عزت اور قومی ذمے داریاں

301

اے ابن آدم قائداعظمؒ نے فرمایا اداروں کی عزت نہیں ذمے داریاں ہوتی ہیں اور عزت قوم کی ہوتی ہے۔ کیا 76 سال میں ہم نے اپنے قائد کے فرمان پر عمل کیا اداروں کو ہی لے لو کون سا ادارہ ایسا ہے جو ایمانداری سے اپنی ذمے داری ادا کررہا ہے، بغیر رشوت عام آدمی کا جائز کام تک نہیں ہوتا، ترقیاتی کاموں میں رشوت لی جاتی ہے، مکان کی تعمیر کے لیے نقشہ پاس کرانے سے جو رشوت شروع ہوتی ہے آخر تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، اس میں علاقے کی پولیس بھی حصہ دار بن جاتی ہے، علاقے میں پانی کی لائین لینی ہو تو 3 سے 4 جگہ رشوت دینی پڑتی ہے، علاقے کی پولیس وہاں سے بھی اپنا حصہ وصول کرلیتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے دوست ملک چین کے انجینئرز تک کی حفاظت نہیں کی جبکہ وہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر پر کام کرنے آئے، جگ ہنسائی ہورہی ہے، حال ہی میں بے شمار پاکستانی یو اے ای اور سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہو کر واپس آئے وہاں پر یہ بھیک مانگتے تھے، یہ ہے ہماری قوم جو ملک کی عزت نیلام کررہی ہے۔ دوسری طرف ایک چھوٹی سی خبر میری نظر سے گزری جس کو پڑھ کر سرفخر سے بلند ہوا۔ 17 سالہ پاکستانی محمد شہیر کو شاید کوئی نہیں جانتا یہ وہ نوجوان ہے جس نے فزکس میں ایک ریسرچ آرٹیکل لکھ کر دنیا کو حیران کر ڈالا، ایسے ہی لاہور کی زارا نعیم نے اے سی سی اے میں 179 ممالک کے 527000 اسٹوڈنٹس میں ٹاپ کیا لیکن ہمارے میڈیا کو اس کی خبر نہیں کیونکہ ہمارا میڈیا ہر وقت ملک و قوم کا منفی پہلو اجاگر کرتا ہے۔

اس وقت جماعت اسلامی کا سماجی ونگ الخدمت جہاں پورے ملک میں سماجی کام کررہا ہے وہاں وہ غزہ میں بھی عوام کی خدمت کررہا ہے۔ روزانہ بڑی مقدار میں کھانا ترسیل کیا جارہا ہے، دوسری طرف کراچی میں بدامنی عروج پر ہے۔ ڈاکو آزادی سے علاقوں میں وارداتیں کررہے ہیں اور پولیس ہر سال کی طرح عوام سے عیدی وصول کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ چند دن پہلے ہمارے ممتاز شاعر اختر سروش بھائی کے نوجوان بیٹے کو بے رحم ڈاکوئوں نے شہید کردیا یہ بدبخت رقم لے کر فرار ہوجائیں مگر یہ گولی چلاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے جری و بہادر سپوت سید حامد علی یوسی ایک سرسید نازش اپارٹمنٹ علاقہ شادمان کے رکن جماعت سیکٹر 14B میں ڈکیتوں سے مزاحمت کرتے ہوئے گولیوں کا شکار ہوگئے، آخر یہ قتل و غارت گری کا ذمے دار کون ہے۔ سوال اٹھا ہے پولیس پر آخر وہ کر کیا رہی ہے بس علاقے میں گٹکا بنانے والوں کو پکڑ رہی ہے اور لاکھوں روپے لے کر چھوڑ دیتی ہے ٹریفک پولیس کا بھی یہی حال ہے 4 سے 5 ٹریفک پولیس والے ڈبل روڈ کے ہر کونے پر کھڑے ہو کر شکار تلاش کرتے رہتے ہیں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے بجائے ملک و قوم کے وقار کو مجروح کرتے نظر آتے ہیں ملک میں عوام کے ساتھ تاریخی فراڈ ہورہا ہے۔ حکومت اور عدلیہ نے خاموشی اختیار کررکھی ہے، پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار 48 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ لاگت 26 ہزار میگاواٹ جبکہ بجلی کے بلوں میں عوام سے ایک لاکھ 75 ہزار میگاواٹ کی قیمتیں وصول کی جارہی ہیں۔ اس میں پیپلز پارٹی، متحدہ، مسلم لیگ (ن) برابر کے شریک ہیں مگر افسوس ہر بار ان پر اسٹیبلشمنٹ ہاتھ رکھ کر ان کو اقتدار میں لے کر آجاتی ہے۔ بقول انصار عباسی جو انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ کیسے عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کو روکا جائے؟ کیسے اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار ختم کیا جائے؟ یہ وہ مشکل سوال ہے جس کا جواب یا حل کسی کے پاس نہیں یہ وہ معاملات ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں ہر کچھ عرصے کے بعد سر اٹھاتے ہیں، ان واقعات پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے، کمیشن بنتے ہیں، حکومت اور عدلیہ حرکت میں آتے ہیں لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے یہ سارا کھیل کسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے یا ہٹانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

