میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

343

سال ہا سال گزر جانے کے بعد کراچی کے باسیوں کی تکلیف کا احساس کسی کو نہ ہوا تو حساس دل رکھنے والے افراد سامنے آنے شروع ہوئے ان میں حافظ نعیم الرحمن بھی شامل تھے انہوں نے کراچی والوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے تمام ارباب اختیار کو لتاڑنا شروع کر دیا۔ ایک بار اہل کراچی کو یہ امید بندھی کہ شاید ان کی تکالیف کا مداوا ہونا شروع ہوا۔ ماضی میں کراچی والوں کی تکالیف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں، کبھی اپنوں نے ان میں اضافہ کیا، کبھی باہر کے لوگوں نے، سب نے اس شہر کو اس ہی طرح لوٹا جیسے پرانے زمانے میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر باہر سے آنے والوں نے لوٹا۔ وہ لوگ تو لوٹ مار کر کے واپس چلے جاتے تھے مگر یہاں غیروں کے ساتھ ساتھ تو اپنوں نے بھی لوٹا۔ کراچی والے پاکستان کے سب سے زیادہ شعور رکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس کا اظہار بیرونی ملکوں کے ابلاغ میں بھی ہوتا تھا۔ برطانوی ادارہ بی بی سی بھی شامل تھا۔ جس میں ان کا ایک مشہور پروگرام سیر بین لوگوں میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ اس ہی زمانے میں بی بی سی نے پاکستان کے سیاسی اداروں اور انتخابی حلقوں پر تجزیے پیش کیے اس میں انہوں نے مختلف سروے کے بعد انکشاف کیا کہ پاکستان کا سب سے زیادہ سیاسی طور پر باشعور شہر کراچی ہے اس میں سے ناظم آباد، لیاقت آباد، گلبہار پورے ملک میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ انتخابی حلقوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ جب کہ اس زمانے میں کراچی سے منتخب ہونے والے معروف سیاستدانوں میں پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، شاہ فرید الحق، منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے۔ پاکستان کی اس منتخب مگر ادھوری اسمبلی میں منتخب ہونے والے ارکان نے پاکستان کا پہلا دستور بنانے میں کامیابی حاصل کی مگر جو اعزاز کراچی کے ان دو حلقوں کو ملک کا سب سے تعلیم یافتہ علاقہ ہونے کا حاصل ہوا اور جو حیثیت شہر کراچی کی تھی یہ وہ وقت تھا جو اس شہر کا اور اس کے باسیوں کا عروج کا زمانہ سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ اس شہر کے ساتھ ماضی میں سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اس شہر سے دارالحکومت تبدیل کر کے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا پھر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کے جرم میں اس شہر کو فتح کرنے کے لیے 1965ء چڑھائی کی گئی اس طرح سے ان کو سزا دینے کی ابتداء کی گئی۔ پھر اس پر 1972ء میں کوٹا سسٹم کی مار لگائی گئی اس طرح شہر کو سزا دینے کا ایک مستقل سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یہ سزا تھی اس شہر کو اور اس کے باسیوں کو اس کے میرٹ پر چلنے کی جس کو اختیار کر کے یہاں کے لوگ حکمرانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اس کے برخلافت پاکستان کے ہر علاقے میں شروع ہی سے وہاں کے باشندوں کو جبر کے ذریعہ دبا کر رکھا گیا تھا جس میں وہ اپنی مرضی سے کسی کو منتخب بھی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پاکستان کی اسمبلیوں میں جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، سرمایہ داروں اور خانوں نے اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے قائم کی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں کو اس طرح سے دبا کر رکھا تھا کہ وہاں کے لوگ اپنی مرضی سے نہ اپنی فصل بو سکتے تھے نہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے تھے، نہ تھی وہ اپنے علاقوں سے اپنی مرضی کے لوگوں کو منتخب کر سکتے تھے مگر کراچی شہر کی نوعیت ان سب سے مختلف تھی۔ اس شہر کے لوگوں نے اپنے حقوق کی خاطر بڑے سے بڑے حکمرانوں سے ٹکر لے کر یہ ثابت کیا ان پر کوئی جبر نہیں کر سکتا، اس علاقے کے لوگ ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ باشعور تھے کیونکہ ان پر کوئی ایسا فرد مسلط نہیں تھا جو ان پر جبر کر سکے جس طرح دوسرے علاقوں میں جاگیردار، وڈیروں، سرداروں نے جبر کا نظام قائم کیا ہوا تھا۔ جن کی اپنی ذاتی جیلیں تھیں، اپنا مخصوص انصاف تھا، اپنا ذاتی معیار تھا، اپنا انداز حکمرانی تھا، ان کے آگے کوئی عام انسان سر اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا مگر کراچی کے لوگ اس سے بالکل مختلف تھے اس لیے ملک کے دیگر جاگیر داروں، سرمایہ داروں، وڈیروں نے ان کو سزا دینے کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ پھر اس طرح کے منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے موقع کی تلاش میں رہے ہیں اس طرح ان کو ایسا موقع ضیاء الحق نے فراہم کر دیا۔ جس کی ابتداء کراچی کے علاقے ناظم آباد سے کی گئی اس طرح ایک حادثہ نے کراچی کی ترقی کا سفر معکوس کی جانب کر دیا۔ یہ واقع تاریخ میں بشریٰ زیدی کے نام سے منسوب ہوا۔ جو 1983ء میں شروع ہوا۔ پھر کراچی کے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے نام سے ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے کراچی کو اجاڑ دیا پھر کراچی کی حالت غریب کی جورو کی مانند ہوگئی۔ یہاں پر بھی وہی جبر کا نظام قائم ہونا شروع ہوا جو پاکستان کے دیگر علاقوں میں ایک طویل مدت سے قائم رہا بلکہ وہ جبر کا نظام وقت کے ساتھ ساتھ طاقت پکڑتا چلا گیا جن کو وہ اپنا سمجھتے تھے وہ بھی کراچی پر جبر کا نظام قائم کرنے میں شریک تھے وہ بھی جو ان کے اپنے نہیں تھے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں کراچی والوں کی خودسری کی سزا انہوں نے دی جن کو غیر سمجھا گیا۔ پھر ان کو خود سری کی سزا انہوں نے دینا شروع کی جن کو وہ اپنا سمجھتے تھے۔ کراچی کے لوگوں نے اپنی خودسری کی سزا اپنوں سے بھی پائی اور غیروں سے بھی۔ پھر وہ بھی پاکستان کے ان دیگر علاقوں کے لوگوں میں شامل کر دیے گئے جنہیں اپنی مرضی سے سانس بھی لینے کی اجازت نہیں تھی مگر فرق یہ تھا کہ دیگر علاقوں کے لوگ ایک طویل مدت سے ایک عالم بے خودی میں جی رہے تھے اور اپنے اوپر مسلط لوگوں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کو بے حس بنا دیا گیا تھا۔ مگر کراچی کے لوگوں کے پاس احساسات تھے، جذبات تھے، فکر تھی، سوچ تھی، شعور تھا، مگر وہ اس جبر کے نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان کی نوعیت اس مریض کی سی تھی جس کو زخم لگائے جارہے تھے مگر ان کو ہوش میں رکھ کر۔ بغیر سن کیے، ان کے جسموں پر زخم کبھی ڈرل مشین سے لگائے جاتے کبھی ان کے زخموں کو اس طرح لگایا جاتا وہ اپنے درد کی شد ت پر اُف بھی نہ کر سکیں، ان کے شعور کو کچو کے دیے جاتے ان کی فکر پر کوڑے پر مارے جاتے، کبھی ان کی سوچ کو ان پر عذاب بنا دیا جاتا، بندوق کی گولی تو معمولی بات تھی، یعنی کراچی کے لوگوں پر دیگر علاقوں کے مقابلہ میں دوہرا ظلم کیا جا رہا تھا ایک ظلم تو ان کے شعور فکر سوچ پر زخم لگا کر دوسرا ان کو جسمانی تشدت کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ یہ سب مل کر ان کو معاشی تشدد کا باعث ہو رہے تھے مگر پھر بھی ان کی یہ سوچ رہی، یہ فکر رہی، یہ ہی شعور دیا۔