اخلاق اور قانون

676

جرمنی سے یہ تماشا خبر آئی ہے کہ وہاں جسم فروشی کو آئینی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ اسے قانونی تحفظ تو حاصل ہوگا مگر ’’اخلاق‘‘ کی کوئی حمایت حاصل نہ ہوگی۔ یعنی جسم فروشی کو غیر اخلاقی ہی تصور کیا جاتا رہے گا۔
مغربی ملکوں سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں ’’متوازن فکر‘‘ اور معروضی انداز نظر‘‘ کتنا فروغ پاچکا ہے اور اس سلسلے میں مغربی دنیا کے لوگ کتنے بنیاد پرست یا ’’راسخ العقیدہ‘‘ ہوگئے ہیں، مذکورہ خبر یقینا اس امر کی ایک شہادت ہے۔
’’توازن‘‘ کا دنیا بھر کی زبانوں میں جو بھی مفہوم ہو لیکن مغربی معاشروں میں اس کے معنی یہ ہو کر رہ گئے ہیں کہ دو متضاد تصورات، رجحانات یا رویوں کو بیک وقت برقرار رکھتے ہوئے زندہ رہا جائے اور ان کے مابین ’’ہم آہنگی‘‘ کا راستہ تلاش کیا جائے۔ یہ صورت حال وہاں انفرادی و اجتماعی سماجی زندگی میں بھی صاف جھلکتی نظر آتی ہے اور اس کا اظہار قومی اور بین الاقوامی سطح پر مغرب کے سیاسی طرز عمل میں بھی ہوتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس وقت مغرب میں آزادی اور مساوات کے تصورات فروغ پا کر ایک کلچر میں ڈھل رہے تھے تو جدید مغرب کی روح دنیا بھر میں نوآبادیوں کے قیام کے ذریعے ایک توازن کی تلاش میں تھی۔ طاقت کے توازن اور دہشت کے توازن کے تصورات یقینا جدید مغرب کی ایجاد نہیں لیکن یہ تصورات جدید مغرب کے حوالے سے جتنے بڑے پیمانے پر بروئے کار آئے ہیں انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ڈیکارٹ کو جدید مغربی فلسفے کا بانی کہا جاتا ہے اور اس کے بارے میں بنیادی بات یہ کہی جاتی ہے کہ اس نے ذہن اور مادے (Mind and Matter) کی دوئی پیدا کردی اور ذہن اور مادے کا بحران اس کے یہاں کہیں حل نہیں ہوپاتا اور اس صورت حال نے مغربی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ کہنا تو یقینا غلط ہوگا کہ یہ معاملہ ذہن اور مادے کے درمیان توازن کی تلاش سے عبارت ہے لیکن چونکہ یہ بحران اور قضیہ حل نہیں ہوپاتا اس لیے اس میں دو متضاد تصورات میں توازن کے عناصر ازخود آتے ہیں۔
معروضی انداز نظر کا معاملہ بھی توازن کے قصے سے مختلف نہیں۔ مغرب میں اس سے خواہ کوئی بھی مفہوم اخذ کیا جاتا ہو لیکن سماجی معنوں میں معروضی انداز نظر کا پلڑہ ہمیشہ مقدار، تعداد یا Quantity کی جانب جاتا ہے۔ اس کی انتہا یہ ہے کہ چرچ بھی جب معروضی انداز نظر اختیار کرتا ہے تو وہ عوامی خواہشات اور مطالبات کے پیش نظر عیسائیت کے تصورات اور نظریات میں ترمیم کرلیتا ہے۔ یہ صورت حال عرف عام میں مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا عمل کہلاتی ہے۔
جرمنی میں جسم فروشی کو قانونی لیکن غیر اخلاقی قرار دے کر یقینا ایک توازن خلق کیا گیا ہے جس کی پشت پر معروضی انداز نظر کی کار فرمائی کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے، لیکن یہ قصہ یہیں تک محدود نہیں۔
ہم نے ایک بار انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ دنیا کا ہر قانون اور ضابطہ دراصل اس امر کا اظہار اور اعلان کرتا دکھائی دیتا ہے انسان ناقابل اعتبار ہے اور چونکہ انسان ناقابل اعتبار ہے اس لیے اسے قانون اور ضابطوں کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے تا کہ وہ قانون اور ضابطے کے خوف سے ذمے دار بنا رہنے کی کوشش کرے۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے اور اسے منفی قرار دیے بغیر چارہ نہیں۔ تاہم تصویر کا دوسرا اور مثبت رخ یہ ہے کہ اگر قانون انسان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے تو ہر سچا اخلاقی تصور اس امر پر دال ہے کہ انسان اعتماد کے لائق ہے اور اس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہم اخلاق اور قانون کے حوالے سے کئی اہم نتائج اخذ کرسکتے ہیں۔
