بائیڈن نے شہباز کو خط لکھا

447

خط 139 الفاظ پر مشتمل ہی سہی، پھر بھی مبارکباد تو بنتی ہے۔ کہاں عمران خان ایک فون کال کے لیے امریکا سے کشیدہ کشیدہ رہتے تھے کہاں شہباز شریف کے لیے امریکا کشیدہ کاری کا پورا دسترخوان سجا بیٹھا۔ خط لکھ مارا۔ امریکی انداز ’’خیر سہ گالی‘‘ کہیے یا امریکی تعلق کی پائیداری کہ صدر بائیڈن کے آفس سے اس خط کے بارے میں کچھ کہا گیا اور نہ وزیراعظم شہباز شریف کے آفس سے بلکہ اسے پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ خط کی خبر سنتے ہی وزیراعظم شہباز اتنے خوش ہوئے کہ اس دن خط بنانا ہی بھول گئے۔ پاکستان کے وزرائے اعظم کا ہی نہیں خود پاکستان کا امریکا کے باب میں یہی حال ہے:

بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا

شہباز شریف پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں صدر بائیڈن نے جن سے نامہ وپیام کیا ہے۔ عمران خان خط تو کجا ایک فون کال کے لیے ترستے ترستے چلے گئے۔ شہباز شریف سے بھی صدر بائیڈن خط میں کچھ زیادہ فرینڈلی نہیں ہوئے۔ انہیں الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دی اور نہ دوبارہ وزیراعظم بننے پر۔ جمہوریت کا بھی کوئی ذکر نہیں حالانکہ امریکا خود کو جمہوریت کا باپ سمجھتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا جو حال کیا گیا ہے اس پر جمہوریت کی صرف عیادت ہی کی جاسکتی ہے یہ الگ بات کہ جمہوریت ہے اسی قابل۔ جمہوریت کی جیسی تعریف خواجہ معین الدین نے کی ہے وہ کمال ہے۔ طلبہ سے پوچھا ہمایوں اور اکبر میں باپ کون تھا؟ طلبہ کی اکثریت نے جواب دیا ’’اکبر‘‘ سو خواجہ صاحب نے لکھا ’’جمہوریت کی روسے اکبر ہمایوں کا باپ تھا‘‘۔ جمہوریت کے باب میں پاکستان کا ہی نہیں اب تو دنیاکا یہی حال ہے:

بھول جانا نہیں گناہ اسے
یاد کرنا اسے ثواب نہیں

خط میں خیر خیریت پو چھی گئی ہے اور نہ کوئی زیبا یا نازیبابات کہی گئی ہے۔ یہ ایسا خط ہے جو نام کی تبدیلی کے ساتھ کسی کو بھی لکھا اور بھیجا جاسکتا ہے۔ غالب نے خطوط نویسی کے باب میں کہا تھا ’’سو کوس سے بہ زبان قلم باتیں کیا کرو اور ہجر میں وصال کا مزہ لیا کرو‘‘ اس خط میں وصال کا تو کہیں ذکر نہیں البتہ ہجر ہی ہجر ہے وہ بھی دفتری سطح کا۔ اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو خط ملاحظہ کیجیے۔ ہماری انگلش ایسی ہے کہ ہم انگلش کا امتحان بھی اردو میں ہی دینا پسند کرتے تھے۔ اس لیے گوگل سے ترجمہ کیا ہے

’’محترم جناب وزیراعظم:
ہماری قوموں کے درمیان پائیدار شراکت داری ہمارے لوگوں اور دنیا بھر کے لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے اور امریکا ہمارے وقت کے سب سے اہم عالمی اور علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

اس میں صحت کی بہتر حفاظت، اقتصادی ترقی، اور سب کے لیے تعلیم تک رسائی کے مستقبل کے لیے ہمارے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانا شامل ہے۔ ہمارے یو ایس پاکستان ’’گرین الائنس‘‘ کے فریم ورک کے ذریعے، ہم اپنی آب و ہوا کی لچک کو مضبوط بنانے، پائیدار زراعت اور پانی کے انتظام کی حمایت، اور 2022 میں تباہ کن سیلاب سے پاکستان کی بحالی میں مدد کرتے رہیں گے۔ پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کو فروغ دے گا۔

مل کر، ہم اپنی قوموں کے درمیان مضبوط شراکت داری، اور اپنے لوگوں کے درمیان قریبی رشتہ قائم کرنا جاری رکھیں گے۔

