اسرائیل کے خلاف پوری امت کارروائی کرے

475

غزہ تنازع کے چھ ماہ بعد بالآخر ایران کی جانب سے اسرائیل پر براہ راست ڈرون اور کروز میزائل حملے کردیے گئے ہیں۔ ایران نے اسرائیل میں مخصوص اہداف پر حملے کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے متعدد ایرانی ڈرون شام اور اردن کی حدود میں مار گرائے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ عراق کے صوبے سلیمانیہ کے اوپر سے کئی ڈرون پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایرانی حملوں سے صورت حال کو مزید کشیدہ کردیا ہے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حوثیوں نے بھی ڈرون حملہ کیا ہے۔ اس کشیدگی میں اس بات پر بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ اردن نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے والے ڈرون مار گرانے کا اعلان کیا ہے اور ایران نے جواب دیا ہے کہ ایسا کرنے والا خود بھی نشانہ بنے گا۔ جتنے میزائل اور ڈرون داغے گئے ان میں سے کسی سے اسرائیل کے کسی نقصان کی اطلاع تو نہیں ملی ہے البتہ اسرائیل میں خوف و ہراس کی فضا تو پیدا ہوگئی ہے۔ ایران، ترکی، سعودی عرب، پاکستان وغیرہ بڑی فوجی طاقتیں ہیں جو اسرائیلی جارحیت اور مظالم کی مذمت کرتے رہتے ہیں لیکن ہاشمی سلطنت اردن کی جانب سے ایرانی ڈرون گرانے کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ القدس کی نگران حکومت بھی اسرائیل کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ ویسے تو سارے مسلم ممالک اسرائیل کی سرپرستی اور حمایت کررہے ہیں، کوئی سفارتی تعلقات کے ذریعے کوئی وفود کے تبادلے کے ذریعے اور سب خاموش رہ کر بھی اسرائیل کی پشت پناہی اور مدد کررہے ہیں۔ ایرانی حملوں سے ایرانی عوام میں خوشی محسوس کی گئی ہے لیکن کیا اس طرح کے ہلکے پھلکے حملے ہی اسرائیل کا علاج ثابت ہوسکتے ہیں۔ جبکہ ایرانی وزیر خارجہ حسین عباللہیان نے تہران میں غیر ملکی سفیروں سے گفتگو میں کہا کہ امریکا کو ب5ادیا تھا کہ حملے محدود ہونگے اور یہ کہ پڑوسی ممالک کو بھی بہتر گھنٹے پہلے مطلع کردیا تھا ، پھر میزائل اور ڈروں اسرائیل تک کیسے پہنچ سکتے تھے ؟ دوسری طرف کسی مسلم ملک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سفارتی، معاشی اور سماجی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔ جس ملک کا سفارتی تعلق ہے وہ کم از کم اپنے ملک سے اسرائیلی سفیر کو واپس بھیج کر یہ پیغام دے سکتا تھا کہ غزہ میں قتل عام اور نسل کشی بند کرو۔ امارات اور دوسرے عرب ممالک جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں وہ بھی کھل کر اعلان کیوں نہیں کرتے کہ اسرائیل سے فلسطینی زمین خالی کیے بغیر اس سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ ایرانی حملے سے بظاہر ایسا لگا ہے کہ ایران نے اسرائیل کو نشانہ بنادیا ہے حالانکہ جو ڈرون اور جس طاقت کے میزائل استعمال ہوئے وہ اسرائیل پہنچ جاتے تو بھی کچھ ہوجاتا۔ اسرائیل پر صرف ہلکے پھلکے حملے کرکے اس کے خلاف رسمی کارروائی تو کردی گئی ہے لیکن اسرائیل کا علاج یہ ہے کہ پوری امت بیک وقت کارروائی کرے، اسرائیل کے اردگرد مصر، اردن، شام پھر سعودی عرب امارات وغیرہ ہیں یہ معاشی طاقتیں بھی ہیں اور فوجی بھی اگر کوئی کارروائی کرنی ہے تو ان سب کو کرنی چاہیے۔ سعودی عرب اور ترکی عالم اسلام کی قیادت کے تو خواہاں ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کے موقع پر ان کی یہ خواہشیں نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں۔ ایران نے جو کارروائی کی ہے وہ اسرائیل کا علاج کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اس وقت ایران ہی سامنے ہے۔ یہ عالمی استعمار کی حکمت عملی کا حصہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ کو اس طرح پھیلایا جائے کہ اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس بہانے امریکی مداخلت کا جواز پیدا ہوجائے اور وہ خطے میں کود پڑے۔ یہ ساری صورتحال دنیا کے بڑے حصے کو معاشی عدم استحکام سے بھی دوچار کررہی ہیں۔ اگر اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کرنا ہے تو امت مسلمہ کو متحد و متفق ہو کر اسرائیل کا علاج کرنا ہوگا۔ ایک ایک ملک کے ہلکے پھلکے حملوں سے اسرائیل کا علاج ممکن نہیں ہے۔ اسے فوجی اور معاشی دونوں طرح گھیرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی دبائو تو دنیا کا کوئی ملک برداشت نہیں کرسکتا۔