سڑ گل جائیں گے ہم تو تجھے خبر ہوگی

329

پاکستان میں اور مسلم دنیا میں اور پوری دنیا میں کتنے وہ لوگ ہیں جنہیں یہ یاد ہوگا کہ اسرائیل نے کب نہتے فلسطینیوں پر حملہ کرکے ان کے لیے اب تک زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، امریکی جنہیں کتے بلیوں اور ان جیسے جانوروں کے حقوق کا خوب علم ہے، مگر انہیں نہیں علم تو معصوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے بہتے ہوئے خون کا علم نہیں ہے، معصوم فلسطینی بچیوں کی آواز ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی، ان کے کان صرف اسرائیل کی بات سننے کے لیے رہ گئے ہیں، کیا دنیا نے اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے کو ئی آہ سنی ہے جو ایک معصوم فلسطینی بچی کے دل سے نکلی ہے، وہ آہ کیا ہے؟ ذرا سنیے بچی کہتی ہے ’’آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کچھ نہیں اور آپ کی کوئی قدر نہیں‘‘ یہ کہنا تھا ایک فلسطینی لڑکی دیما النجار کا جو اس وقت 15 لاکھ فلسطینیوں کے ہمراہ مصر کی سرحد کے قریب واقع رفح میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں۔ 7 اکتوبر حملوں کے جواب میں مقبوضہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ کرنے والا اسرائیل بارہا اپنے مقصد کا اعلان کرچکا ہے کہ اسے 41 مربع میل کے اس چھوٹے سے غزہ سے حماس کے مجاہدین کی قوت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں اب تک 31 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جبکہ غزہ کی تقریباً پوری آبادی کو نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا ہے۔ دیما النجار کہتی ہیں کہ ایک 19 سالہ لڑکی کے لیے زندگی کیسی ہے جو یہ نہیں جانتی کہ کون سا دن اس کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ وہ کہتی ہیں، ’آپ کو ہر دن اپنی یادوں اور قیمتی سامان کو چھوڑ کر موت اور تھکاوٹ کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے‘۔
دیما النجار کی گفتگو عکاسی کرتی ہے کہ ایک بے گھر شخص کیمپ میں کیسی زندگی گزار رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ہر طرف بمباری اور اندھا دھند فائرنگ ہورہی ہے‘ غزہ کے جنوبی حصے میں واقع رفح ایک چھوٹا شہر ہے جہاں 15 لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو پناہ حاصل ہے۔ اگر رفع کو پاکستان کا اسلام آباد تصور کرلیں تو شاید آپ کے ذہن میں اس علاقے کی تصویر زیادہ واضح ہوجائے گی۔ رفع تقریباً 37 ایکڑ پر پھیلا ہے جبکہ اسلام آباد کی زمین 2 لاکھ 24 ہزار ایکڑ ہے اور اس کی آبادی صرف 18 لاکھ کے قریب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رفح اس وقت کتنا تنگ ہے اور صورت حال سنگین ہے کہ جہاں 15 لاکھ افراد کو ایک چھوٹے سے علاقے میں رہنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ دیما النجار کا تعلق خان یونس کے گاؤں خزاعہ سے ہے اور وہ رفح تک اپنے سفر کو ’کسی بھی شخص کا بدترین تجربہ، کہتی ہیں یہ وہ حقیقت ہے جس میں دیما النجار اور لاکھوں فلسطینی زندگی گزار رہے ہیں۔ 7 اکتوبر سے اب تک وہ 4 بار ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرچکی ہیں۔ پہلے خان یونس میں اپنے گاؤں خزاعہ سے غزہ کے جنوبی حصے میں واقع اباسان الکبیرہ شہر میں گئیں۔ پھر اباسن الکبیرہ سے وہ خان یونس کے ایک اسکول میں چلی گئیں، اس کے بعد وہ ایک بار پھر اباسان الکبیرہ چلی گئیں اور اب انہوں نے رفح کے کیمپ میں پناہ حاصل کر رکھی ہے‘۔
جنگ سے پہلے اپنی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں پتا چلا کہ ان کی جوانی، خوابوں اور عزائم سے جڑی امید اب مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔ قیمتوں اور محدود امداد نے بہت سے فلسطینیوں کے لیے ضروریات زندگی تک رسائی کو مشکل بنا دیا ہے۔ جہاں اسرئیل غزہ میں امدادی ٹرک کے داخلے پر رکاوٹیں ڈال رہا ہے، اس صورت حال کو قیامت خیز کہا جاسکتا ہے۔ جس ظلم اور محرومی کا اس پٹی کو سامنا ہے اس کی حالیہ تاریخ میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی ’اگر مصر اپنی سرحدیں کھول دیتا ہے تاکہ لوگ سینائی علاقے میں ہجرت کر جائیں اسرائیلی افواج نے اپنے تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کو رمضان تک کی مہلت دی ہے ورنہ وہ رفح میں داخل ہوجائیں گے۔ غزہ کے جنوبی شہر پر زمینی حملے کا خطرہ، جبری انخلا اور موت کا خوف 15 لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے، اور اقوام عالم سو رہی ہے، اسے نہ جانے کب خبر ہوگی۔