مخلص،

جوزف آر بائیڈن جونیئر‘‘

خط میں امریکا گلاس کا نہیں بلکہ کلاس کا استاد محسوس ہوتا ہے۔ وہ باتیں ہیں جو وہ ساری دنیا کی کلاس لینے کے لیے کرتا ہے۔ گلاس وہ اسرائیل اور بھارت جیسے دوستوں کے ساتھ شیئرکرتا ہے۔ صحت کی بہتر حفاظت، اقتصادی ترقی اور سب کے لیے تعلیم تک رسائی یہ وہ چُسنیاں ہیں جنہیں ساری دنیا کو چپ کرانے کے لیے امریکا بانٹتا رہتا ہے۔ ہمارے یہاں ان تینوں شعبوں پر حکومت کی مدد سے قبضہ گروپوں کا قبضہ ہے امریکا کا اتحاد بھی جنہیں میڈیکلی ان فٹ نہیں کرسکتا۔ ماحولیات کے حوالے سے گرین الائنس کا جہاں تک تعلق ہے تو اس میں پانی کے انتظامات پر شراکت داری ممکن نہیں۔ اس سے بڑے بڑے وڈیروں، زمینداروں، جاگیرداروں سے لے کر پیارے فوجی بھائیوں کے وسیع وعریض قطۂ اراضی زد پر آسکتے ہیں۔ بہ حیثیت قوم جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک امریکا کی قریبی رشتہ قائم کرنے کی خواہش کا تعلق ہے تو پچھلے 75برس سے اوپر چندا ماموں ہے، نیچے سام انکل اور درمیان میں سام انکل کے ایجنٹ سول اور فوجی حکمران۔ اس سے زیادہ قریبی رشتہ کیا ممکن ہے۔

صدر بائیڈن کا خط ایسا ہی ہے جیسے کسی حسینہ نے سوائے جوتوں کے کچھ بھی نہ پہنا ہوا ہو لیکن پھر بھی وزیراعظم شہباز شریف سنجیدہ ہو گئے۔ 31مارچ کو خط کے جواب میں انہوں نے فرمایا ’’اسلام آباد علاقائی اور عالمی امن کے مشترکہ اہداف کے لیے واشنگٹن سے بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کے علاقائی اور عالمی امن کے اہداف کیا ہیں؟ علاقائی امن کے حوالے امریکا کے اہداف بھارت کی بالادستی ہے۔ امریکا کے لیے خطے میں امن کی واحد صورت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور پورے ہندوستان میں بھارت جب اور جتنا چاہے مسلمانوں پر ظلم کرے اور ہندو ریاست کے بدترین مظالم کے باوجود پاکستان اسے چیلنج نہ کرے۔ رہا عالمی امن، اس کے حوالے سے امریکی وژن دنیا پر آشکار ہے۔ امریکا کی مدد سے اسرائیل فلسطین میں مسلمانوں پر بربادی اور قتل وغارت کے پہاڑ توڑتا رہے لیکن دنیا خاموشی کے ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے نہ صرف دیکھتی رہے بلکہ اس عظیم مقصد کے حصول میں اسرائیل کی مدد بھی کرتی رہے۔

سمجھ میں نہیں آتا وزیراعظم شہباز شریف واشنگٹن سے کن معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ بھارت کو ہم نے پہلے ہی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں پر جتنے چاہے ظلم کرے ہم چوں نہیں کریں گے۔ فلسطین کے معاملے میں بھی پاکستان سمیت عالم اسلام کے تمام ممالک نے یہودی وجود کو فلسطین فتح کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے۔ بظاہر وہ دو ریاستی حل میں سہولت کار کا فرض ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن فی الحقیقت وہ فلسطین کے بیش تر حصے کو یہودی وجود کے سپرد کرنے کے امریکی منصوبے میں رنگ بھر رہے ہیں۔ پاکستان سمیت تمام مسلم قیادتیں خالی خولی مذمتوں اور مسلم مسلح افواج کو بیرکوں تک محدود کرکے قابض یہود کو کھلی چھوٹ مہیا کررہے ہیں۔ علاقائی اور عالمی امن کے لیے پاکستان اس سے بڑھ کر امریکا کی اور کیا مدد کرسکتا ہے جس کے لیے شہبازشریف امریکا سے بات چیت کے خواہاں ہیں؟؟