کبر، تکبرکا فروغ اور مغرب

452

پہلا حصہ
رمضان المبارک کا ایک ہفتہ گزرگیا۔ میں سوچ رہا ہوں میں کہاں ہوں۔ فرض کی حد تک تو الحمدللہ میں اس ماہ مقدس کے تقاضے نبھا رہا ہوں لیکن کیا میرا تعلق بالقرآن اس طرح قائم ہو سکا جیسا اس کا حق تھا۔ میری عادات، میرا مزاج کیا تبدیلی کے ان مراحل سے گزر رہے ہیں جیسا کہ روزے کے سبب ہونا چاہییں۔ کیا اس رمضان کے بعد بھی میری زندگی اور میرے معمولات ویسے ہی رہیں گے جیسا کہ قبل رمضان تھے۔ نظریاتی اور عملی طور پر کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا ہے جس پر میں نے غور کیا ہو اور اپنے آپ سے رجوع کیا ہو۔ نفرت، حرص، حسد، تکبر اور ان جیسی دیگر برائیاں جو زندگی کو بہت پست کردیتی ہیںکیا ان میں سے کسی ایک سے بھی نجات کی کوئی کوشش میں نے کی ہے؟ اس مضمون میں ہم تکبر یا کبر کے بارے میں بات کریں گے۔
اسلام میں تکبر کو بہت بڑا گناہ سمجھا گیا ہے۔ عالی مرتبتؐ کا فرمان ہے: وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو، ایک آدمی نے کہا: اگر آدمی یہ پسند کرے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اوراس کے جوتے اچھے ہوں؟ آپؐ نے کہا: اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی سے محبت کرتا ہے۔ تکبر کا مطلب ہے حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر دیکھنا۔ (مسلم)
امام غزالی ؒنے ’’احیاء العلوم الدین‘‘ میں فرمایا ’’تکبر دو طرح کا ہوتا ہے، ظاہری اور باطنی۔ باطنی تکبر (لوگوں پر) احساس برتری کا نام ہے۔ جب یہ (باطنی تکبر) اعمال سے ظاہر ہوتا ہے تو اسے ظاہری تکبر کہا جاتا ہے۔ ذہن میں برتری کا احساس کبر کہلاتا ہے۔ جب اس کا اظہار اعمال سے ہوتا ہے تو اسے تکبر کہتے ہیں۔ پس تکبر کی جڑ اور اصل پوشیدہ کبر ہے‘‘۔ ابن القیم نے اپنی کتاب ’’الفوائد‘‘ میں دعویٰ کیا ہے: ’’تمام گناہوں کی جڑ تین ہیں۔
1۔ تکبر: جس نے ابلیس کو شیطان بنادیا۔
2۔ حرص: (زیادہ سے زیادہ کی خواہش کرنا) جس نے آدمؑ کو جنت سے نکالا۔
3۔ حسد: جس نے قابیل کو اکسایا کہ وہ ہابیل کو مار ڈالے۔
پس جو شخص ان تین چیزوں سے محفوظ رہے گا وہ برائیوں سے محفوظ رہے گا کیونکہ کفر تکبر سے ہے، گناہ حرص سے ہیں اور ظلم حسد سے ہے‘‘۔
رسالت مآب آقا محمدؐ کا ارشاد ہے: ’’اگر تم گناہ نہ کرتے تو میں اس سے بڑی چیز سے ڈرتا، (تکبر کے سبب سے) اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنا‘‘۔ (مسند بزار، شعب الایمان)
ابن القیم کے نزدیک تکبرکی دو قسمیں ہیں:
1۔ خالق کے مقابلے میں تکبر کرنا: اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کے مقابلے میں تکبر وہ چیز ہے جو انسان کو کفر کرنے اور اللہ کی عبادت نہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے فرمایا ’’مگر ابلیس (شیطان) نے انکار کیا اور غرور میں آکر کا فر بن گیا‘‘۔ (البقرہ: 2:34) اور فرعون نے تکبر میں آکر یہ کہا ’’میں تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانتا‘‘۔ (القصص: 28:38)
2۔ مخلوق کے مقابلے میں تکبر کرنا: اس کی پہلی قسم ہے، انبیاء ؑ کے مقابلے میں تکبر کرنا: جو اس قسم کا تکبر اختیار کرتا ہے وہ انبیاء کی پیروی سے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ انہیں اپنے جیسا ہی ایک انسان سمجھتا ہے۔ وہ ایک انسان کی پیروی کرنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ انبیاء جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے لیکن وہ اپنے اس تکبر کی وجہ سے ان کا انکار کرتا ہے اس لیے وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے لیے فرشتے نازل ہوں۔
