کبر، تکبر کا فروغ اور مغرب (آخری حصہ)

381

قوم پرستی اور نسل پرستی وہ نظریات ہیں معاشروں کو منظم اور مربوط کرنے کے لیے مغرب نے جن کا بے محابا استعمال کیا ہے۔ سفید آدمی کا بوجھ The White Man,s Burden بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک کی طرف سے اختیار کردہ وہ اصطلاح تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ سفید فام مغربی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ تہذیب، تعلیم اور عیسائی اقدار کو دنیا بھر میں کم ترقی یافتہ لوگوں تک پہنچائیں۔ تفریق کی بنیاد پر قائم یہ تصور متکبرانہ رویوں سے بھرا ہوا ہے اور ایسے ہی معاشروں کو جنم دیتا ہے۔

جمہوریت یعنی ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘ کے تصور کی بنیاد یہ ہے کہ انسان ایسے قوانین بنا سکتا ہے جو انسانوں کے لیے اچھے ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ خیال کہ چند منتخب انسان علم وحکمت کی اس معراج پر پہنچ چکے ہیں جو ایسے قوانین بناسکتے ہیں جو بلا تعصب تمام انسانوں کے لیے خیر اور بھلائی کا باعث بن سکتے ہیں اس کے لیے صرف تکبر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود اپنی پرستش کرتا ہو اور پھر اس نظام کا واحد آپشن کے طور فروغ کبر اور تکبر کے علاوہ بھی اور نہ جانے کن کن برائیوں کو فروغ دے سکتا ہے۔

سیکولر لبرل ازم کا مغربی سرمایہ دارانہ عقیدہ افادیت پرستی Utilitarianism جیسے نظریات کو جنم دیتا ہے جس کے نتیجے میں ہر صورت میں خوشی اور لذت کا حصول زندگی کا اوّل وآخر مقصد بن جاتا ہے جس کے لیے کسی فرد کو کوشش کرنی چاہیے۔ اس نظریہ کو عام طور پر لذت پرستی کی طرز hedonic-style کے اخلاقی نظریہ کی صورت پیش کیا جاتا ہے۔ افادیت پسندی کے مطابق وہ اعمال اچھے ہیں جو لوگوں کی اکثریت کی مجموعی خوشی اور فلاح وبہبود کو فروغ دیتے ہیں۔ اسے اکثر ’’خوشی کا سب سے بڑا اصول‘‘ یا جان اسٹورٹ مل کے بقول ’’افادیت کا اصول‘‘ کہا جاتا ہے۔

لذت پرستی Hedonism وہ فلسفیانہ مغربی نظریہ ہے جو انفرادی تسکین، لذت اور خوشی کو زندگی کا حتمی مقصد قرار دیتا ہے کہ لذتوں کو زیادہ سے زیادہ اور درد کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لذت پرستی اپنی اور افادیت پرستی کثیر افراد کے لیے خوشی اور لذت کے حصول پر زور دیتا ہے لیکن دونوں نظریات کا نتیجہ بالآخر متکبرانہ رویوں کی صورت نکلتا ہے کیونکہ دونوں نظریات اس سوچ کو فروغ دے رہے ہیں کہ انسانوں کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ خود ان کے لیے اور دوسروں کے لیے کیا بہتر ہے۔ یہ نظریات انسان کو شخصی آزادی اور خود مختاری کی ان راہوں پر لے جاتے ہیں کہ وہ بعض مراعات یا حقوق کو اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی رائے اور انتخاب کو دوسروں کی رائے سے برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ استحقاق کے اس احساس کا لازمی نتیجہ تکبر کی صورت نکلتا ہے۔

جیریمی بینتھم Jeremy Bentham انگریز فلسفی قانون دان اور سماجی مصلح جدید افادیت پسندی کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کسی بھی عمل کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ اس عمل سے حاصل ہونے والی خوشی یا لذت کو قراردیتا ہے۔ اپنی کتاب ’’اخلاقیات اور قانون سازی کے اصولوں کا تعارف‘‘ میں اس نے 12 تکالیف اور 14 خوشیوں کی درجہ بندی کی ہے جس کے ذریعے ہم کسی بھی عمل میں ’’خوشی کے عنصر‘‘ کو جانچ سکتے ہیں۔ ’’اکثر لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خوشی کا حصول ہی صحیح اور غلط کا پیمانہ ہے‘‘ یہی بینتھم کے فلسفے کے اصول کی بنیاد ہے۔ وہ مذہب کا پرعزم مخالف تھا۔ 1809 سے 1823 کے درمیان اس نے مذہب کا ایک مکمل جائزہ لیا تاکہ انسانوں کے ذہنوں سے مذہبی عقائد یہاں تک کہ مذہب کے خیال ہی کو ختم اور مکمل طور پر تباہ کردیا جائے۔

یہ وہ بنیادی نظریات ہیں جو مغربی معاشروں میں بہ تمام وکمال موجود ہیں اور وہاں سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں جن کا نتیجہ عاجزی کے فقدان، انفرادیت اور مسابقت پرزور، مادی قدر حاصل کرنے پر توجہ، ارادے کی مکمل آزادی یا Free will کا نظریہ، نسل پرستی اور قوم پرستی اور جمہوریت کی صورت میں عالمی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے۔ یہ نظریات انسان کو تکبر اور بالآخر کفر کی طرف لے جاتے ہیں۔

امام غزالی ؒنے احیاء العلوم الدین میں مخلوق میں کبر اور تکبر کے خاتمے کو فرض عین قراردیا ہے۔ مغربی تہذیب کے تعفن سے پوری دنیا میں کبر کی جو جدید شکلیں اور اقسام پھیل گئی ہیں اللہ کی آخری کتاب اور سنت نبوی میں ان کے لیے مخصوص علاج موجود ہیں:

لذت پرستی کے بارے میں اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں ’’جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے سب ضائع‘‘۔ (ہود: 15-16) سورہ کہف میں ارشاد ہے ’’تم فرمائو کیا ہم تمہیں بتادیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص اعمال کن کے ہیں۔ ان کے جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم ہوگئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کررہے ہیں‘‘۔ (103-104)

معاشرے میں انفرادیت کے بارے میں نظریہ یا معاشرے کو کس طرح کام کرنا چاہیے اس کے بارے میں رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’مسلمان (باہم) ایک آدمی کے جسم کی طرح ہیں، اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)

قوم پرستی اور نسل پرستی کے بارے میں اسلامی موقف کا خلاصہ رسول کریمؐ کی اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے ’’اسے چھوڑدو، یہ بدبودار ہے‘‘۔ (مسلم، بخاری) تقدیر کے باب میں قضاء والقدر کا معاملہ مسلمانوں کے عقیدے کا حصہ ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے فرمایا ہے ’’کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے‘‘۔ (الحدید 57:22) اور رسول اللہؐ نے فرمایا ہے ’’قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوچکے‘‘۔ (ترمذی)

عاجزی کے بارے میں عرض یہ ہے کہ عاجزی اسلام میں ایک انتہائی پسندیدہ خصوصیت ہے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور الرحمن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں‘‘۔ (الفرقان25:63)

زندگی کے مقصد کے بارے میں قرآن نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ صرف میری بندگی کریں‘‘۔ (الذریت: 51:56) انسانیت مغربی تہذیب اور اس کی انفرادی لذت کی متلاشی سطحی سوچ سے جن مصائب اور بے پناہ مشکلات سے دوچار ہے صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی ریاست خلافت ہی اس کے لیے مینارہ نور ثابت ہوگی۔