الوداع اے ماہ رمضان الوداع

561

ہو سکتا ہے آپ جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہوں اس دن آخری روزہ ہو یا عید کے بعد کا کوئی دن ہو، رمضان آتے وقت تو ہم استقبال رمضان کے پروگرام کرتے ہیں معاشرے میں ایک ماحول سا بنتا ہے لیکن اس ماہ کی جدائی کے وقت کوئی سرگرمی یا بات نظر نہیں بس لوگ عید کی پر مسرت فضائوں میں گم ہوجاتے ہیں ہم نے سوچا چلو اسی بہانے کچھ پرانی یادیں تازہ ہو جائیں۔ ماہ صیام کے آنے کی جتنی خوشی ہوتی ہے اتنا ہی اس کے جانے کا غم بھی ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے کوئی قریبی رشتہ دار اپنی فیملی کے ساتھ شہر کے باہر سے آتے ہیں وہ جب جانے لگتے ہیں تو ایک غم و افسوس کی گداز لہر تو جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک دور وہ تھا جب ہمارے گھروں میں ٹی وی عام نہیں ہوا تھا بعد میں تو سحر و افطار کے وقت لوگ ٹی وی آن کرکے بیٹھ جاتے اور اسی سے وقت دیکھ کر سحری ختم اور روزہ کھولتے تھے۔ اس دور میں سائرن کی بڑی اہمیت ہوتی تھی سائرن تو اب بھی بجتا ہے لیکن اب لوگ اپنے پاس موبائل رکھ کر افطار و سحری کرتے ہیں ورنہ ہمیں یاد ہے کہ سحری کے وقت محلے میں ایک چہل پہل سی محسوس ہوتی تھی لوگ ایک دوسرے کے گھرں میں آواز دے کر سحری کے لیے اٹھاتے تھے۔ سردی کی راتوں میں محلے کے بچے جگہ جگہ کچھ پرانی لکڑیاں اور کاغذ جمع کر کے اس میں آگ لگاتے اور سردی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔ ٹائم پیس میں لوگ الارم تو لگاتے تھے لیکن الارم بج کے ختم ہوجاتا لوگوں کی آنکھ نہیں کھل پاتی اس لیے کبھی کبھی بے سحری کے روزے ہوجاتے اس لیے اکثر پڑوس کے لوگ یہ خدمت انجام دیتے کہ وہ سحری کے لیے اٹھا دیتے تاکہ کسی کا بے سحری کا روزہ نہ ہوجائے۔
اب جب پرانی باتیں یاد آرہی ہیں تو اس میں ایک بات یہ ہوتی کہ ہمارے محلے کی بعض مساجد سے سحری کے وقت اٹھانے کا فریضہ انجام دیا جاتا پھر لائوڈ اسپیکر پر نعتیں پڑھی جاتیں اور وقفے وقفے سے یہ بھی اعلان ہوتا رہتا کہ اب سحری ختم ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی پھر دس منٹ بعد اعلان ہوتا کہ اب بیس منٹ باقی آپ لوگ جلد از جلد سحری کرکے مسجد میں نماز کے لیے آجائیں۔ سحری اٹھانے والے بھی ڈھول تاشوں کے ساتھ آتے اب یہ نہیں آتے بلکہ عید سے ایک دو دن پہلے ڈھول پیٹتے ہوئے سحری میں نہ اٹھانے کا معاوضہ لینے آجاتے ہیں لوگ کہتے بھی کہ یار تم لوگ پورے مہینے تو نظر نہیں آئے اب پیسہ اکھٹا کرنے آگئے۔ ہاں ایک صاحب سحری میں بڑے پیارے انداز میں اٹھاتے ان کے پاس وائلن ٹائپ کی کوئی چیز ہوتی جس میں بڑی دلکش دھن چل رہی ہوتی اور اسی موسیقی کی آواز کے دوران وہ کہتے روزداروں اٹھو۔۔۔ پھر بڑی اچھی لے میںجملے کو کھینچ کر کہتے اور نبی جی کے پیارے۔۔۔ اٹھو بچپن سے جوانی تک ہم ان سریلی دھنوں اور آوازوں کے اسیر رہے رات کے وقت کچی نیند میں جب یہ آواز کانوں میں پڑتی ایسا لگتا دماغ میں کوئی گدگدی کررہا ہو دلچسپ بات یہ ہے کہ عید کے دن کبھی نظر نہیں آئے یا ہم نے نہ دیکھا ہو جو بات مجھے یاد آئی وہ یہ کہ مساجد میں پچیس رمضان کے بعد رمضان کی الوداعی نظمیں بڑے دلسوز انداز میں پڑھی جاتیں کہ اس کو سننے کے بعد دل گرفتگی کی کیفیت رہتی۔ پاکستان میں اوسط عمر ساٹھ باسٹھ سال ہے ساٹھ سال کے بعد بونس کی زندگی ہے اور ستر سال کے بعد تو سپر بونس کہ رمضان کی جدائی کے غم کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں کلبلاتی رہتی کہ پتا نہیں اگلے سال رمضان ہمیں ملے یا نہ ملے۔ اسی لیے ہر نماز اور افطار کے موقع پر یہ دعا ہر فرد مانگتا ہے کہ اے اللہ تو اسی رمضان کو ہمارے لیے مغفرت اور نجات کا ذریعہ بنا دے۔
