شوروشر

371

پاکستان ایسا وسیع وعریض حمام ہے جس میں لوگوں کے درمیان فرق بس اتنا ہے کہ کچھ لوگ سرسے پائوں تک ننگے ہیں اور کچھ لوگوں نے تولیہ لپیٹا ہوا ہے، وہ بھی چھوٹا سا اور ایک گرہ پر اٹکا ہوا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ایک حصے کے لکھے گئے خط سے ججوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پچھلے دنوں جو ’’برق پارے‘‘ سامنے آئے ان کا خلاصہ اور ما حصل یہی ہے۔ ہمارے یہاں سچ بولنے کے لیے نکلیں تو ضروری ہے کہ کبھی اجلے کپڑے پہن کر نہ نکلیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ کہیںکسی چوک پر کوئی آپ کے گندے کپڑے تو نہیں دھورہا ہے۔ جیسے ہم ہیں، جیسا ہمارا معاشرہ ہے ویسے ہی ہمارے جج صاحبان ہیں۔ جب سب ہی اسٹیبلشمنٹ کو شوٹ کرنے اور ہیرو بننے نکلے ہیں تو ہمارے کچھ جج صاحبان بھی میدان میں آگئے ورنہ پچھتر برس سے پتا ہی نہیں لگ رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر پیچھے کزن بیٹھی ہے کہ بیگم۔ بہر حال جج صاحبان کا شوٹ کیمرے والا شوٹ ثابت ہوا اور معاملہ چند دن تک چند سرخیوں اور ٹِکر سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جج صاحبان کو بھی یہ اعزازحاصل ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے پنگا لینے والوں میں وہ بھی شامل ہوگئے۔ اس سے اگر کسی کو کسی انقلاب کی امید تھی تو وہ بھی اتنا ہی احمق ہے جتنے دیگر احمق۔ سب ہی بغیر کسی حکمت اور اسٹر ٹیجی کے بڑے جوش وخروش سے ٹِکر اور ٹویٹ لکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ عدالتوں میں فیصلے ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ثبوت کون لائے گا؟ کیا خود اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیاں؟؟۔ یہاں کون ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے۔ پاکستان کو پاک وصاف کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، ایوان عدل کو ججوں اور وکیلوں سے سیاست کو سیاست دانوں سے اور اسٹیبلشمنٹ کو جرنیلوں سے پاک کردیا جائے۔ اس طریقے میں لیکن ایک قباحت ہے پورے پاکستان میں اگر ایسا کیا گیا تو آبادی زیرو پر آجائے گی۔

پاک سرزمین کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کے درمیان معاملات لو اور دو کی بنیاد پر جس خوش اسلوبی سے چلتے رہے اس پر دونوں انعام کے حق دار ہیں۔ یہ الگ بات کہ انعام کے اس لین دین میں پاکستان اور اس کے عوام کی کمر دوہری ہوگئی۔ ہمارے جج صاحبان اپنی طرح کے ہوں یا اور طرح کے، خواہشات کے معاملات میں ایک ہی طرح کے ہیں یعنی سب کی طرح کے۔ لگتا ہے یہ کچھ جج صاحبان کی ناآسودہ خواہشیں، ان سنے مطالبات اور لڑائیاں تھیں جنہوں نے خط نویسی کا روپ اختیار کیا ورنہ معاملہ کچھ ایس ایم ایس اور واٹس اپ کالز سے بھی حل ہوسکتا تھا۔ نا آسودہ خواہشات اور مطالبات ضروری نہیں کہ وہ بڑے معاملات ہوں وہ بہت چھوٹے بھی ہوسکتے ہیں۔ میکینک شاپس میں کام کرنے والے چھوٹے سے بھی زیادہ چھوٹے۔ جب جسٹس سجاد علی شاہ کو ان کے عہدے سے ہٹا یا جارہا تھا تو ایک محترم جج ان سے محض اس لیے ناراض تھے کہ انہوں نے جج صاحب کے گھر روزانہ آنے والے آٹھ اخبارات کی تعداد کم کرکے چھے کردی تھی۔ جج صاحبان خط لکھنے کے بجائے اگر استعفا دے دیتے کہ ہمیں آزادی سے کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے، ہمارے فیصلوں اور کاموں میں مداخلت کی جارہی ہے تب تو بات میں وزن ہوتا۔ خط لکھنا تو محض خبروں میں آنا اور ذاتی تشہیر سے آگے کا معاملہ نہیں لگتا۔ پاکستان میں جب جب اور جس جس نے بڑی مشکل سے جس جس کی اصلاح کی کوشش کی نتیجہ حسب سابق ہی نکلا بلکہ پہلے سے بدتر۔