عوام باشعور ہوتے جارہے ہیں۔ سب نے دیکھا کہ کس طرح سے نواز شریف اور ان کی فیملی کے تمام کیس ختم ہوتے چلے گئے، عمران خان پر کیس پر کیس بنا کر ان کو اندر کردیا گیا اور الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ عوام کا فیصلہ تھا مگر راتوں رات اس فیصلے کو تبدیل کرکے من پسند لوگوں کو اقتدار دے دیا جاتا ہے، آج عدالت عظمیٰ میں 6 ججوں کے خط پر سوموٹو کیس سنا گیا۔ ایک جج نے کہا کہ یہ تاثر ہے کہ اس وقت کی عدالت عظمیٰ بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کا حصہ تھی۔ اگر عدالتی اور سیاسی معاملات میں ایجنسیوں یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو روکنا ہے تو ایک مشکل راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے ایجنسیوں، عدلیہ اور سیاست سے تعلق رکھنے والے تمام ذمے داروں کو ایک ساتھ کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اس میں ایک طرف اگر کسی جنرل سے جوابدہی ہوگئی تو عدلیہ کے کسی نہ کسی چیف جسٹس اور بڑے جج کو بھی سوالوں کے جواب دینے ہوں گے تو پھر اس کھیل میں شریک سیاسی رہنما یعنی کسی نہ کسی وزیراعظم کا بھی احتساب ہونا لازم ہوگا تا کہ عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے درمیان نیکس (nexus) کو توڑا جائے جو عدلیہ اور سیاست میں اس قسم کی غیر آئینی مداخلت کا باربار سبب بنتا ہے۔ میں انصار عباسی کی آخر کی رائے کو تسلیم کرتا ہوں کہ ملک و قوم کے وقار کے لیے ملک کے استحکام کے لیے ملک و قوم کی ترقی کی خاطر قائداعظمؒ کے پاکستان کی خاطر تمام فریق ماضی کی اپنی غلطیاں تسلیم کرکے ایک ایسے چارٹر آف گورننس اینڈ رول آف لا پر اتفاق کریں جس میں ہر فریق پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہ کر پاکستان اور عوام کی ترقی اور فلاح کے لیے کام کریں گے، اور ایمانداری سے کریں گے، اس چارٹر میں کسی بھی فریق کی طرف سے کسی بھی خلاف ورزی کے تدارک کا حل بھی موجود ہونا چاہیے اگر تمام ادارے سدھرنے کے لیے تیار ہوں گے توہی بحیثیت قوم ہم سدھر سکیں گے ورنہ یہ دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ انصار عباسی صاحب آپ کی رائے اچھی ہے، یہ کیس ایک نئی تاریخ رقم کرسکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ کون پہلے قربانی دے گا، ملک و قوم کی خاطر سب کو پاکستان کے وقار کے لیے سوچنا ہوگا پاکستان ہے تو ہم ہیں اور یہ ادارے ہیں آخر میں نئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو ابن آدم نئی ذمے داری پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