بلوچستان: سیکورٹی ادارے کیوں ناکام ہیں؟

300

بلوچستان ایک بار پھر خون میں ڈوب گیا ہے۔ مسلح افراد نے نوشکی میں ایک بس کو روک کر اس میں سوار 11 مسافروں کو اغوا کر لیا اور بعد میں انہیں قتل کر دیا۔ اس واقعے نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بلوچستان میں اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہو۔ ماضی میں بھی کئی بار دہشت گردوں نے مسافروں کو نشانہ بنایا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو صوبے سے باہر کے ہیں۔ ان واقعات سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کیوں قائم نہیں ہو پا رہا ہے اور سیکورٹی ادارے اپنی ذمے داریوں کو کیوں پورا نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم آج تک بلوچستان کے مسائل کو سمجھ نہیں سکے ہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آج وہاں جو کچھ ہورہا ہے اس میں ریاستی پالیسی کا عمل دخل بھی ہے اور دہشت گردی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اگر بلوچستان میں مسلح گروہ سرگرم ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے لیے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ جب کہ ہم بڑے بڑے دعوے سنتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ سب دعوے ہیں ریاست اب تک ناکام ہے۔
حکومت نے صوبے میں فوج اور پولیس کی تعیناتی میں اضافہ کیا ہے، لیکن دہشت گرد اب بھی حملے کرنے میں کامیاب ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیکورٹی اداروں میں خفیہ معلومات کا فقدان ہے۔ دہشت گرد اکثر مقامی لوگوں کی مدد سے اپنے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان حملوں کے بارے میں سیکورٹی اداروں کو کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو طاقت کے ذریعے اپنا نہیں بنایا جاسکتا جو لوگ اگر ان دہشت گردوں کی مدد کررہے ہیں وہ ہمارے سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف کیوں نہیں کھڑے ہوتے ہیں؟ بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف سیکورٹی اداروں کی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ پورے پاکستانی قوم کی جنگ ہے۔ ہمیں سب کو مل کر دہشت گردی کے اس عفریت کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ سیکورٹی ادارے امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ حکومت کو اس سنگین مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ بلوچستان میں خون کی ہولی جاری رہے گی۔