اعتکاف اور زندگی

398

بیسویں رمضان کا آفتاب غروب ہوا تو عالم اسلام میں ان گنت لوگوں نے خود کو تجلی کے گوشوں میں معتکف کرلیا۔ مساجد میں اعتکاف کی نیت کے ساتھ گوشہ نشین ہوگئے۔ شب و روز کے سفر میں تزکیہ نفس اور خدا کی حضوری۔ خیال یار جنہیں آخر شب بے خواب رکھتا ہے انہیں علم ہے تنہائی میں آنسوؤں کے تار کیسے بندھتے ہیں، چشم نم اور سوز دل کیسے اشکبارہوتے ہیں، گناہوں کا احساس کیسے ندامت میں ڈھلتا ہے۔ اور وہ جو ہم سے قریب اور بہت قریب ہے کیسے قلب و روح کے منظر بدلتا ہے اور بندہ بصد نیاز اس کے کرم کو صدا دیتا ہے ’’اے وہ بہترین ذات جس کو پکارا جائے اور جو قبولیت سے ہمکنار کرے بدترین گناہوں کی معافی کی امید کے ساتھ میں حاضر ہوں۔ اپنی رحمت عطا فرمائیے‘‘۔ اعتکاف روز و شب کی وہ برگزیدہ ساعتیں ہیں جب بندہ سب کچھ چھوڑکر خود کو وحی کی رم جھم اور مالک عرش بریں کے سپرد کردیتا ہے اور امید رکھتا ہے:

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے۔ ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں‘‘۔

بندہ عبادت کے قافلہ نور میں شامل ہوتا ہے تو ایک ایسی ذات کا احساس دل میں بیدار ہوتا ہے جس کی قدرت بے کنار اور رحمت بے حساب ہے۔ تب مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس مردہ کھیتی کی طرح جو سرسبز ہوجائے۔ انسان اس قائم و دائم کے آگے سربہ سجود ہوتا ہے تو وہ ربّ کریم دل بینا عطا کرتا ہے۔ باب ہدایت وا ہوجاتے ہیں۔ قرآن کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی فرمایا کرتے تھے ’’قرآن بہار ہے اور رمضان موسم بہار‘‘۔ اس موسم بہار میں اللہ کی رحمت ساری دنیا کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اس ذات گرامی محمد عربیؐ کے صدقے جو سب میں عالیٰ مقام ہیں جن کی درس گاہ کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ یہاں سے اہل علم کا ایک ایسا نورانی سلسلہ آغاز ہوتا ہے جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔

رحمت عالمؐ نے ایک ایسے معاشرے میں علم کے آفتاب روشن کیے جو لکھنے پڑھنے کے تصور سے بھی ناآشنا تھا۔ جہل کے اندھیر ہر طرف احاطہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن جب آپؐ دنیا سے تشریف لے گئے تو صحابہ کرامؓ کی وہ روشن جماعت جس میں نوجوان بھی تھے اور عمر رسیدہ اور ضعیف بھی ان میں کوئی ایسا نہ تھا جو لکھنے پڑھنے سے واقف نہ ہوں۔ دوسری طرف عہد حاضر میں تمام تر تحقیقات جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے باوجود لوگوں کی کتنی تعداد ہے جو خواندہ ہے۔ صحابہ کرام کی عظیم تعداد محض خواندہ نہیں تھی بلکہ وہ بلند پایہ علمی شخصیات تھیں۔ سیدنا ابن مسعودؓ پہلے مدینے میں بکریاں چرایا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کی بدولت کوفہ علم کا مرکز بن گیا۔ مدینے کے کاشت کار اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے قرآن کریم کی سات یا دس قرآتوں کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔

عالی مرتبتؐ نے قرآن و حدیث کی تعلیم کا آغاز ایک ایسے چبوترے سے کیا تھا جس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی۔ کھانے کا انتظام بس اس قدر کہ لوگ کھجور کے خوشے ایک جگہ آویزاں کردیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام بقدر ضرورت چند کھجوریں تناول فرماکر بقیہ دوسرے کے لیے رہنے دیا کرتے تھے۔ ایک اجڈ معاشرے میں قائم اس درس گاہ سے نابغہ روزگار علماء کرام کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو تا ابد اطراف عالم میں روشنی پھیلاتی رہے گی۔ رضی اللہ عنہم و رضو عنہ۔ جب تک نسیم سحر چلتی اور شاخیں جھومتی رہیں گی اللہ کا آپؐ پر درود وسلام ہو۔ آپ دنیا سے کوچ فرماگئے مگر آپؐ کے بعد آپ کے نظام کی بنیاد پر ہزاروں درس گاہیں قائم ہوئیں جہاں ہزاروں لاکھوں اہل علم تیار ہوئے سیکڑوں ریاستیں وجود میں آئیں بہت سے تہذیبیں آغاز ہوئیں۔ ایک مصنف لکھتے ہیں:

’’محمدی درس گاہ وہ واحد درس گاہ تھی جس نے انسانی کمالات اور صلاحیتوں کو اعلیٰ ترین مقام تک پہنچایا۔ جس نے بھی اس درس گاہ کا رخ کیا اسے اپنی قلبی روحانی، عقلی اور دیگر تمام صلاحیتوں کوممکن ترین حد تک ترقی دینے میںکامیابی ہوئی‘‘۔

جرمن شاعر گوئٹے نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’عالم اسلام میں بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے لیکن عالم اسلام نے ان میں سے صرف پانچ کو اہمیت دی۔ رومی، حافظ، فردوسی، انوری اور نظامی۔ اور دیگر شعراء کو نظرانداز کردیا۔ حالانکہ ان میں ایسے ایسے ادباء گزرے ہیں کہ میں ان کی باقاعدہ شاگردی کرنے کا خواہش مند ہوں‘‘۔ یہ پانچوں شعراء خواہ ایرانی ہوں یا عربی ہوں، رسول اللہؐ کی درس گاہ کے شاگرد ہیں کیونکہ انہوں نے آپ کی درس گاہ کے علم ومعانی سے ہی اکتساب نور کیا ہے‘‘۔

یہ رمضان المبارک کے آخری روز و شب ہیں جو اعتکاف میں اور اپنے دل میں ذکر الٰہی کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف رمضان ہی میں ہم شوق و اشتیاق کے جذبات سے سرشار نہ ہوں بلکہ پورے سال پوری زندگی اور ’’زندگی کے تمام گوشوں میں‘‘ یہ جذبات ترو تازہ اور شگفتہ رہیں۔ اعتکاف کے ان چند دنوں کو ہم تا زندگی، زندگی کے تمام گوشوں پر پھیلادیں۔ ہمیں نماز، روزے، زکوۃ اور حج کے مسائل درپیش ہوں تو ہم علماء کرام سے رجوع کرتے ہیں لیکن اگر قومی بجٹ،

خارجی سیاست یا کوئی عدالتی بحران ہو تو ہم علماء سے رجوع نہیں کرتے اور اگر ان سے سوال کر بھی لیں تو وہ بھی تصویر حیرت بن جاتے ہیں۔ مساجد میں تحریر ہوتا ہے کہ یہاں سیاسی باتیں کرنا منع ہے۔ لیکن کیا نبی اکرمؐ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا۔ ہم دیکھتے ہیں صحابہ کرامؓ کو نماز، روزہ، حج، زکواۃ یا اسی نوع کا کوئی معاملہ پیش آتا تو وہ عالی مرتبتؐ سے رجوع فرماتے۔ ساتھ ہی خارجی سیاست، قومی بجٹ یا کوئی عدالتی معاملہ درپیش ہوتا تب بھی وہ رسالت مآبؐ سے رجوع فرماتے تھے۔ وہ ہر مسئلہ کے حل کے لیے سیدالمرسلینؐ سے رجوع فرماتے تھے، اسلام سے حل تلاش کرتے تھے لیکن ہمارے یہاں آج ہر مسئلے کے حل کے لیے اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ ہم نے اسلام کو محض کچھ عبادات اور اخلاقی معاملات تک محدود کردیا ہے۔ سیاست، معیشت، بجٹ، عدالت، جنگ اور دیگر معاملات کو ہم نے ایک ایسے ٹولے کے سپرد کردیا ہے جس کے لیے اسلام کُل نہیں بلکہ اسلامی ٹچز تک محدود ہے۔ جن کے لیے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسلام جن کے لیے ایک جزوی چیز ہے سورہ بقرہ آیت 85 میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا تم کتاب کے کچھ حصوں پر ایمان لائو گے اورکچھ کا انکار کردو گے تو کیا ہے اس کا نتیجہ سوائے اس کے کہ تم دنیا میں ذلیل ہو اور آخرت میں شدید عذاب کی طرف لوٹائے جائو‘‘۔ درود وسلام ہو سیدکونینؐ پر کہ خوبیوں کی ابتداء اور انتہا دونوں کا آپؐ نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ جس طرح چاہتے ہیں سخاوت پر آپ حکمرانی کرتے ہیں۔ آپؐ کے نور وحی اور مکتب فکر سے فراست اور فیصلے اخذ کرنے والے ہی نجات دہندہ ہیں۔ وہی ہیں جن کے دروازے پر تمام معاملات کے حل کے لیے دنیا دست بستہ کھڑی رہتی ہے۔