ابھی ہم ان سوچوں میں گم تھے کہ فیس بک پر مولانا طارق جمیل کا ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں آپ بیان کررہے تھے چار لوگ ایسے ہیں جن کی رمضان میں وہ چاہے کتنی ہی عبادت کرلیں ان کی مغفرت نہیں ہوگی۔ ایک ہے حقوق اللہ اور ایک ہے حقوق العباد حقوق اللہ میں کوئی کمی کوتاہی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کی جائے تو وہ معاف فرمادے گا لیکن حقوق العباد میں جب تک بندہ معاف نہیں کرے گا اس وقت تک معافی نہیں ملے گی حالانکہ حقوق العباد میں بالواسطہ طور پر حقوق اللہ ہی کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن چونکہ درمیان میں بندہ آگیا اس لیے جب تک بندہ معاف نہیں کرے گا اللہ بھی معاف نہیں کرے گا دور نبوت کا ایک واقعہ ہے کہ ایک نوجوان سکرات کے عالم میں تھا دم نہیں نکل رہا تھا۔آپؐ نے اس کی ماں کو بلایا اور کہا کہ اس کو معاف کردو بڑھیا نے انکار کردیا اور کہا کہ اس نے مجھے بہت ستایا ہے میر بڑا دل دکھایا ہے میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گی آپ نے دوبارہ کہا وہ نہیں مانی پھر آپؐ نے کہا کہ لکڑیاں جمع کرو اور اس میں اس کو ڈال دو ماں چیخ اٹھی کہ اس کو کیوں جلانے جارہے ہو جواب دیا گیا کہ اسے وہاں جاکر بھی جلنا ہی ہے اس ماں نے پھر اپنے بیٹے کو معاف کردیا پھر آپ نے بھی اس کے لیے دعا کی۔ اس میں اصل نکتہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ دونوں ہستیوں نے اس خاتون کے سامنے سرنڈر کرلیا یعنی اللہ کو معاف کرنے کا اختیار تھا اور محمدؐ کو معافی کی دعا مانگنے کا اختیار تھا لیکن جب تک بڑھیا نے معاف نہیں کیا آپؐ نے اس کے لیے دعا نہیں کی۔ جن چار لوگوں یا شعبوں کی بات کی گئی ہے ان چاروں کا تعلق دیکھا جائے تو حقوق العباد سے ہے چار لوگوں میں ایک وہ جو والدین کا نافرمان ہو وہ چاہے رمضان میں کتنی ہی تہجد پڑھ لے کتنی ہی عبادت کرلے اگر وہ ماں باپ کا نافرمان ہے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی یہ وہی بات ہے جو
حدیث جبرائیل میں ہے کہ تین لوگوں کے بارے میں جبرائیل نے بددعا کی اور آپؐ نے آمین کہا پہلی بات یہی جس نے اپنی زندگی میں والدین یا کسی ایک کو پایا اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکا پھر کہا تباہ و برباد ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ کا نام آئے اور وہ درود نہ پڑھے تیسرے وہ فرد تباہ ہوجائے جس کی زندگی میں رمضان آئے اور وہ اس کے ذریعے سے جنت نہ حاصل کرسکے۔ اب دیکھیے جن چار لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ رمضان میں ان کی بخشش نہیں ہوگی اس میں ایک والدین کی نافرمانی کرنے والا دوسرا شراب پینے والا تیسرا صلہ رحمی نہ کرنے والا اور چوتھا کینہ رکھنے والا اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ان چاروں کا تعلق حقوق العباد سے ہے والدین کی بات ہو گئی شراب پینے والے کو جو پیسے اپنے والدین بیوی بچوں اور رشتہ داروں میں غریبوں کی مدد کے لیے خرچ کرنا چاہیے وہ اس حرام کام میں خرچ کرکے ان سب کے حقوق سلب کررہا ہے دوسرے وہ معاشرے میں برائیوں کے فروغ کا سبب بن رہا ہے تیسرے کبھی زیادہ مے نوشی کی وجہ سے وہ جو گھر اور محلے میں غل غپاڑہ کرتا ہے وہ سب کی ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ صلہ رحمی کا تعلق تو سو فی صد حقوق العباد سے ہے کہ اگر ہم اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک نہیں کریں گے اور خاندان میں جو لوگ معاشی دوڑ دھوپ میں پیچھے رہ گئے ہوں ان کی مدد نہیں کریں گے معاشرے میں نفرت اور غصہ بڑھتا رہے گا جو بعض اوقات جرائم کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔ کینہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بارے میں نہ صرف اپنے دل میں برائی رکھنا بلکہ اسے ہر وقت نقصان پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہنا اور سوسائٹی کی نظروں میں اس گرانے کی کوشش کرنا اور اسی طرح کے دوسرے عوامل اس میں شامل ہیں۔