غزہ!!! طاقت مطلق سچائی نہیں ہوتی

391

امریکا کے سابق جنرل فرانک مکینزی نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی کامیابی بہت محدود ہے اور وہ حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے میں بھی ناکام رہا۔ اس سے کچھ ہی لمحے پہلے اسرائیل کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں غزہ میں حماس کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں ہلاکتوں کی تعداد پچیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق جنرل فیس دی نیشن پوڈ کاسٹ میں ایک صحافی کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس ہدف کے ساتھ غزہ میں داخل ہوا تھا کہ وہ حماس کی سیاسی اور فوجی قیادت کو ختم کر دے گا لیکن اس سلسلے میں اسے ابھی محدود کامیابی ملی ہے۔ ان کے مطابق امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق اسرائیل ابھی تک حماس کی بیس سے تیس فی صد قیادت کو ختم کر سکا ہے اور اس دوران مجموعی ہلاکتوں کی تعداد چھبیس ہزار ہے جو ایک واضح تضاد کو ظاہر کر رہا ہے۔ (دوسرے لفظوں میں یہ کہ حماس کو بیس یا تیس فی صد کارکنوں کو مارنے کے لیے چھبیس ہزار افراد کو ماردیا گیا)۔ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے سامنے صورت حال واضح نہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا۔ جنرل مکینزی سے جب پوچھا گیا تو ایسی صورت حال میں کیا ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ جب آپ فوجی مہم شروع کرتے ہیں تو آپ کو اندرون ملک ویژن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اسرائیل کو مسئلے کا دو ریاستی حل تلاش کرنا چاہیے۔

جنرل مکینزی جرنیلوں کی بھیڑ میں شامل کوئی عام شخص نہیں بلکہ 2022 میں ریٹائر ہونے والے یہ جنرل افغانستان میں امریکی جنگ کے آخری مرحلے کے نگران تھے۔ افغانستان میں امریکا کی بگرام ائر بیس اس کا مسکن بھی تھی اور وہ اس پر ایسے ہی گھومتے اور فوجی آپریشنز کی نگرانی کرتے کہ جیسے گھر کے دالان میں مالک چہل قدمی کررہا ہو۔ جنرل میکنزی نے جنگیں لڑتے لڑتے آخر کار افغانستان سے امریکی انخلا کا منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ وہ دوحہ مذاکرات سمیت بہت سے مراحل میں فریق کے طور پر مذاکرات کی میز پر ایک ایسے مدمقابل کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوئے جسے وہ دہشت گرد اور اپنی تہذیب کے دشمن اور انسانیت کو پتھر کے دور میں واپس دھکیلنے کے لیے کوشاں قرار دیتے رہے تھے۔ شاید حالات اور وقت کا جبر تھا کہ جنرل مکینزی اس فریق کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور تھے۔ جنرل مکینزی نے ریٹائر منٹ کے بعد ایک امریکی صحافی کو تہلکہ خیز انٹرویو دیا تھا مگر ان کا ایک جملہ حاصل کلام بن کر رہ گیا۔ جنرل مکینزی کا کہنا تھا کہ:’’ امریکا افغانستان میں اپنے راہ ہی کھو بیٹھا تھا‘‘۔ اس جملے میں تجربہ بھی بولتا تھا اور مشاہدہ بھی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکا کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اس جنگ میں کس راہ پر جانا ہے۔ جنگ کو کب تک جاری رکھنا ہے اور جنگ کا اختتام کب کرنا ہے؟ جنگ کے خاتمے کے بعد کیا کرنا ہے؟ اسی کیفیت کو بند گلی میں پھنسنا کہتے ہیں۔

امریکا بھی افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے اور افغان عوام کو جمہوریت سے آشنا کرنے کے دعوے کے محدود مقاصد کے ساتھ آیا تھا۔ سال دو سال میں افغانستان کے مقامی انتظام کو مضبوط بنا کر امریکا کو نکل جانا چاہیے تھا مگر یہ سفر سولہ برس پر محیط ہوگیا اور جنگ جس قدر طویل ہوتی چلی گئی طالبان کو قوت اور آکسیجن ملتی گئی۔ امریکی فوج کی غلطیوں کا سارا فائدہ طالبان اُٹھاتے رہے۔ اس پس منظر میں غزہ کی جنگ کے بارے میں امریکی جنرل مکینزی کا تبصرہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔غزہ کی جنگ کے بارے میں جنرل مکینزی کا تبصرہ بھی ’’راہ گم ہوجانے‘‘ کا ہی معانی لیے ہوئے ہے۔ اسرائیل کو کئی ماہ بعد چھبیس ہزار افراد کو قتل کرکے جن میں اکثریت بچوں کی ہے اور غزہ کو ملبے اور راکھ کا ڈھیر بنا کر بھی اگر اپنے مقصد میں بیس یا تیس فی صد کامیابی ملی ہے تو سمجھ جانا چاہیے کہ اسرائیل جنگ کی طوالت میں راستہ بھول بیٹھا ہے اور وہ انہی غلطیوں پر اصرار کر نے کی راہ پر چل پڑا ہے جن کو جنرل مکینزی اپنے تجربے اور مشاہدے کی صورت میں گاہے گاہے بیان کر رہے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار فلسطین کی اسلامی جہاد تنظیم نے بھی کیا ہے۔ اسلامی جہاد کے سیاسی دفتر کے ترجمان علی ابو شاہین نے کہا ہے کہ صہیونی فوجی غزہ میں بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ فلسطینیوں کو نقل مکانی پر جبری طور پر مجبور کرنا ایک خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ دنیا اب غزہ کو نہیں بلکہ اسرائیل کو اس دلدل سے نکالنے کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پر یقین نہیں کرتے کیونکہ بائیڈن حکومت صہیونی حکومت کی مالی اور فوجی مدد کررہی ہے۔ اسلامی جہاد کے نمائندے کا اشارہ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کے امن مشن کی جانب ہے جو ابھی تک چند ماہ میں چھے بار مشرق وسطیٰ کا دورہ کرچکے ہیں اور ان دنوں بھی سعودی عرب مصر قطر سمیت کئی ملکوں میں گھوم کر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے طریقہ کار پر بات چیت کر رہے ہیں۔

غزہ جنگ کے 123دن مکمل ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں فلسطینیوں پر ایک کوہِ غم ٹوٹ پڑا ہے انہیں اپنی تاریخ کے ایک اور بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا اوران کے زخم اب شاید ہی مندمل ہو سکیں مگر اس چار ماہ میں اسرائیل بھی عرب کے نجیب حکمرانوں خاندانی بادشاہوں، متمول حکمرانوںاور اس کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کو اپنا اسیر بناکر اپنا رعب وبدبہ بھی گنو ا بیٹھا۔ مشرق وسطیٰ کا تھانیدار بننے کا شوقین اسرائیل ایک مسلح تنظیم کے ہاتھوں اس قدر زچ ہوا کہ اب اس کی باعزت واپسی کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ اس عرصے میں طاقت کی کارفرمائی کا کون سا مظاہرہ ہے جو غزہ میں نہیں ہوا مگر اس کے باوجود ثابت یہ ہوا کہ طاقت بہت کچھ ہوتی ہے مگر سب کچھ نہیں مطلق سچائی نہیں۔