نوشکی بلوچستان سانحہ، المناک، دردناک، شرمناک

360

گزشتہ روز نوشکی بلوچستان کے قریب قومی شاہراہ پر دہشت گردوں نے بس میں سے اُتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 بے گناہ مسافروں کو شناخت کے بعد جس بہیمانہ اور ظالمانہ انداز میں شہید کیا ہے یہ سانحہ نہ صرف دہشت گردوں کی دیدہ دلیری اور بے خوفی کا ایک کھلا اظہار ہے بلکہ کمزور ترین حکومتی نیٹ ورک اور رِٹ کو بھی عیاں کردیتا ہے۔ نام نہاد جانثار (سرمچار) کہلانے والے غیر ملکی ایجنڈے پر ہمارے سیکورٹی اداروں اور عام نہتے بے گناہ افراد کے خلاف بدنہاد سرمچاروں کی جانب سے اس نوع کے دہشت گردی کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر ایسے سانحات کو روکنے کے لیے تاحال موثر اور فول پروف انتظامات مستقل بنیادوں پر نہیں کیے جاسکے ہیں جو ہماری گزشتہ اور موجودہ حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف ایک عرصے سے سرگرم دشمن ممالک اپنے مذموم مقاصد کے لیے بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے توسط سے کامیاب کارروائیاں کروانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں تاحال سیکورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار اور افسران سمیت بلوچستان میں دیگر صوبوں سے آنے والے کافی مزدور، محنت کش اور عام افراد شہید کیے جاچکے ہیں۔ ہماری اہم تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کی کبھی کامیاب اور کبھی ناکام کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ ہماری سیکورٹی فورسز نے بھی جواب میں کئی مرتبہ دہشت گردوں کے حملوں کو ناکام کرکے بڑی تعداد میں انہیں واصل جہنم کیا ہے لیکن اس کے باوجود وطن عزیز کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں سے صاف پتا چلتا ہے کہ پاکستان دشمن ممالک جن میں بھارت سرفہرست ہے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرکے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔

نام نہاد سرمچاروں کو گمراہ کرکے بلوچستان میں ان کے ہاتھوں سے دہشت گردی کی کارروائیاں کروانے والے ان کے رہنما میر ہیر بیار مری، براہمداغ بگٹی اور دیگر خود تو سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ کے پُر فضا مقامات پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ ان کے حکم پر بے گناہ افراد کو بلا جواز شہید کرنے والے نام نہاد سرمچار بلوچستان کے پہاڑوں میں اہل خانہ سے دور در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروانے والا جیے سندھ متحدہ محاذ (جسقم) کا سربراہ شفیع برفت بھی خود تو بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مدد سے جرمنی میں بڑے عیش و آرام سے رہ رہا ہے جبکہ وہ خود بذریعہ سوشل میڈیا صوبہ سندھ میں اپنے کارکنان کو ورغلاتا رہتا ہے۔ بلوچستان کے سرمچار عام بے گناہ نہتے افراد کو نشانہ ستم بنا کر اب خود ظالموں کی اس فہرست میں جا شامل ہوئے ہیں جس کا الزام وہ دوسروں پر دھرا کرتے ہیں۔ بھلا دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والا ایک عام محنت کش یا مزدور ان کا ایسا کون سا عظیم نقصان کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے بلا سبب بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیتے ہیں؟ ہر منصف مزاج فرد اور سیاسی، سماجی تنظیم چھوٹے صوبوں کے ساتھ روا رکھی گئی زیادتیوں کے سخت خلاف ہے۔ چھوٹے صوبوں کے قدرتی وسائل اور روزگار پر حق فائق بلاشبہ مقامی آبادی ہی کا بنتا ہے اور اگر وفاقی حکومت یا بااثر ریاستی ادارے انہیں سے روگردانی کرتے ہیں تو اپنے جائز مطالبات اور حقوق کے حصول کے لیے پرامن، قانونی جدوجہد ہی کی جانی چاہیے نہ کہ ملک دشمنوں کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ہتھیاروں کی زبان میں بات کا سلسلہ شروع کرکے اپنے جائز مقاصد کو بھی غلط رُخ اور آہنگ سے ہمکنار کردیا جائے۔ یہ سراسر ایک احمقانہ، نقصان دہ اور عاقبت نا اندیشی پر مبنی ایک ایسی روش ہے جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے۔

سانحہ نوشکی مذہبی پس منظر کا حامل ہے یا پھر سیاسی؟ حقیقت خواہ کچھ بھی سامنے آئے لیکن عام بے گناہ افراد کی دہشت گردوں کے ہاتھوں انتہائی بہیمانہ انداز میں شہادت نہ صرف ناقص ترین حفاظتی اقدامات کی غماز ہے بلکہ اس امر کا واضح ثبوت بھی ہے کہ ملک اور بلوچستان دشمن قوتوں کو ہمارا امن اور استحکام ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہا ہے۔ بظاہر تو ہر حکومت ہی یہ دعویٰ کیا کرتی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ کردیا ہے لیکن وطن عزیز میں پے در پے دہشت گردی کی ہونے والی ہر واردات اور سانحہ حکومت کے کیے گئے دعوئوں کو بُری طرح سے جھٹلا دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں بشام کے پی کے میں چینی انجینئرز کا دہشت گردی کے واقعے میں قتل اور نوشکی بلوچستان کا حالیہ سانحہ ہماری ملکی سیکورٹی کی بے حد اور کمزور ترین کارکردگی کا ایک بدنما شاخسانہ ہے۔ ملک میں حفاظتی انتظامات موثر ترین بنانے کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی سخت ضرورت ہے کہ چھوٹے صوبوں کے عوام کی جائز شکایات پر کان دھرے جائیں۔ ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں مستقل بنیادوں پر استوار کی جائیں تا کہ ملک دشمنوں کو ہمارے خلاف ہمارے ہی لوگوں کو استعمال کرنے کا موقع ہی نہ میسر آسکے۔ آخر ہم کب تک دہشت گردی کے ہر سانحے کو دشمن ملک کی کارروائی قرار دے کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالتے رہیں گے؟ مسئلہ بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے ہمہ جہت مسائل ناگزیر ہو چکی ہے اور روڈ راستوں کو محفوظ کرکے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنا اب وقت کی فوری ضرورت بن چکا ہے۔