رمضان المبارک اور مہنگائی کا طوفان

357

رمضان المبارک کی آمد کے باعث اشیاء خورو نوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، رمضان کی آمد سے خریداری میں بھی تیزی آگئی ہے۔ وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ ملک بھرمیں مہنگائی نے عوام سے قوت خرید چھین لی ہے، وزیر اعظم کی جانب سے مہنگائی کم کرنے اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینے کی خبر بھی اب اپنی اہمیت کھو رہی ہے بلکہ عوامی سطح پر ایسے کسی بیان کے بعد خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ کیونکہ حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وزیر اعظم کے بیان کے فوراً بعد مہنگائی کا تازیانہ رسید کرکے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ملک میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.31فی صد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ ہفتے بھی مہنگائی کی شرح میں1.11فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق پچھلے تین ہفتوں سے مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے میں 18 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ 10اشیاء کی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔

ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق تین ہفتوں میں مہنگائی کا تسلسل موجودہ حکومت کے لیے لمحہ فکر ہونا چاہیے جو عوام کو ریلیف دینے کے نہ صرف دعوے کر رہی ہے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر رمضان پیکیجز اور سستے رمضان بازاروں کا اہتمام بھی کر رہی ہے۔ ان تمام حکومتی اقدامات کے باوجود مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ مصنوعی مہنگائی کرنے والا مافیا رمضان المبارک میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہے جو حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کرتا نظر آرہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ادارہ شماریات جن اشیا کے نرخوں میں کمی کی رپورٹ دے رہا ہے عوام کو ان اشیاء پر بھی ریلیف نہیں مل رہا۔ رمضان بازاروں میں جو اشیاء دستیاب ہیں ان کے غیر معیاری ہونے کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں جبکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے یوٹیلیٹی اسٹورز بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں گرانی پر آئی ایم ایف بھی سوال اٹھا چکا ہے۔ اسے یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ اس کی کڑی شرائط کے نتیجے ہی میں پاکستانی عوام بدترین مہنگائی بھگت رہے ہیں۔ اب اس کے ساتھ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اگر وہ اپنی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت سے ڈومور کا تقاضا کرتا ہے اور حکومت بھی اسے من و عن قبول کر لیتی ہے تو ایک طرف نئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور دوسری طرف مہنگائی میں ہونے والا مزید اضافہ عوام کو زندہ درگور کر دے گا۔ اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں عوامی مسائل کو بہرصورت پیش نظر رکھا جائے اور اسے باور کرایا جائے کہ پاکستان اس کے مزید تقاضوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کا حجم ساڑھے 7سے بڑھا کر 12.5ارب روپے کرنے کے ساتھ اس کا دائرہ کار بڑھانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ مجموعی طور پر رمضان ریلیف پیکیج کے تحت مستحق افراد کو بازار سے 30 فی صد ستی اشیاء دی جائیں گی، آٹے پر فی کلو 77 جبکہ گھی پر 70 روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے بھی 30ارب روپے کا نگہبان رمضان پیکیج شروع کیا ہے جو صوبے کے 64لاکھ سے زائد خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ سندھ حکومت نے بھی 22.5 ارب روپے کے رمضان پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ کی 60فی صد آبادی کو رمضان میں 5ہزار روپے نقد دینے کی منظوری بھی دی تھی جو بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کے ذریعے دیے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے احساس پروگرام کے تحت رمضان میں مستحق افراد کو نقد 10ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کی طرف سے ان سطور کی تحریر تک رمضان پیکیج کا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔

پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور انہیں بھرتی ہی اس مقصد کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورنس کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی کام کے لیے انہیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر، عملہ اور دیگر مراعات و سہولتیں اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کے بجائے ساری توانائی اور وسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لیے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے۔ ہم بار بار اس خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے مہنگائی کو نہ روکا تو ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔ حکومت کو اس مہنگائی کا نوٹس لینا چاہیے اور ابھی سے کوئی سد باب کرنا چاہیے۔ دُنیا بھر کے مہذب ممالک میں اُن خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں جب کہ وطن عزیز میں اُلٹی گنگا بہتی ہے اور ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں۔

ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ آخر یہ مجسٹریسی نظام کس مرض کی دوا ہے؟ مجسٹریسی نظام تاحال کارگر ثابت نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کمالیتے ہیں۔ یاد رہے ملک کی آبادی 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹورزکی کل تعداد 5491 ہے۔ اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزائوں کے اقدامات کیے جائیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے مرکزی کردار ادا کروایا جائے بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچانے کو مؤثر بندوبست بھی کیا جائے۔ تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاء ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں، گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں اور سخت سے سخت اقدامات کیے جائیں بصورت دیگر مہنگائی کا سونامی غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا۔ حکومت کو ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ ساتھ منافع خوروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی چاہیے جو نرخ نامے مقرر کرنے کے کمزور طریقہ کار کی وجہ سے غریب عوام کو بلا خوف دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