ایم کیو ایم… نئی پیکنگ میں

914

خالد مقبول صدیقی کہ رہے تھے کہ ہم نے اپنی زندگی کے سارے خواب آپ (مہاجروں) کی شناخت منوانے کے لیے ایم کیو ایم کی نذر کردیے۔ انہوں نے ایک مصرع میں تصرّف کیا کہ ’’زندگی میری تھی اس کو بسر ایم کیو ایم نے کیا‘‘ میرے ذہن میں بے ساختہ مصرع کلبلایا ’’نام پر میرے ترقی کا سفر اس نے کیا‘‘ یہ محض الزام نہیں، آنکھوں دیکھی حقیقت ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کی کچی آبادیوں اور چھوٹے چھوٹے مکانات کے مکین، جو بقول خالد مقبول صدیقی ٹیوشن پڑھا کر گزارا کرتے، اور بسوں پر لٹک کر سفر کرتے تھے، بلدیاتی اداروں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کی بدولت مہنگی رہائشی اسکیموں میں کشادہ مکانات، قیمتی گاڑیوں، پھیلتے ہوئے کاروبار ہی نہیں بیرون ملک جائدادوں کے مالک بن گئے۔

اتوار کا دن تھا۔ صبح دس بجے موبائل فون پر عامر شفیق صاحب کا نام جھلملایا۔ عامر شفیق ایم کیو ایم کے متحرک اور پرجوش کارکن ہیں۔ ایم کیو ایم کے زمانہ عروج میں حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں تعینات ہوئے۔ ناظم تعلیمات اور سیکرٹری رہے۔ 2001 میں جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد میں نے پرنٹنگ کا کام شروع کیا تو عامر شفیق صاحب سے رابطہ دوستانہ تعلقات میں ڈھل گیا۔ ہم حیدرآباد کے مسائل پر بات کرتے۔ میں ایم کیو ایم پر کھل کر تنقید کرتا اور وہ مسکراتے رہتے۔ عامر شفیق نے اطلاع دی کہ خالد مقبول صدیقی لطیف آباد کے ایک شادی ہال میں عمائدین شہر سے ظہرانے پر خطاب کریں گے۔ ان کی خواہش پر میں نے شرکت کا فیصلہ کرلیا۔ غالباً پیشگی ہدایات کے پیش نظر مجھے اسٹیج کے بالکل سامنے بٹھایا گیا۔ تلاوت اور نعت کے بعد کنوینر صاحب کو دعوت خطاب دی گئی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قیام کا مقصد مہاجر شناخت تھی، ان کا دعویٰ تھا کہ یہ شناخت حاصل کرلی گئی ہے۔ انہوں نے ابوالکلام آزاد کا نام لیے بغیر کہا کہ جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں سے ایک شخص ہمیں پکارتا رہا کہ نئے ملک میں تمہاری شناخت طلب کی جائے گی تو تم کیا جواب دو گے؟ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں کے خیال میں ہمیں اسلام اور پاکستان کے علاوہ کسی شناخت کی ضرورت نہیں تھی لیکن پاکستان میں ہر قومیت کی اپنی شناخت تھی صرف مہاجر بے شناخت تھے، ہم نے ان کی شناخت کے لیے جدوجہد کی اور یہ شناخت حاصل کرلی۔ انہوں نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ اس سفر میں بے حساب مالی اور جانی نقصانات کے صلے میں ملنے والی مہاجر شناخت نے چند درجن لوگوں کو اسمبلیوں میں نمائندگی تو دلوادی لیکن اس نمائندگی نے مہاجروں کو کیا دیا۔ تعلیم، روزگار، صحت، ٹرانسپورٹ، رہائشی سہولتیں، کچھ بھی تو نہیں۔ ایم کیو ایم کا واحد کارنامہ مہاجر شناخت ہے۔ ہجرت کے وقت مہاجروں کی شناخت اسلام اور پاکستان تھا۔ پورا پاکستان ان کا مخاطب تھا۔ ایم کیو ایم کو تسلیم کرنا چاہیے کہ انہوں نے پورے پاکستان کی قیادت کے آب رواں کو چھوڑ کر کنویں کا مینڈک بننا قبول کیا۔ یہ ترقی کا نہیں ترقی معکوس کا سفر تھا جس کی سزا کراچی اور حیدرآباد اب تک بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے خوش خبری سنائی کہ آئندہ کوئی حکومت مہاجر قیادت کی حمایت کے بغیر نہیں

