت کرتے پائے گئے۔ درآمد وبرآمد کے اس چکر میں ایک نیا اضافہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ہیں۔ جو بیرونی دنیا میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھانے میں مصروف تھے۔ موجودہ سیٹ اپ قائم ہوتے ہی وہ اپنے آبائی وطن آئے اور وزیر خزانہ کا منصب سنبھال کر بیٹھ گئے۔ اب وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہے ہیں اور امریکا سے راہ رسم پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی مسائل پر اپنے ہی چنیدہ اور پسندیدہ نمائندوں سے مذاکرات کرتا ہے۔ آئی ایم ایف سے آئی ایم ایف کے انہی مذاکرات کی وجہ سے پاکستانی عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ مذاکرات کے ہر دور کی کامیابی مہنگائی کی آسمانی بجلی بن کر عام پاکستان کے سرپر کڑکتی اور پھر گرجاتی ہے۔ اس کہانی کو پاکستان کی قومی لغت کی خوبصورت اصطلاحات ’’نازک موڑ‘‘، ’’قومی مفاد‘‘، ’’غدار ‘‘، ’’محب وطن‘‘ کی طرح ’’سخت فیصلہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے کی سختی کا حکمران اشرافیہ سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا ہاں ان کے خدمت گار کسی حد تک ان فیصلوں کی سختی سے متاثر ہوتے ہوں گے۔ یہ ساری سختی اور سیاہ بختی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے حصے میں آتی ہے اور چند ہزار کو چھوڑ کر یہ بائیس کروڑ حرماں نصیبوں کی جماعت ہے جو اپنے مقدر کا فیصلہ بیلٹ باکس کے ذریعے کرنے کی بھی مجاز نہیں۔ یہ بدقسمت عام آدمی جماعت ووٹ کسی کو ڈالتی ہے مگر جیت کسی اور کا مقدر ٹھیرتی ہے۔

درآمد وبرآمد کی اس کہانی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب امریکا کے دورے میں جہاں چین اور آئی ایم ایف سمیت بہت سے ملکوں اور اداروں کے نمائندوں سے ملے وہیں ان کی سب سے اہم ملاقات امریکا کے مشہور زمانہ کردار اور انڈر سیکرٹری خارجہ ڈونلڈ لو سے ہوئی۔ ڈونلڈ لو کا نام پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ میں ہنری کسنجر جیسے لوگوں کے نام کے ساتھ آتا رہے گا جس نے پاکستان کے وزیر اعظم کو ایٹمی پروگرام پر سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی یا کولن پائو کے ساتھ آئے گا جس نے پاکستان کے فوجی حکمران کو نیم شب کو ٹیلی فون کر کے ایک سوال پوچھا تھا تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے ساتھ؟ اثبات میں ملنے والے جواب کے بعد پاکستان میں ایک خونیں کھیل کا آغاز ہوگیا تھا۔ ڈونلڈ لو نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کیے جانے کی صورت میںپاکستان کے سب گناہ معاف کرنے کی بات کی تھی۔ توقع یہی تھی پاکستان اپنے سب فیصلوں کے دربار کی کنجیاں حوالے کرنے کے بعد معافی کا مستحق قرار پائے گا۔ تحریک عدم اعتماد ہی کامیاب نہیں ہوئی بلکہ روس کی مذمت کرکے ہم نے وہ سارے قرض بھی چکا دیے تھے جو یورپی یونین کے خط کے بعد ہم پر واجب تھے۔ محمد اورنگزیب کے ساتھ ڈونلڈ لو کی مسکراہٹ بتارہی ہے کہ اب سند باد جہاز کی کہانیوں کے انجام کی طرح ’’سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘ سب اچھا ہوگا مگر یہاں تو حالات مرز ا غالب کے اس شعر کی تصویر بنے ہیں۔

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

غالب اگلے ہی شعر میں محمد اورنگزیب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

غالب وظیفہ خور ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

محمد اورنگزیب آئی ایم ایف کے قرض اور اس پر لگنے والا سود چکانے کے لیے آئی ایم ایف ہی سے قرض کی ایک اور تین سالہ قسط میں ڈونلڈ لو کی مدد مانگ رہے تھے اور آئی ایم ایف اس تین سالہ پروگرام پر نیم رضا مندی ظاہر کر چکا ہے۔ قرض کی اس تین سالہ زنجیر میں ان کے پیٹ کے ساتھ ساتھ اور کیا کچھ بندھ کررہ جائے گا؟ شاید پاکستانیوں کو ابھی اس کا اندازہ نہیں۔ محمد اورنگزیب ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مگن تھے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کا نام چھے جنگ زدہ بدقسمت مسلمان ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ یہ نام ہیںعراق، سوڈان، شام، صومالیہ اور یمن۔ کہاں وہ دن اس ملک کا نام ترکی، ملائیشیا، ایران کے ساتھ لکھا جانے لگا تھا اور کہاں یہ دن کہ

نام آیا بھی تو کن ناموں میں
جا ملے عشق کے ناکاموں میں

عین ممکن ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی قسط کا راستہ ہموار کرنے کے لیے اِسے آفت زدہ ملک بنا کر پیش کرنے کی سعی کی ہو اور اس کا مقصد معاملے کی سنگینی کو بڑھا کر پیش کرنا ہو مگر اس سے پاکستان کی ساری نیک نامی غارت ہوئی۔ ایک جنگ زدہ اور خانہ جنگی کا شکار ملک قرار پانے کے بعد کوئی احمق سرمایہ کار ہی پاکستان کا رُخ کرے گا اور زندگی سے بیزار سیاح ہی پاکستان کے لیے رخت سفر باندھے گا۔ حد تو یہ سبز پاسپورٹ دنیا میں ایک بار پھر شکوک اور خوف کا نشان بن جائے گا۔ سرمایہ کاری اور سیاحت بھی گئی اور نیک نامی کا جنازہ بھی نکل گیا مطلب یہ ہوا کہ آپ پوری طرح آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر آگئے اور اس عالم میں بے خودی میں آپ سے سفید کاغذ پر انگوٹھا لگوانا کتنا ہی آسان ہے۔ سب گناہ معاف نہ ہونے کا دوسرا ثبوت بھی ابھی ابھی سامنے آیا جب امریکا نے پاکستان کے بلیسٹک میزائلوں سے تعاون کے الزام میں تین چینی اور ایک بیلاروس کی کمپنی کو بلیک لسٹ کردیا۔ بظاہر یہ دو الگ کہانیاں ہیں مگر یہ ایک ہی سلسلہ وار کہانی کی دو اقساط ہیں اور کہانی وہی ہے کہ ابھی آپ کو معافی ملنے کے لیے کئی کڑے امتحانوں سے گزرنا ہوگا۔