وہ احساس و شعُور

440

وہ لوگ جو رمضان کے مہینہ کو اس بے خبری میں گزار گئے کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ رمضان کب آیا اور کب گیا۔ وہ آداب سحر خیزی کے لطف اٹھا سکے نہ انہیں فرحت افطار حاصل ہوئی اور نہ وہ اس لذت سے واقف ہو سکے جو آدمی کو ضبط نفس اور تسخیر نفس میں ہوتی ہے ان سے رمضان کی دی ہوئی تربیت اور رمضان کے بعد اس کی پیدا کردہ کیفیات کے تحفظ کی بات کرنا بالکل ہی عبث ہے ۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے تیس دن اور تیس راتیں برضا اور رغبت ان پابندیوں کو قبول کیا ہے۔ جو اللہ اور اللہ کے حضور فطرہ کا نذرانہ گزارنا ہے ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ جس طرح رمضان کا چاند نفس انسانی پر چند پابندیاں عائد کر دیتا ہے اسی طرح عید کا چاند ان پابندیوں کو ختم کر دیتا ہے مگر ان سے چھٹکارے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اپنے نفس کے شیطان کو بھی رہا کردے کہ تجھے بھی جو چاہے کر گزر بلکہ ان پر پابندیوں کے اٹھنے کا مطلب یہی ہے کہ جتنی پابندیاں لگی تھیں بس وہی معاف ہوئی ہیں وہ تمام قیود نہیں اٹھائی گئی جو عام حالات میں بھی شریعت عائد کرتی ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں وہ پابندیاں جو رمضان عائد کرتا ہے صرف حلال چیز اور طیب چیزوں پر عائد کرتا ہے اس لیے عید الفطر سے وہ حلال چیزیں جو عارضی طور پر ممنوع کر دی گئی تھیں از سر نو بحال ہوجاتی ہیں نہ کہ محرمات اور فواحش جن پر شروع ہی سے شریعت نے مستقل پابندیاں لگا رکھی ہیں۔
اب جبکہ رمضان ختم ہوگیا اور روزہ کی پابندیاں اٹھ چکی ہیں اس ساری تربیت کو ذہن میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے جو روزہ داروں نے رمضان کے دوران حاصل کی ہے کہ جس طرح وہ اللہ کے خوف اور رسول کی خوشنودی کی خاطر حلال و طیب باتوں سے رک گئے تھے اس طرح وہ اب سال کے گیارہ مہینوں میں حرام چیزوں سے اور گناہگاریوں سے بچنے اور محفوظ رہنے کی کوشش کریں تاکہ اطاعت الٰہی کا مقصد وہ اصل مقصد جس کو ہم بیان کرچکے ہیں اور مزید یا دہانی کے لیے اسے دوبارہ یہاں نقل کرتے ہیں حاصل ہو جائے
’’وہ مقصد اصلی جو جملہ طاعات و عبادات کا مقصود ہے یہی ہے کہ ایک مسلم معاشرہ اور اس کے تمام شہری جذباتی اور عقلی‘ علمی اور عملی اخلاقی اور قانونی سطح پر انفرادی اور اجتماعی ہر حیثیت میں اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسول کے نظام شہریت و اجتماع (یعنی شریعت) سے اپنی زندگی کے ہر گوشہ میں پوری طرح وابستہ ہو جائیں اور اپنے مسائل و معاملات میں اللہ اور اللہ کے رسول کی وفاداری کو اپنا مسلک اور شعار بنالیں‘‘۔
تعلق بااللہ کا اصل منشاء یہی ہے اور حب رسول کا صحیح تر تقاضا بھی یہی ہے جن لوگوں نے اس احساس و شعور کے ساتھ روزے رکھے ان کو رمضان کے بعد کی زندگی میں بھی اس کو پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے لاپروا اور بے خبر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس تربیت اور تزکیہ کو اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں جو پورا ایک مہینہ بھوک پیاس اور خواہشات نفسانی پر کنٹرول کرکے انہوں نے حاصل کی تھی۔
