کچھ تو احترام کرو

289

ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عزتِ مآب چیف جسٹس فائز عیسٰی نے وکیل سے کہا یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ ہمارے رویوں سے اخلاقی روایات ختم ہوتی جارہی ہیں مگر عدالت کا تو کچھ احترام کریں۔ جواباً وکیل صاحب نے کہا کہ عدالت پر بھی لازم ہے کہ بطورِ وکیل میرا احترام کرے۔ چیف جسٹس اور وکیل کے مکالمے کے پس ِ منظر میں سوچا جائے تو یہ تکلیف دہ اور افسوس ناک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وکیل جج صاحبان کا احترام نہیں کرتے اور جج صاحبان وکلا کو محترم نہیں سمجھتے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی یوں بھی ادھورا سچ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ عدالتی نظام اور اْس کی کارکردگی پر غور کیا جائے تو یہ المناک حقیقت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ جج صاحبان وکلا کا احترام کرتے ہیں مگر وکلا انصاف کی راہ میں قانونی موشگافیوں کا پہاڑ کھڑا کر کے جج صاحبان کی ساکھ اور عزت و احترام کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کبھی کبھی یہ گمان حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے کہ جج صاحبان وکیل کی مرضی کے بغیر کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں سنا سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کی فراہمی کو وکلا کی مرضی کے تابع کیوں بنا دیا گیا ہے؟

بہاولپور ہائی کورٹ میں بہت سے مقدمات کئی عشروں سے التواء کی ٹوکری میں پڑے سسک رہے ہیں کہ وکلا سماعت ہی نہیں ہونے دیتے۔ پیروی کے بجائے مختلف حیلوں بہانوں سے پیشی در پیشی کے عمل پر عمل پیرا رہتے ہیں ہم ایک ایسے مقدمے کے چشم دید گواہ ہیں جو 11 برسوں سے زیر ِ التواء ہے کیونکہ اس طویل عرصے سے مخالف وکیل سماعت کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کبھی وہ بیمار ہوجاتا ہے کبھی اس کی اہلیہ کی طبع ناساز ہوجاتی ہے کبھی اْس کی بیٹی بیمار ہوجاتی ہے کبھی وہ حضرت آؤٹ آف اسٹیشن ہوتے ہیں کبھی وہ دوسری عدالت میں مصروف ہونے کے باعث فائل انتظار میں رکھ دی جاتی ہے جو بالآخر لیفٹ اوور کی بھیٹ چڑھا دی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کبھی کبھی اسکول کے کسی نالائق بچے کی طرح چھٹی کی درخواست دے دیتے ہیں۔

چار پانچ ماہ قبل بابا جی کی پیشی تھی مگر مخالف وکیل نے پیروی کرنے کے بجائے جسٹس سے کہا اْس کی گردن میں جھٹکا آگیا ہے اس لیے وہ فائل کا مطالعہ نہ کرسکا ہے اس لیے آٹھ سے دس دن کی پیشی دی جائے۔ جسٹس صاحب نے باباجی کے وکیل سے پوچھا اْس نے کہا یہ حضرت دس سال میں تو فائل نہ دیکھ سکے آٹھ دس دن میں کیا کریں گے۔ جسٹس صاحب نے ریڈر سے کہا کہ یہ بتا ؤ کہ یہ دس برسوں میں کتنی بار آئے ہیں ریڈر نے فائل پر ایک نظر ڈالی اور کہا کہ ایک پیشی پر بھی سماعت نہیں کی مختلف حیلوں اور بہانوں سے پیشی لیتے رہتے ہیں کبھی فائل انتظار میں رکھوا کر مقدمہ لیفٹ اوور کروا دیتے ہیں کبھی چھٹی کی درخواست سے دیتے ہیں کبھی بیماری کا بہانہ بنا کر حاضر ہی نہیں ہوتے۔ جسٹس صاحب نے دس ہزار کا جرمانہ عائد کر دیا اور دو ماہ کی پیشی دے دی۔ مخالف وکیل صاحب نے کلائنٹ سے دس ہزار روپے لے لیے مگر حکم کے مطابق جمع نہیں کروائے۔ بس مختلف حیلوں بہانوں سے پیشیاں لے رہے ہیں۔

اس تاخیر کی وجہ عدالتی کارکردگی ہے کیونکہ بہاولپور ہائی کورٹ میں ہر ماہ جسٹس صاحبان بدلتے رہتے ہیں اس لیے اْن کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ مقدمہ کتنے عرصے سے زیر ِ سماعت ہے اور وکلا قانونی موشگافیوں کی آڑ میں گل فشانیاں کرتے رہتے ہیں۔ جسٹس صاحبان کو یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ اْن کے پیش رو جسٹس صاحبان کیا ریمارکس دیتے رہے ہیں ان تناظر میں لازم ہے کہ کسی بھی مقدمے کی سماعت سے قبل یہ فیصلہ کیا جائے کہ زیر ِ نظر مقدمہ قابل ِ سماعت بھی ہے کہ نہیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ نہیں پڑے گا اور نہ ہی انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوگی۔ اور سائلین بھی ذہنی اذیت میں مبتلا نہیں ہوں گے اور نہ مالی مشکلات سے دو چار ہوں گے۔

بابا جی نے ایڈیشنل رجسٹرار بہاولپور ہائی کورٹ سے ملاقات کی اور استفسار کیا کہ تاخیری حربوں سے مقدمات کو زیر ِ التواء رکھنے والے وکلا اور جسٹس صاحبان سے جواب طلبی کے لیے کس سے رابطہ کیا جائے؟ بابا جی نے یہ بھی بتایا کہ اْن کا مقدمہ گیارہویں سال میں داخل ہوچکا ہے مگر تاحال ایک بھی پیشی نہیں ہوئی حالانکہ بہاولپور ہائی کورٹ کا یہ عمل اْن کے بنیاد ی حقوق کی پامالی ہے جو قابل ِ تعزیر ہے۔ کیا وہ اس معاملے میں عدلیہ پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں؟ ایڈیشنل رجسٹرار نے کہا کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے صرف پیشی دلوا سکتے ہیں کہ یہی عمل اْن کے دائرہ اختیار میں ہے۔