نوازشریف کی سیاست کا دردناک انجام

556

ملک میں دو سال سے ماردھاڑ کا ایک فلمی سین کسی وقفے کے بغیر چل رہا ہے۔ ایک کہانی ہے جس میں کریک ڈائون، جیلیں، عدالتی فیصلے خواتین کی ناروا گرفتاریاں، خواب گاہوں کی ویڈیو ز، عدت اور نکاح کے مسائل پر سیاست کرکے خاندانی اور سماجی نظام کی بنیادوں کو ہلانے والے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کے افسوسناک مناظر جابہ جا بکھرے ہیں۔ اس کہانی کا ایک اہم مرحلہ عام انتخابات تھے جو دوبار آئین کی حدود سے باہر نکل کر ایک موہوم امید پر ملتوی کیے جاتے رہے۔ پہلی بار دوصوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کو آئین کی حدود سے باہر نکل کر اس بنا پر ملتوی کیا گیا کہ یہ سسٹم کے معتوب کردار عمران خان کے اعلان کردہ تھے۔ دوسری بار جب سسٹم کے محبوب کردار شہباز شریف اپنی مدت پوری کرکے اسمبلی تحلیل کر کے چل دیے تو دہشت گردی اور سردی کے نام پر انتخابات مقررہ دن منعقد نہ ہوسکے۔ جس موہوم امید پر انتخابات کو ٹالا جاتا رہا وہ تھی عمران خان کا مائنس ہوجانا یا ان کی مقبولیت کا کم ہوجانا۔ دو برس سے وہ کون سا انداز ہے جو اس مقصد کے لیے اپنایا نہیں گیا۔ انسانی سرمائے سے مادی سرمائے تک سسٹم کے ڈیپ فریزر میں جو کچھ تھا اس ایک مقصد کے لیے استعمال کیا گیا مگر انتخابات کے دن سب سے بڑی حقیقت بدستور سسٹم کے سامنے آن موجود تھی۔ یوں انتخابات تک اس کہانی کے تین کردار مختلف انداز سے اُبھر آئے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار بظاہر عمران خان تھے مگر منظر اور پس منظر پر اس کا اصل اور مرکزی کردار میاں نوازشریف تھے جو ملک سے رخصت ہوئے توکیپٹن صفدر نے کہا تھا اب میاں نوازشریف خمینی بن کر واپس آئے گا۔ خمینی بن کر آنے کا مطلب کیا تھا؟ یہ تاریخ کے اوراق سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ میاں نوازشریف واپس تو آئے مگر وہ خمینی کا انداز ہرگز نہیں تھا اسے بہر طور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں میاں نوازشریف کے انداز کے طور ہی یاد رکھا جائے گا۔
میاں نوازشریف کی عالمی قبولیت کا سفر اس وقت شروع ہوا جب وہ پاکستان کے باسٹھ فی صد آبادی اور وسائل کے حامل صوبے کے سب سے موثر حلقے میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ میاں نوازشریف کا یہ حلقہ اثر اس لحاظ سے اہمیت اختیار کرگیا کہ یہی وہ پٹی تھی جہاں سے ملک کی مسلح افواج کو افرادی قوت اور اعلیٰ قیادت کی صورت میں خام مال ملتا تھا۔ اس لیے میاں نواز شریف کو بیرونی دنیا میں سویلین بالادستی کی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پنجاب کے اہم ترین علاقوں کا مقبول سیاست دان جو کسی بھی مرحلے پر اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھا کر آئین وقانون کے تابع لا سکتا ہے۔ یہی خواب نوازشریف کی نظروں میں بھی سما کر رہ گیا۔ یہاں سے ان کی سسٹم کے ساتھ مستقل کھٹ پھٹ کا آغاز ہوگیا۔ نواز شریف سسٹم کے ساتھ لڑائی چھیڑ تو بیٹھتے مگر تھوڑی دو رچل کر وہ سسٹم کے ہاتھوں عاجز آکر خواب کے لیے سمجھوتے کے بجائے خواب پر ’’سمجھوتی‘‘ کرکے کم ازکم منظر سے غائب ہوجاتے رہے۔ ان کے اس سفر میں بھاری مینڈیٹ کا زمانہ بھی آتا ہے جب وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ طاقت اور اختیار کی ساری حدیں عبور کرتے چلے گئے۔ انہوں نے سسٹم سے 58/2B کا وہ اختیار ہی چھین لیا جو بظاہر صدر کے اسمبلی توڑنے سے متعلق تھا مگر یہی وہ پردہ تھا جس کے پیچھے سسٹم کھیل کر سول حکمران کو رخصت کیا کرتا تھا۔ اس اختیار سے محرومی کے نتیجے میں انہوں نے سسٹم کے نمائندے صدر فاروق لغاری کو عالم مجبوری میں استعفا دے کر بھاگنے پر مجبور کیا اور ان کی جگہ رفیق تارڑ جیسے مجبور ولاچار صدر کو لابٹھایا۔ یہی نہیں اسی سفر میں انہوں نے آرمی چیف جہانگیر کرامت کو ایک بیان کی بنیاد پر استعفا دے کر گھر بھیج دیا۔ اس وقت ملک کے اندر اور باہر میاں نوازشریف کو سویلین بالادستی کے نشان کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ اس سفر میں انہوں نے جنرل مشرف کو برطرف کر کے جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف لگایا تو ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ وہ کچھ ماہ تک مزاحمت کرتے رہے اور آخر کار اپنے خواب پر سمجھوتا کرکے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان کی مقبولیت تقسیم تو ہوئی مگر خاموش مقبولیت برقرار رہی یہاں تک کہ سسٹم کو انہیں تمام الزامات سمیت ایک بار پھر گارڈ آف آنر دینا پڑا۔
آج جو نوازشریف وطن واپس لوٹے تو وہ مکمل بدلے بدلے تھے۔ ان کا خواب ریزہ ریزہ ہوا نہیں تھا بلکہ انہوں نے خود اپنے خواب کے ٹکڑے کر دیے تھے۔ ان کے کچھ نعرے متروک ہو چکے تھے کچھ کو انہوں نے خود ممنوع قرار دیا تھا جن میں ان کا مشہور زمانہ نعرہ ووٹ کو عزت دو بھی شامل تھا۔ اس نعرے کی تشریح اب شہباز شریف کے ذمہ تھی جو تشریح یوں کر رہے تھے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ کو ووٹ دے اس کی عزت کرو۔ حد تو یہ الیکشن کے دن جب ایک غیر ملکی خاتون صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا ملٹری سے ان کے تعلقات ٹھیک رہیں گے تو نوازشریف نے اپنی پوری سیاسی تاریخ پر مصلحت کی تنسیخ پھیرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ساتھ تو ان کا کبھی کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں۔ کسی انسان کے لیے بے بسی کا یہ مرحلہ نہیں ہوتا کہ اس کا خواب کرچی کرچی ہورہا ہو بلکہ اصل بے بسی یہ ہوتی ہے کہ انسان خود اپنے خواب کو اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر رہا ہو اپنی تاریخ پرجس پر اس ناز ہو مصلحت کا فلیوڈ لگا نے پر مجبور ہو۔ فاطمہ جناح نے اپنے اور اپنے بھائی کے خواب کو بکھرتے دیکھا مگر اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا وہ بے جگری سے اس خواب کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے لڑیں مگر المیہ یہ ہوتا کہ وہ اس خواب پر سمجھوتا کرکے ایوب خان کی انتخابی مہم چلاتیں اور پاکستانیوں کو یہ سبق پڑھاتیں کہ ان کے بھائی کا حقیقی تصور پاکستان وہی ہے جو ایوب خان بنا رہا ہے۔ میاں نوازشریف کی اس انداز سے واپسی کا تصور تو خود ان کے کارکنوں نے بھی نہیں کیا ہوگا جو مدتوں اس امید پر نعرہ زن رہے کہ ’’جدوں میاں آوے گا تے لگ پتا جاوے گا‘‘۔ میاں نوازشریف اپنی سیاست کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں مگر ان کی اس انداز سے واپسی شاید ہی ان کا خواب رہا ہو۔ اچھا ہوتا وہ اس انداز سے واپس آنے کے بجائے خود کو تاریخ کے حوالے کرتے مگر انہوں نے لمحہ ٔ موجود میں زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی ترقی ٔ معکوس کو میاں نوازشریف کی سیاست کا دردناک انجام ہی کہا جا سکتا ہے۔