ایران اسرائیل جنگ۔ فلسطین غائب

644

ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے، امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور دنیا بھر کے ممالک کے ردعمل نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا ہے اور اسی بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک کے حکمران مسلمان حکمرانوں کے تعاون سے فلسطین کے قضیے کو ایران، اسرائیل جنگ یا تنازعے میں تبدیل کردیں گے اور اب ایسا ہی کیا جارہا ہے۔ اسرائیل نے بیان دیا ہے کہ ہماری جنگ ایرانی عوام کے خلاف نہیں ہم ایران کی حکومت کے خلاف ہیں اور اپنے بیان میں بتایا کہ ہم نے اپنے اتحادیوں کے تعاون سے ایرانی حملہ ناکام بنادیا ہم مشرقی وسطیٰ کے اتحادیوں کے شکر گزار ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی جبکہ ایران نے کہا کہ اب اسرائیل کے خلاف مزید حملے نہیں کریں گے، معاملہ ختم ہوگیا۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ ہم تنائو میں اضافہ نہیں چاہتے، تاہم امریکی صدر نے پھر اسرائیل کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کے دفاع کی حمایت اور خطے میں اتحادیوں سے مشاورت جاری رکھیں گے۔ ان تینوں بیانات کے نتیجے میں تاثر مل رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ اسرائیل، ایران اور اسرائیل کے اتحادیوں کی ہے۔ ایک روز قبل ایران نے بھی اسی قسم کا بیان دیا تھا کہ جو ہمارے میزائل کے راستے میں رکاوٹ بنے گا وہ بھی نشانہ بنے گا اور اب نیتن یاہو نے کہا ہے کہ جو ہمیں نقصان پہنچائے گا اسے غزہ بنادیں گے۔ رفتہ رفتہ نہایت سرعت کے ساتھ صورتحال کو اسرائیل ایران جنگ بنادیا گیا ہے۔ فلسطین کہاں گیا، غزہ میں نسل کشی، انسانیت سوز مظالم کہاں گئے۔ وہ جنگی جرائم کی عدالت کہاں گئی، فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قبضے کا معاملہ کہاں گیا، عالمی استعمار نے اس جھگڑے کو دو ملکوں کا جھگڑا بنادیا ہے۔ ایران نے بھی جو کچھ کہا ہے اس کے ذمے داروں کو بھی معلوم ہوگا کہ اس اقدام کا نتیجہ کیا ہوگا، جبکہ وہ خود اعلان کررہا ہے کہ ہمارے حملے محدود تھے۔ اور یہ کہ یہ حملے فلسطین کے معاملے پر نہیں بلکہ ایرانی سفارتخانے پر حملے کا بدلہ تھے۔ گویا وہ خود فلسطین کا سب سے بڑا داعی ہونے کے باوجود سات ماہ میں فلسطین خصوصاً غزہ میں اسرائیلی مظالم کے جواب میں ایک محدود حملہ بھی نہیں کرسکا۔ جبکہ اسرائیلی جارحیت کی طرح اس کے خلاف جوابی کارروائی بھی لامحدود ہونی چاہیے یہ اور بات ہے کہ حماس نے اسرائیل پر ایرانی حملوں کی حمایت کی ہے کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہی ہوتا ہے، اس وقت جو بھی اسرائیل کو نقصان پہنچائے گا وہ حماس کا دوست کہلائے گا۔ اس اعتبار سے حماس نے بھی اسرائیلی حملوں کو جائز قرار دیا ہے کہ سفارتخانوں پر حملوں کا جواب دینا ایران کا حق ہے۔ لیکن معاملہ یہاں ایران پر حملوں کا نہیں گزشتہ سات ماہ میں حماس نے اسرائیل سے عربوں کے تعلقات، مغربی ممالک میں اسرائیل کے لیے ہمدردی سمیت تمام صہیونی منصوبوں کو خاک میں ملادیا تھا لیکن اب نئے سرے سے معاملے کو اسرائیل ایران یا عرب اسرائیل تنازع بنایا جارہا ہے۔ اب سلامتی کونسل، جی سیون اور یورپی یونین کے ہنگامی اجلاس ہورہے ہیں یقینا ان میں ایران اسرائیل تنازع زیر بحث آئے گا۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی ثانوی مسئلہ بن جائے گی۔ پاکستان کی جانب سے بھی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں غزہ کے معاملے کو ثانوی حیثیت ہی دی گئی ہے اور سلامتی کونسل کی ناکامی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اسرائیل ایران تنازع میں تمام فریقوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ حالانکہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک اور اقوام متحدہ و تمام بین الاقوامی اداروں کو اس سارے قبضے کا بنیادی سبب حل کرنے پر زور دینا چاہیے، سب کو مل کر فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قبضے کے خاتمے پر اور دینا چاہیے جتنے حملے اور جوابی حملے ہورہے ہیں یہ سب اسرائیل کے ناجائز وجود کی وجہ سے ہیں۔ اس جانب قائم مقام امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے توجہ دلائی ہے کہ اسرائیل کا ناجائز وجود ہی دنیا کے لیے خطرہ ہے، مسلم ممالک خاموش نہ رہیں او آئی سی کا جرأت مندانہ موقف اختیار کرے۔ لیکن سب سے بڑا سوال ہی یہ ہے کہ مسلم دنیا پر مسلط ایجنٹ حکمران دلیرانہ موقف کیسے اختیار کرسکتے ہیں۔ دلیرانہ موقف تو عوام اختیار کرچکے انہیں اب ایک قدم اور آگے بڑھنا ہوگا۔ ان ایجنٹ حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کردیں اور جو ان کی حمایت کے لیے سامنے آئے اسے بھی طاقت سے محروم کردیں۔ اصل مسئلے کو پہچاننے اور اس کے حل کی ضرورت ہے، دنیا کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں نہ الجھایا جائے۔