ایک اور خوشنما اعلان

343

 

وزیراعظم پاکستان کے دورہ سعودی عرب کے ساتھ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے جس کے مطابق سعودی عرب پاکستان میں ۵ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس سرمایہ کاری کا پہلا مرحلہ جلد مکمل کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی غزہ اور کشمیر کے معاملات بھی زیر بحث آئے اور کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات پر زور دیا گیا۔ جبکہ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے اور بلا روک ٹوک انسانی امداد کی فراہمی پر بھی زور دیا گیا۔ اس موقع پر شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر اس کے غیر قانونی اقدامات روکنے کے لیے دبائو بڑھائے تا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے باز آجائے۔ اس اعلامیے کے دو پہلو ہیں ایک تو پاک سعودی تعلقات اور دوسرے فلسطین و کشمیر، جہاں تک پاک سعودی تعلقات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلانے میں سعودی عرب کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے اور شہباز شریف نے سعودی سرمایہ کاری کے جس پیکیج کی بات کی ہے یقینا وہ بھی پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ پاکستان، امریکا، برطانیہ، عرب ممالک اور کئی عالمی مالیاتی اداروں سے سرمایہ کاری اور امداد کے کئی معاہدے اور منصوبے منظور کراچکا ہے اور ہر مرتبہ ان اعلانات کا نتیجہ وہ نہیں نکلتا جو اعلان کے وقت بتایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی خدشات بہت زیادہ ہیں پھر بھی امیدیں موجود ہیں۔ ہماری قوم کی عادت ہے کہ ہر اعلان کو سچی خبر سمجھ کر یقین کرلیتی ہے اور کبھی ان اعلانات کا تجزیہ نہیں کرتی کہ کب کیا کہا گیا تھا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے امداد اور قرض لیتے وقت جو اعلانات ہمارے حکمران کرتے ہیں آج تک قوم نے ان اعلانات کا تجزیہ نہیں کیا کہ پاکستان کہاں تھا اور کہاں پہنچا۔ صرف سی پیک کو لے لیں اس کے آغاز سے اب تک تین حکومتیں آچکی ہیں اسے گیم چینجر کہا جارہا تھا تو اس گیم چینجر نے کیا گیم چینج کیا کہ پاکستان اب تک ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نہیں نکلا۔ بجلی مہنگی ہوتی جارہی ہے، گیس ناپید اور مہنگی ہورہی ہے۔ پٹرول اور ڈالر اوپر ہی جارہے ہیں۔ نواز حکومت، عمران حکومت یا اب شہباز کی باقاعدہ حکومت کا کوئی ماہر سی پیک کے ان خواص پر روشنی ڈال دے جن کے ذریعے ملک میں گیم چینج ہوگیا ہو۔ بجلی کی فراوانی ہو اور سستی ہوجائے۔ لوگوں کی فی کس آمدنی بہتر ہوگئی ہو یا ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگیا ہو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، ملک کا توازن ادائیگی خراب ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار ہے، مہنگائی زوروں پر ہے بیروزگاری میں اضافہ ہوگیا ہے ایسے میں کون سی پیک کو گیم چینجر تسلیم کرے گا۔ لیکن یہ ایک دوست ملک کا منصوبہ ہے اس کے بارے میں بات کرنے کا مطلب یہ نکالا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی کے خلاف بات کی جارہی ہے۔ اسی طرح اب میاں شہباز شریف نے جس پانچ ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بات کی ہے وہ یقینا ہوگی اور اس سے منصوبے بھی شروع ہوں گے لیکن اصل مسئلہ امداد، قرضہ یا منصوبہ نہیں ہے بلکہ خرابی ہماری طرف ہے۔ ان منصوبوں سے قوم اور ملک کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کون سا ایسا منصوبہ تھا یا ہے جو قومی خوشحالی کا سبب بنا ہو، گزشتہ پچاس برس سے تو قوم نعروں، وعدوں، اعلانات اور الزامات کی سیاست میں الجھی ہوئی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری ضرور ہوگی اور اگر یہ سرمایہ کاری پاکستان میں اپنی بہار دکھا دے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی گڑبڑ نہیں کی گئی۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ کھربوں ڈالر کے قرضے، کھربوں ڈالر کے منصوبے پہلے بھی پاکستان میں آچکے لیکن یہ سب بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم دنیا بھر میں جائیں، سرمایہ لائیں منصوبے بنائیں لیکن ان منصوبوں پر عمل درآمد ایمانداری سے کروائیں تو ملک ترقی کرسکتا ہے۔ دوسرا پہلو اسرائیل پر دبائو ڈالنے کا تھا، سعودی عرب اور پاکستان فوجی اعتبار سے اور مسلم دنیا کے اہم ملک ہونے کے ناتے خود بین الاقوامی برادری سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان، ترکی، ایران، سعودی عرب اور چند مزید عرب ممالک اسرائیل کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں اس کام کے لیے سب سے پہلے مسلم ممالک کی مشترکہ افواج کو حرکت میں لائیں اس فوج کے ذریعے امدادی سامان غزہ بھیجا جائے اور اسرائیل کو متنبہ کردیا جائے کہ ایک گولی بھی اس فوج پر چلی تو سخت جواب ملے گا۔ لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ ان میں سے کوئی حکمران اسرائیل کو ایسا جواب دینے کے لیے تیار نہیں۔ عالمی برادری کیا ہوتی ہے اگر یہی پچیس مسلم ممالک اسرائیل کا گھیرا تنگ کرلیں تو وہ اوقات میں آجائے گا۔ اس طرح کشمیر کے بارے میں بھارت سے مذاکرات نہیں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب پر زور دینا چاہیے تھا۔ کشمیر میں مظالم روکنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ چونکہ ۷۵ برس سے بھارت کو مظالم سے بزور نہیں روکا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب امریکا بھی پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کرو اور بھارت پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر پر مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو تو وہ اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ وزیراعظم صاحب وطن واپس آکر اس بات کی ضمانت دیں کہ اب کسی منصوبے میں بدعنوانی نہیں ہوگی۔ پھر یہ اعلانات عمل کے سانچے میں ڈھل سکیں گے ورنہ یہ ایک اور خوشنما اعلان ہی ثابت ہوگا۔