مخلوق کے مقابلے میں تکبر کرنے کی دوسری قسم ہے، عام لوگوں کے مقابلے میں تکبر کرنا: یہ تکبر صرف اور صرف اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کے لیے جائز ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تکبر اس (اللہ) کی پوشاک ہے اور عظمت اس کی چادر ہے اور (اللہ فرماتا ہے) جو ان کے بارے میں مجھ سے جھگڑا کرے گا میں اسے عذاب دوں گا‘‘۔ اس قسم کے تکبر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی پیروی نہیں کرے گا کیونکہ جب انسان اسے صحیح نصیحت کرے گا تو وہ اسے قبول نہیں کرے گا۔ جب اسے حق کی طرف بلایا جائے گا اور ایسا اس کی رائے کے خلاف ہو تو وہ اس پر عمل نہیں کرے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔ سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ (2:206)
موجودہ دور میں مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ مغربی عقیدہ تکبر اور کبر کے فروغ کا بڑا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اس کی جڑ ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیگرمعاشرتی برائیوں کے ساتھ تکبر پر مبنی رویوں کی بڑی وجہ مغرب کی پیروی بھی ہے۔
عاجزی کی کمی یا اپنی صلاحیتوں کو دوسروں سے بہت زیادہ سمجھنا تکبر کی ایک بڑی وجہ ہوسکتا ہے۔ مغربی معاشروں میں عاجزی پر زور دیا جاتا ہے اور نہ اس کی کوئی اہمیت ہے جس سے متکبرانہ رویوں کی نشوونما ہوتی ہے۔ وہاں عموماً رویوں میں اخلاقی قدروں کے حصول کی اہمیت کا فقدان ہے اور بغیر کسی ناگواری کے کہا جاتا ہے Fake it,till you make it مصنوعی بنانے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ آپ اسے اصلی نہ بنا لیں۔
مغرب ایک ایسی ثقافت ہے جو انفرادیت اور آگے بڑھنے کے لیے مقابلے پر زور دیتی ہے۔ مغربی معاشروں میں انفرادی کامیابی اور باقی لوگوں سے الگ ہٹ کر کچھ الگ کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ لوگوں کا اپنے آپ کو دوسروں سے برتر محسوس کرنے اور متکبرانہ عمل کا باعث بنتی ہے۔ مغرب معاشرے کی اجتماعی کامیابی کے برعکس انفرادی برتری پر زیادہ زوردیتا ہے۔
مغربی ثقافت میں مادی قدرو قیمت کا زیادہ سے زیادہ حصول وہ قدر ہے جس کے حصول کے لیے نظام لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے لہٰذا مادی کامیابی، دولت اور حیثیت کا حصول ہی وہ زندگی کے اہم ترین مقاصد قرار پاتے ہیں جن کے لیے سخت محنت کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہ سوچ جنم لیتی ہے کہ مال ودولت جا ئدادیں اور کارنامے ہی انسان کو دوسروں سے بہتر بناتے ہیں جن کا پھر متکبرانہ اظہار بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پچھلی صدی میں نوّے کی دہائی سے اس بیانیے کو پوری دنیا میں فروغ دیا گیا ہے کہ Yoy only live once زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔ ایسے میں زندگی میں اقدار، معمول کی اخلاقیات اوراعلیٰ مقاصدکے لیے جگہ کہاں بچتی ہے؟؟
ارادے کی مکمل آزادی یا Free will کا نظریہ افراد کی ذہن سازی کرتا ہے کہ ان کی اپنی ذات اور ان کی تقدیران کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ شعوری فیصلوں کے ذریعے اپنی زندگی کو کنٹرول کرسکتے ہیں اور ایسے انسان بن سکتے ہیں جیسا کہ وہ بننا چا ہتے ہیں۔ اگر آپ غریب ہیں تو آپ نے اتنی محنت اور کوشش نہیں کی کہ آپ غربت سے نکل پاتے اس طرح اگر آپ دنیاوی زندگی میں کامیاب ہیں تو اس کی وجہ کوئی اور نہیں آپ خود ہیں کیونکہ آپ سیلف میڈ ہیں۔ یہ خیالات ان احساسات کو جنم دیتے ہیں کہ آپ دوسروں سے برتر ہیں اور دوسروں پر برتری کا حق رکھتے ہیں۔ یہ خیالات دوسروں کے ساتھ معاملات میں آپ کو متکبر بناتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس بات کو فروغ دیا گیا ہے کہ ’’آپ کچھ بھی بن سکتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں۔ سوچیے اس کے بعد قضاو قدر کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے۔
(جاری ہے)