یہاں عالمی جنگ کا ایک واقعہ یاد آیا ہے مصر کے صحرا میں جنرل رومیل نے اتحادیوں کی فوج پر اچانک حملہ کرکے بری طرح شکست دی تھی اس نے منصوبہ بنایا تھا کہ بے آب و گیاہ صحرا کا ایک طویل ترین چکر کاٹ کر وہ اتحادی فوج کو اس کے مرکز رسد سے منقطع کردے اور ان کو چاروں طرف سے گھیر ے اس چھاپا مار فوج کے لیے تربیت یافتہ سپاہیوں کو منتخب کیا گیا جو چار پانچ دن تک بغیر کھائے پیے اور سستائے مسلسل طوفانی یلغار کرکے اس فاصلہ کو طے کر جائیں جب رومیلؔ اس چھاپا مار دستہ کا معائنہ کر رہا تھا تو کسی نے اس سے کہا کہ یہ منصوبہ خطرناک ہے سپاہی کھائے پیے اور آرام کیے بغیر اتنی تیز رفتاری سے کوچ نہیں کر سکیں گے‘‘۔ رومیل نے برا فروختہ ہو کر کہا– ہم انہیں صرف آج ہی کے دن کے لیے اس طرح کے کوچ کی مہینوں بھر تربیت دیتے رہے ہیں تو کیا آج ووہ ہماری اس تربیت کو ضائع کر دیں گے‘‘۔
بر سبیل تذکرہ ہم یہ بتاناچاہتے ہیں کہ رومیل کی اس طوفانی یلغار کو جنگی تاریخ کا ایک شاندار اور حیرت انگیزکارنامہ سمجھا جاتا ہے اس کی مثال اس سے پہلے اگر کبھی ملتی ہے تو وہ صرف اسلامی عہد میں خالدؓ بن ولید کی یلغار ہے جبکہ جنادین کے میدان میں رومیوں کا ایک عظیم الشان لشکر مسلمانوں کی قلیل فوج کے مقابلہ پر جمع ہو گیا تھا اس وقت خالد ؓ بن ولید عراق کے محاذ پر مامور تھے ان کو جب اجنادین کی اطلاع ملی تو انہوں نے بھی ایسے ہی خطرناک صحرا کو برق رفتاری سے کوچ کرتے ہوئے غالباً چھتیس گھنٹوں میں طے کیا۔ اور عین حملہ کے روزے رومیوں کے لشکر کے مقابلہ پر اپنی فوج کو لے کر پہنچ گئے اور رومی جو ان کی کمک کو روکنے کے لیے عام راستوں پر چوکی پہرہ لگا کر آئے تھے حیران رہ گئے کہ خالدؓ آسمان سے ٹپکے ہیں یا زمین سے نکل آئے۔ اجنادین میں رومیوں کی شکست میں خالدؓ بن ولید کے اس عجوبہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔
مختصر یہ ہے کہ رمضان کے روزے بلاشبہ لائق اجر عبادت ہیں مگر بذاتہ روزوں کی بھوک پیاس مقصود نہیں ہے کہ اللہ کے خزانہ کو رزق میں اور روزہ داروں کے مہینہ بھر بھوکے پیاسے رہ جانے سے کوئی کفایت نہیں ہو جاتی بلکہ ان کا اصل مقصد ضبط نفس کی تربیت ہے کہ اللہ کے دین کو برپا کرنے اس کو قائم و مستحکم کرنے کی جدو جہد میں اگر زحمتیں برداشت کرنی پڑیں آرام و آرائش کو ترک کرنا پڑے خواہش نفس کو مسترد کرنا پڑے اور سخت محنت و مشقت کا مرحلہ آجائے تو اللہ کی خوشنودی اور رسول اللہ کی رضامندی کے لیے ساری سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرنے کی اور کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی صبر و استقلال اور سکون قلب کے ساتھ کام کرتے رہنے کی عادت رہے اگر اس مقصد کو نظر انداز کر دیا جائے تو روزے روزے نہیں رہتے فاقے بن جاتے ہیں۔