سنا ہے عمران خان کو جیل میں جو ٹی وی دیا گیا ہے اس میں صرف پی ٹی وی کی نشریات دیکھی جاسکتی ہیں۔ خیال تھا وہ اس پر شدید احتجاج کریں گے لیکن احتجاج کرنا تو درکنار انہوں نے اس کا کبھی ذکر بھی نہیں کیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے کے علاوہ انہیں کسی بات کی فرصت ہے نہ دماغ۔ پچھلے دنوں وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اتنا گرجے اور اس شدت سے گرجے کہ ٹماٹر خرید کر برساتے تو سبزی فروشوں کے پاس سارے ٹما ٹر ختم ہوجاتے۔ ان کے بہی خواہ یعنی بدخواہ کی ضد کہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کی قیادت کے خلاف ہیں جیسے جنرل باجوہ، جنرل عاصم منیر وغیرہ وغیرہ۔ مخالفین کہتے ہیں جنرلوں پر تنقید کرنے سے زیادہ تو انہیں اپنے اوپر لعن طعن کرنی چاہیے کہ وہ جرنیلوں کی مدد سے کیوں برسراقتدار آئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نہ کسی کو اقتدار میں آنا چاہیے اور نہ جانا چاہیے۔ عمران خان پر ایسی اوریجنل تنقید کرنے والے نہ جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جوتے کی ایڑی پہلی مرتبہ اس حسینہ نے ایجاد کی تھی جس کے محبوب نے اس کی پیشانی چومی تھی۔

ججوں کی اسٹیبلشمنٹ سے ناراضی تو مجھ سے پہلی سی محبت کی طلب سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ چند دنوں میں ہی معاملہ ٹھس ہو گیا لیکن عمران خان کی ناراضی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنا پہلے فیشن تھا عمران خان نے اسے ضرورت بنا دیا ہے۔ شہرت کی ضرورت۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی اور مسلسل محاذ آرائی ہی ان کی سیاست کی طوالت اور بقا کے لیے ضروری ہے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی تیسری محبت ہیں، پہلی بھٹو اور دوسری نوازشریف۔ جنرل حمید گل سے لے کر جنرل باجوہ تک جنرلوں کی ایک طویل فہرست ہے جو عمران خان کی دلدادہ تھی۔ یہ اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جس نے عمران خان کے گرد اتنی بھیڑ اکٹھا کی، جس نے عمران خان کو ایک ایسی گلوکارہ کا بہروپ دیا جس کا میوزک اور میوزیکل گروپ پسند آئے یا نہ آئے لیکن گلوکارہ ضرور پسند آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں ان کے چاہنے والے آج بھی موجود ہیں۔ جو آج بھی چاہتے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس پر مٹی پائو اور معاملہ وہیں سے پھر شروع کیا جائے جہاں سے ختم ہوا ہے۔ اس کے اشارے بھی مل رہے تھے۔ روپوش رہنما منظر عام پر آرہے تھے، ضمانتیں بھی ہورہی تھیں، کورکمانڈر ہائوس میں افطار بھی چل رہی تھی اس منظر نامے میں بجائے اس کے کہ برف پگھلے حیرت انگیز طور پر عمران خان نے کئی دن پہلے ایک بیان سے الائو پھر بھڑکا دیا۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کا سپورٹر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں اتنا آگے چلا گیا ہے کہ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ٹاک ٹاک کی پالیسی نہ پسند کرے گا اور نہ برداشت۔ اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پھر فائٹ فائٹ پر چلے گئے۔ انہیں امید ہے ایک دن وہ فوج میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ اس سے استفادہ کرنے والوں میں سے ہوں گے۔ یہ ایک ایسا جال ہے جس میں عمران خان خود پھنستے چلے جا ئیں گے کیونکہ پاکستانی فوج کبھی اپنی قیادت کے خلاف نہیں جاتی۔

ایک طرف عمران خان، دوسری طرف جج صاحبان۔ پچھلے دنوں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف میڈیا میں ایک شور برپا رہا۔ ہمارے یہاں نہ جانے کیوں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شور مچانے میں ہی نجات ہے۔ شور مچانا ہی وصف ہے خواہ اس کے پیچھے کوئی حکمت عملی اور منصوبہ ہو یا نہ ہو۔ ریاست اور اس کے ادارے بھی اب شور سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ شور شرابے کو مخالفین کی چاردن کی چاندنی سمجھتے ہیں۔ محض شور کرنا کافی نہیں ہوتا جب تک اس کے پیچھے کوئی منصوبہ نہ ہو۔ خیر خواہی کا منصوبہ۔ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لیے کیسا ہنگامہ کیسا شور برپا ہوا لیکن ان کے بحال ہونے کے بعد نہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ سکیں اور نہ عدلیہ میں انصاف کی فراوانی ہوسکی۔ اس حمام میں جہاں سب ننگے ہیں تو خط لکھنے سے کچھ فائدہ ہے اور نہ شور مچانے سے۔۔۔

میر سپاہ ناسزا لشکر یاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف