ٹیکس یا کرپشن

271

ایک خبر ہے کہ ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں ٹیکس چوری میں ملوث ۵ لاکھ افراد کی موبائل سم بلاک کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ ایف بی آر نے ۲۰ لاکھ افراد کی ٹیکس چور کے طور پر نشاندہی کرکے ان کے موبائل بند کرنے کے لیے کہا تھا لیکن موبائل کمپنیوں نے اتنی بڑی تعداد میں فون بند کرنے سے معذرت کرلی تو اب ۵ لاکھ فونز سے کام شروع ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے ٹیکس گوشوارے داخل کیے تھے لیکن گزشتہ برس نہیں کیے جس پر انہیں ٹیکس چور تصور کرلیا گیا اور یہی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے۔ اس طرح ایف بی آر کے پاس نان فائلرز کے بجلی کے کنکشن کاٹنے کے اختیارات بھی ہیں۔ یہ سارے اقدامات آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے احکامات کی آڑمیں کیے جارہے ہیں۔ لیکن جس طرح ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافے کاکام کیاجارہا ہے اس سے خوف و ہراس تو ضرورپھیلے گااور جو لوگ اب ٹیکس ریٹرن جمع کرانے پر مجبور ہوںگے۔وہ ضرور ایسے ٹیکس کاغذات داخل کرائیں گے کہ جن میں ہیر پھیر کیا گیا ہوگا۔ کچھ چھپایا جائے گا کچھ غلط دکھایا جائے گا۔ ایک وسیع کاروبار شروع ہوجائے گا جبکہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ اور ٹیکس وصولی میں کمی کا خدشہ ہوگا۔ حکومت پٹرول، بجلی، گیس وغیرہ پر تو ٹیکس پر ٹیکس نافذ کر ہی رہی ہے، اب رئیل، اسٹیٹ اور ریٹیل پر بھی ٹیکس لاگو کررہی ہے۔ جسے تاجر دوست ٹیکس اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے انجمن تاجران سندھ کے صدر جاویدقریشی نے تجویز دی ہے کہ چھوٹے تاجروں پر فکسڈ ٹیکس لگادیا جائے تو ٹیکس وصولی میں اضافے کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔لیکن ٹیکس ادارے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھ کرتاجروں کو پریشان کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں بیشتر تاجر تنظیموں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ایف بی آر کو ایسے اضافی اختیارات دینے سے معاملات خرابی کی طرف جائیں گے۔ ایک خرابی یہ ہے کہ ایف بی آر نے ایس آر او پہلے جاری کردیا ہے اب تاجر تنظیموں سے مذاکرات کی بات کی جارہی ہے۔ مذاکرات تو پہلے ہونے چاہیے تھے اب تو اسے شا ہی حکم سمجھا جارہا ہے۔ نئے نظام سے ایک ہی مد میں دوسرا ٹیکس بھی آگیا ہے۔ مثلاً کمرشل میٹر پر ٹیکس پہلے ہی سے مزید ٹیکس کہاں سے آگیا، اسی طرح عام صارفین روٹی سے لے کر گاڑی تک خریدنے والے ہر چیز پر ٹیکس تو پہلے ہی دے رہے ہیں، اصل خرابی یہ ہے کہ ان اداروں نے ایسا نظام بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ معاملات بدعنوان افسران کے ہاتھوں میں رہیں اور لین دین چلتا رہے۔ تاجروں نے فکسڈ ٹیکس کامطالبہ کیا ہے تو اس کی شرح پر مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ ورنہ پورے ملک کے بڑے بڑے ہوٹل سپراسٹورز فوڈ چین اور شاپنگ مال والے تو بہت سے اندراج ہی نہیں کرتے اور کرتے ہیں تو درست نہیں کرتے۔ اگر حکومت ٹیکس وصولی میں اضافہ چاہتی ہے تو اسے شفاف نظام بنانا ہوگا ورنہ ٹیکس گزار بڑھیں گے لیکن ٹیکس کی شرح کم ہوگی اور کرپشن بڑھے گی۔ کیا آئی ایم ایف بھی کرپشن کا فروغ چاہتا ہے۔ اور آئی ایم ایف کے نام پرصارفین کو کب تک دبائو میں رکھا جائے گا۔ ایک ایک چیز پر تین تین ٹیکس ہیں۔ اور بڑے بڑے ٹیکس چور معزز بنے ہوئے ہیں۔