بن سکے گی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی تالیاں گونج رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ پارٹی کارکن کس طرح مسمیرائزڈ ہو کر یاد داشت گم کر بیٹھتا ہے… اب بھائی کو، کون یاد دلائے کہ مہاجر سیاست کی علامت ’’نائن زیرو‘‘ کو تو یہ مقام سجدہ گاہی 1988 سے حاصل ہے۔ بے نظیر بھٹو آئیں، الطاف بھائی کے چرن چھوئے اور وزیراعظم بن گئیں۔ کراچی اپنے مسائل کے حل کا منتظر رہا… پھر مہاجروں کو بتایا گیا کہ بے نظیر بھٹو بے وفا نکلی… نواز شریف نے خوش نما وعدے کیے۔ نائن زیرو پر حاضری دی۔ الطاف بھائی کے چرن چھوئے اور وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف نے 1988 کی حلیف جماعت اسلامی سے آنکھیں پھیر کر الطاف حسین کو اپنی وفا کا یقین دلایا لیکن 1993 تک پہنچتے پہنچتے بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ مہاجر علاقے آپریشن کی زد میں آگئے۔ الطاف حسین نے رات کی تاریکی میں فلائٹ پکڑی اور لندن پہنچ گئے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں، مہاجر عوام کا مقدر تبدیل نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم پرویز مشرف کے ساتھ بھی شریک اقتدار رہی، عمران خان کے ساتھ بھی اور عمران مخالف پی ڈی ایم کے ساتھ بھی۔ اس دوران ایم کیو ایم وفاقی اور سندھ صوبائی حکومت میں حصّہ بقدر جثہ نہیں بقدر غصّہ حصّہ لیتی رہی لیکن اب خالد مقبول صدیقی کہ رہے تھے کہ ہم آئندہ وزارتوں میں حصّہ نہیں لیں گے۔ غیر موثر وزارتیں قبول کرکے ہمیں حکومت کی نااہلی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ مجھے 1990 یاد آیا جب قاضی حسین احمد نے آئی جے آئی کی حکومت کا حصّہ بننے کے بجائے حزب احتساب کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم کے اندرونی اختلافات کا ذکر کیے بغیر کہ رہے تھے کہ ہم نے مہاجر اتحاد کے لیے بڑا تاوان ادا کیا ہے۔ وقت آنے پر یہ تاوان مع سود وصول کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم میں یہ منفی صلاحیت ہے کہ وہ اتحاد کی بنیاد میں اختلاف کا ڈائنامائٹ رکھنا کبھی نہیں بھولتی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جن لوگوں نے ہماری کسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ٹکٹ حاصل کرلیے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ پانچ سال کے لیے مسلط ہو گئے ہیں۔ ان کی کارکردگی دیکھ کر ان سے استعفا لیا جاسکتا ہے۔ یہ تقریر نہ فاروق ستار کے لیے اچھا پیغام ہے نہ مصطفی کمال کے لیے۔ خالد مقبول صدیقی نے دعویٰ کیا کہ آئندہ ایم کیو ایم کا ٹکٹ صرف میرٹ پر دیا جائے گا، اسے ماضی کے حوالے سے غیر اعلانیہ اعتراف گناہ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ کا طالب نااہل قرار پائے گا۔ یعنی وہی جماعت اسلامی والا فارمولا۔

خالد مقبول صدیقی نے چند آئینی ترامیم کا تذکرہ کیا۔ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے۔ تمام صوبوں میں بلدیاتی اداروں کے محکمے اور اختیارات یکساں ہوں جو آئین میں درج ہوں۔ قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبوں کا حصّہ مقرر کرتے ہوئے اضلاع کا حصّہ صوبوں کو منتقل کرنے کے بجائے براہ راست اضلاع کو منتقل کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی 90 دن کے لیے نگراں میئر مقرر کیا جائے۔

تقریر ختم ہوئی تو عزیزی سہیل مہدی نے جماعت اسلامی کے حوالے سے میرا تعارف کرایا۔ ہاتھ ملاتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ اب بھی جسارت پڑھتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ جسارت اور جماعت اسلامی تو اپنے مشن میں یک سو ہیں مسئلہ تو پتنگ کا ہے جسے الطاف حسین بھی نمک حراموں کا نشان قرار دے رہے ہیں۔