ایک نتیجہ تو یہی ہے کہ اخلاق اور قانون کے تصورات انسان کی فطرت میں مضمر خیر اور شر کے تصورات سے متعلق ہیں۔ اخلاق کا تصور یقینا خیر کے عنصر سے متعلق ہے اور قانون کا تصور یقینا شر کے عنصر سے منسلک ہے، اس سے دوسرا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ قانون کی اساس بہرحال اخلاق پر استوار ہونی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر قانون قانون نہیں رہے گا ’’جبر‘‘ بن جائے گا اور اس جبر کی ایک صورت یہ ہوگی کہ وہ سراسر خارجی حقیقت ہوگا جس سے انسان کے سلسلے میں بداعتمادی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اخلاق اور قانون کے اس تعلق کو تسلیم کرلیا جائے تو اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ اخلاق کوئی مجرد چیز نہیں بلکہ مذہب کے بنیادی عقائد میں مضمر ٹھوس حقائق سے برآمد ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اخلاق کا کوئی بھی تصور صرف مذہب ہی سے فراہم ہوتا ہے اور جو اخلاق مذہب سے نہیں آتا وہ یقینا ایک جھوٹا اخلاق ہے۔
مغربی دنیا کے بارے میں یہ سوال اکثر اٹھتا رہتا ہے کہ وہ عیسائی ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کا عیسائیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال خود مغربی معاشروں میں بھی اٹھتا ہے لیکن مسلم دنیا میں اس سوال کی نوعیت کچھ اور ہے۔ مسلمانوں کو یہ صورت حال اکثر مبہم اور پیچیدہ محسوس ہوتی ہے کہ مغرب یوں تو سیکولر ہے لیکن جب اسے مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ اچھا خاصا عیسائی ہوجاتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ خالص مذہبی تناظر میں مغربی دنیا سیکولر اور تاریخی تناظر میں عیسائی ہے اور جب مغرب کا مسلمانوں سے کسی بھی نوعیت کا واسطہ پڑتا ہے اور خاص طور پر جب کوئی آویزش جنم لیتی ہے تو مغرب کا تاریخی تناظر اور تاریخی تجربہ زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے لیکن جب مذہب کی بات ہوتی ہے تو مغربی دنیا اپنے بدترین سیکولرازم ہی کا اظہار کرتی ہے۔ زیر بحث خبر اس کا ایک چھوٹا سا ثبوت ہے۔
مغرب اپنے سیکولر تناظر کے باعث یقینا اخلاق اور قانون کے تعلق کی نوعیت کو فراموش کرچکا ہے اور یہ صورت حال دین و دنیا کی اس تفریق کا نتیجہ ہے جو مغرب میں مذہب کے استراد کا سبب بن گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک جانب جسم فروشی کو غیر اخلاقی بھی قرار دیا جارہا ہے اور دوسری جانب اسے قانونی تحفظ بھی مہیا کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز اخلاقی نہیں ہے وہ قانونی کیوں کر ہوسکتی ہے اور جو چیز اخلاقی ہے وہ قانونی کیوں نہیں ہوسکتی۔ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جو اخلاق قانون نہیں بن سکتا اس کی ضرورت اور اہمیت ہی کیا ہے۔ یہ سوالات یقینا اہم ہیں لیکن مغربی دنیا کے مدبرین اور خاص طور پر سیاسی مدبرین ان سوالات سے کوئی سرورکار نہیں رکھتے۔
ہم مغرب کے لوگوں کی علمی لگن اور دقت نظر کے دل سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ انہوں نے سطحی زندگی کو اپنے لیے منتخب کرلیا ہے، وہ اسی سطحی زندگی کے تقاضوں، مسائل اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں الجھے رہتے ہیں۔ جسم فروشی ہمارے یہاں بھی کم نہیں ہورہی لیکن ہمارے یہاں جمہوریت کے تمام غلغلے کے باوجود انسان کے سیاسی تصور یا ’’انسان بحیثیت ووٹر‘‘ کے تصور کی کوئی اہمیت نہیں لیکن مغربی دنیا میں یہ تصور اتنا اہم ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ چونکہ جسم فروشوں کی تعداد اب مغربی معاشروں میں کافی ہوگئی ہے اس لیے ان کے مفادات کے سوال سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تحفظ سیاستدانوں کی ضرورت ہے، تہذیب اور معاشرے کی نہیں۔ لیکن جرمنی میں تہذیب اور معاشرے کے لیے صرف یہ رعایت تجویز کی گئی ہے کہ جسم فروشی کو بہرحال غیر اخلاقی تصور کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے معاشرے اور تہذیب کو حقیقی معنوں میں کیا فائدہ ہوگا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سے معاشرے اور تہذیب کو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا اور اس نقصان کی سب سے تشویشناک صورت یہ ہوگی کہ تضادات کی آویزش مزید گہری اور پیچیدہ ہوجائے گی۔