محنت کے اسرار

686

ٹی ایس ایلیٹ نے کہا ہے کہ بعض لوگ محنت کے نتیجے میں پسینہ پسینہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنی محنت سے پسینے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یعنی ان کی محنت کا کوئی نتیجہ یا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور یوں محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔ ایلیٹ کی بات درست ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نہ جانے کب سے محنت کا تصور مزدوری کے ساتھ وابستہ چلا آرہا ہے۔ بہت سی پرانی کہانیاں تک اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ کسی زمانے میں ایک شخص تھا جو بہت غریب تھا اور محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ صورت حال آج بھی مختلف نہیں البتہ ہم نے اتنی ترقی ضرور کرلی ہے کہ ہم مزدوروں کے لیے ’’لیبر فورس‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ہیں اور ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ابلاغ مزدوروں کا مرتبہ بلند کرنے کے لیے انہیں مزدور کے بجائے ’’محنت کش‘‘ کہتے ہیں۔ ترقی کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس سے سہولت پیدا ہوجاتی ہے، اس سہولت میں استحصال کرنے کی سہولت بھی شامل ہے۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، کہنے کی بات یہ تھی کہ محنت کا تصور جسمانی محنت تک محدود ہو کر رہ گیا ہے یا اگر اس تصور کو بہت پھیلایا بھی جاتا ہے تو اس میں ذہنی محنت کا ذکر بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ چناں چہ معاشرے میں کچھ جسمانی محنت کرنے والے لوگ بستے ہیں۔ ان ہی لوگوں کی توسیع وہ لوگ ہیں جو ہنر مند کہلاتے ہیں، ان سے بلند سطح ان لوگوں کی ہے جو ذہنی کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دائرہ تقسیم کار کی بنیاد پر خاصا وسیع ہے۔ اگرچہ ذہنی محنت کے تصور تک آتے آتے لفظ محنت کی ’’غربت‘‘ کافی کم ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ غربت بہرحال پھر بھی باقی رہتی ہے۔ تو گویا اس کا مفہوم یہ ہے کہ محنت کا لفظ اوّل و آخر ایک غریب لفظ ہے اور یہ کسی بھی سطح پر اپنی غربت سے نجات حاصل نہیں کر پاتا بظاہر معاملہ یہی دکھائی دیتا ہے تو کیا واقعتا محنت کا لفظ اور محنت کا تصور غربت زدہ ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ لفظ محنت ایک غریب لفظ ہے اور محنت کا تصور ایک غریب تصور ہے لیکن اقتصادی اور معاشی مفہوم میں نہیں بلکہ اس مفہوم میں جس مفہوم میں علامہ اقبال نے داستانِ حرم کو سادہ و رنگین کے ساتھ ساتھ ’’غریب‘‘ بھی کہا ہے۔ اس غربت میں ایک اسرار ہے اور بلاشبہ ’’محنت‘‘ کا بھی ایک ’’اسرار‘‘ ہے۔ لیکن یہ بات وہی لوگ جانتے ہیں جو محنت کرتے ہیں۔ لیکن محنت کا ’’اسرار‘‘ کیا ہے؟
قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کا مفہوم ہے۔
’’انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے‘‘۔
سعی کی جگہ کوشش کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے لیکن کوشش کا لفظ بلیغ نہیں ہے۔ البتہ لفظ ’’سعی‘‘ میں بلاغت بھی ہے اور وہ اسرار بھی، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ سعی خالی خولی محنت نہیں ہے اس میں نیت، توجہ کا ارتکاز اور سعی کی سمت یا جہت کا تصور بھی مضمر ہے۔
انسان صرف امکانات کا نام نہیں۔ اس کی کچھ محدودات بھی ہیں، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان امکانات اور محدودات کے مجموعے کا دوسرا نام ہے۔ اس اعتبار سے انسان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے امکانات کو بھی جانے اور اپنی محدودات کا بھی ادراک کرے۔ لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ انسان نہ اپنے امکانات کا سراغ لگا پاتا ہے اور نہ اپنی محدودات سے واقف ہوپاتا ہے۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے امکانات کو تھوڑا بہت پہچان لیتے ہیں مگر اپنی محدودات سے لاعلم رہتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی محدودات کا تو کچھ نہ کچھ علم ہوجاتا ہے مگر اپنے امکانات کا کوئی فہم ان کے پاس نہیں ہوتا۔ ان تمام سورتوں کا نتیجہ انسان کے حق مین بہتر نہیں نکلتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہیں مثلاً کہیں صلاحیت کی کمی مسئلہ بنتی ہے، کہیں علم کی قلت آڑے آتی ہیں، کہیں ماحول راہ کی رکاوٹ بن جاتا ہے، کہیں ذہانت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور کہیں محض رہنمائی کی عدم موجودگی مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو اس مسئلے کی اہم ترین وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ انسان محنت یا سعی سے گریزاں ہوتا ہے۔ اس گریز کے بھی بہت سے اسباب ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں لیکن اس کی اہم ترین وجہ عام طور پر محنت یا سعی سے پیدا ہونے والی بوریت یا اکتاہٹ ہوتی ہے، اس اکتاہٹ کو ہضم کرنا بہت ضروری بلکہ ناگزیر ہوتا ہے، اس بوریت کو ہضم کرلیا جائے تو یہ ازخود ’’ری سائیکل‘‘ ہو کر انسان کی توانائی میں اضافے کا سبب ہوتی ہے اور اگر اسے ہضم نہ کیا جائے تو پھر یہ انسان کے لیے سب سے بڑا بوجھ اور انسان کی ’’عدم تفہیم‘‘ کی ’’صلاحیت‘‘ میں اضافے کا ایک اہم ذریعہ بن جاتی ہے۔ انسان کی ’’عدم تفہیم‘‘ کی ’’صلاحیت‘‘ بعض لوگوں کو چونکانے والی بات محسوس ہوسکتی ہے اس لیے وضاحتاً عرض ہے کہ انسان میں جس طرح تفہیم کی ’’صلاحیت‘‘ رکھی گئی ہے اسی طرح ’’عدم تفہیم‘‘ کی ’’صلاحیت‘‘ بھی اس میں موجود ہے۔ اس صلاحیت کے بہترین مظاہر پڑھے لکھے لوگوں خاص طور پر دانشوروں اور پروفیسر ٹائپ لوگوں میں تلاش کیے جاسکتے ہیں جو عام لوگوں کے مقابلے میں زندگی، اپنے کام اور محنت یا سعی کی اکتاہٹ کو ہضم کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں۔
محنت کی اکتاہٹ سے گھبرانا اور اس کے ہاضمے سے ڈرنا حماقت ہے کیونکہ یہ اکتاہٹ عام طور پر ابتدائی مرحلے کا مسئلہ ہوتی ہے اور انسان کو ’’عادت‘‘ کے عام مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ان مسائل پر قابو پالیا جائے تو بعد کے مرحلے آسان ہوجاتے ہیں۔
ہم نے مذکورہ سطور میں ’’سعی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو اصل بات کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ انسان کی ضرورت محض ’’سعی‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’سعی مسلسل‘‘ ہے۔ بہت سے لوگ زندگی بھر کام بدلتے رہتے ہیں جس سے سعی مسلسل میں رخنے پڑتے رہتے ہیں، لیکن ایسا محض کام بدلنے سے نہیں ہوتا، لوگ کام بدلے بغیر بھی سعی مسلسل ترک کردیتے ہیں۔ وہ کبھی کسی حادثے یا واقعے سے متاثر ہوجاتے ہیں اور تعطل کا طویل وقفہ آجاتا ہے۔ کبھی وہ اپنی سعی کے نتائج کو حوصلہ افزا نہیں سمجھتے اور بظاہر سرگرم رہتے ہیں لیکن داخلی طور پر شدید تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہے کیونکہ انسان کے امکانات اور محدودات کی فہم کے لیے سعی مسلسل ناگزیر ہے۔
بلاشبہ ہمارے ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے لیکن بسا اوقات انسان کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ اس کی نیت کیا ہے؟ اس کی بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن یہاں اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں، البتہ اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ امکانات اور محدودات کا فہم کئی اعتبار سے نیت کو شفاف طریقے سے انسان کے سامنے لانے کا ذریعہ بن جاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ امکانات اور محدودات کے فہم سے توجہ کے ارتکاز اور سعی کی سمت کے تعین میں بھی بڑی مدد ملتی ہے۔
توجہ کا ارتکاز بہت اہم چیز ہے۔ اس کے بغیر محنت، محنت نہیں بنتی بیگار بن جاتی ہے اور یہ بیگار 22 گریڈ کی افسری بھی ہوسکتی ہے۔ توجہ کا ارتکاز محض توجہ کا ارتکاز نہیں ہوتا، اس میں گہرا انہماک بھی شامل ہے۔ اس طرح محنت پورے وجود پر محیط ہوجاتی ہے۔ بہرحال توجہ کے ارتکاز کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جو کام کیا جارہا ہے اس کے سوا ہر چیز ذہن کے دائرے سے عارضی طور پر سہی، باہر ہوجائے۔ کام یا محنت کا حقیقی لطف اسی سطح پر آتا ہے۔
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اس بات کو بہ انداز دیگر یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہر جانب ایک بے مثال کائناتی ذہانت کام کررہی ہے اور جب ہم حقیقی معنوں میں محنت کرتے ہیں، سعی کرتے ہیں تو یہ ذہانت ہماری محنت میں در آتی ہے اور اس محنت کے نتائج یا ثمرات کو ہماری توقعات سے کہیں زیادہ بڑھادیتی ہے۔ یہ بات بھی محنت کے اسرار میں سے ایک ’’سر‘‘ ہے۔ شاید اسی لیے دنیا کے ذہین ترین افراد کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ دو فی صد ذہانت اور 98 فی صد محنت کا فارمولا ہی بہتر فارمولا ہے۔