تاریخ کا ایک باب مٹانے کی حکمت عملی

429

بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کو چند ہی دن گزرے تھے کہ وارانسی کی ایک ضلعی عدالت نے گیان واپی کی تاریخی مسجد کی بنیادوں میں ایک مندر کے آثار کو تسلیم کرتے ہوئے ہندوئوں کو مسجد کے تہہ خانے میں پوجا پاٹ کی اجازت دیدی۔ اس کے ساتھ ہی دہلی میں چھے سو سالہ قدیم اخون جی مسجد کو ناجائز قراردے کر مسمار کر دیا گیا۔ جس میں بحرالعلوم کے نام سے ایک مدرسہ اور چند پرانی قبریں بھی تھیں۔ اس مسجد کو مہرولی کی جنات والی مسجد اور اس کے ساتھ احاطے کو درگاہ اخوند جی کہا جاتا ہے۔ مسجد کو گرانے کے دوران پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ 1984 میں جب مسجد کو متنازع بنانے کا معاملہ اُٹھایا گیا تو تین بڑی مساجد کو ہندوئوں کے دیوتائوں سے منسوب کرکے نشانے پر رکھ لیا گیا تھا۔ 1986 میں ہی ویشو ہندو پریشد نے اعلان کیا تھا کہ بابری مسجد کی بنیادوں میں رام وارانسی کی مسجد کی بنیادوں میں شیو اور متھرا کی قدیم مسجد کی بنیادوں تلے کرشنا کے مندر ہیں اور انہیں دوبارہ عظیم الشان مندروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ہزاروں مساجد کی فہرست اس سے الگ تھی جن کو مندروں میں تبدیل کیا جانا تھا۔ اب اپنے پہلے ہدف بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد بھارت کے انتہا پسند دوسرے اہداف کو حاصل کرنے کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور عدالتیں اس عمل میں اکثریت پسندی کی رو میں بہہ کر سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ہندو دیوی دیوتائوں کی پوجا کی اجازت حاصل کرکے انہو ں نے اسے بابری مسجد کے انجام سے دوچار کرنے کی جانب سفر کا آغاز کر دیا۔ وارانسی کی عدالت نے ہندوئوں کو مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ محکمہ آثار قدیمہ کی ایک رپورٹ کے بعد کیا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے تین ماہ تک مسجد کی بنیادوں کا جائزہ لے کر عدالت میں یہ رپورٹ جمع کرائی تھی کہ مسجد میں بتیس ایسے ثبوت ملے ہیں جس سے یہاں مندر کی موجودگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ 839 صفحات کی یہ رپورٹ اب بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف تمام کارروائیوں کی بنیاد بن کر رہ گئی۔ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سترہویں صدی میںمندر کو توڑنے کے بعد اس کے ستون اور دیگر اشیاء کو مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔ مسجد کے ایک فوارے کو شیو کے جسم کے ایک حصے سے منسوب کیا گیا۔ اس رپورٹ کے بعد ایک مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے یہ کہتے ہوئے مسلمانوں سے مطالبہ کیا کہ مسجد کو ہندئووں کے حوالے کیا جائے کہ اگر کوئی بابر اور اورنگزیب بننے کی کوشش کرے گا تو ہندو نوجوان مہارانا پرتاب بن جائیں گے۔ گیان واپی مسجد کی کمیٹی نے محکمہ آثار قدیمہ کی اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ محض رپورٹ ہے عدالتی فیصلہ نہیں جب عدالت عظمیٰ اس کیس کی سماعت کرے گی تو وہ اپنا مقدمہ وہاں پیش کریں گے۔ یہ مسلمانوں کی خوش فہمی ہے کہ انہیں بھارت کی کسی عدالت سے کوئی بڑا ریلیف ملے گا کیونکہ جس طرح محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کی بنیادوں سے مندر کے ثبوت دریافت کیے اسی طرح بھارت کی عدالتیں بھی اب اکثریت کو خو ش کرنے کی راہ پر چل پڑی ہیں۔

گیان واپی مسجد اورنگ زیب کے دور میں تعمیر ہوئی ہے اور اسے اورنگزیب نے اپنے نام پر ملکیتی زمین پر تعمیر کرایا تھا۔ ہندو مورخین اورنگ زیب پر ہزاروں مندروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بی این پانڈے جیسے ہندو مورخین یہ تسلیم کرتے ہیں اورنگ زیب نے ہندئووں کو مندروں کے لیے زمینیں الاٹ کیں اور انہیں عطیات دینے کا عمل بھی جاری رکھا۔ بھارت میں مساجد اور درگاہوں کی بنیادوں میں مندر تلاش کرکے ان کا وجود ثابت کرنے کا یہ سلسلہ نہ تو یہیں رکے گا اور نہ اس کی کوئی حد ہے۔ بھارت جس ذہنی سوچ وساخت کے سائے میں آگے بڑھ رہا ہے اس کا خیال ہے کہ ہندو تہذیب کو ایک عالمی اور غالب تہذیب کا رنگ دینے کا یہ مناسب موقع ہے۔ بھارت جس عالمی دفاعی سیاسی اور اقتصادی طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ اس عروج کو ہندو مت کے عروج کے پہلو بہ پہلو آگے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ بھارت کو سیاسی اور اقتصادی غلبہ ملے تو اس کے ساتھ ہی ہندو تہذیب بھی ایشیا کی غالب اور برتر تہذیب کے طور پر سامنے آئے۔ اسی لیے مسلمان عہد کو بھارت کی تاریخ سے حذف کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ مسلمان تہذیب کو عرب اور وسط ایشیا کی حملہ آور تہذیب قرار دینے اور اسے اپنا عہد غلامی

قرار دینے کا موقف ایک پورے دور کو تاریک اور اس کے ہیروز کو ولن قرار دینے کا عمل ہے۔ اس لیے اس دور سے منسوب مساجد درگاہوں اور سیاحتی مقامات کو بدل دینے کی مہم چلائی جارہی ہے تاکہ ہندوئوں کا احساس غلامی اجاگر کرکے ان کے اندر تفاخر کا احساس نمایاں کیا جائے۔ مسلمان حکمرانوں اور تہذیب کو قبول کرنے کے جس عمل کو وہ ہندو تہذیب کا تنوع اور وسعت قرار دیتے تھے اب اسے مجبوری اور غلامی کہا جانے لگا ہے۔

اگلے چند برس میں بھارت سے یہ سوچ ریاست جموں وکشمیر کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔ بابری مسجد کی افتتاحی تقریب کے موقع پر سری نگر میں ایک ہندو سیاح کا یہ معنی خیز فقرہ ٹی وی پرسنا گیا کہ اگر کشمیر میں بھی مسجدوں کی بنیادوں کو کھرچا جائے تو نیچے مندروں کے آثار ملیں گے۔ گریٹر کشمیر میں شاہ میری سلطنت کے ایک منفرد حکمران سلطان شہاب الدین دور کو اورنگزیب کے دور کی طرح پیش کیا جاتا ہے کہ دور میں مندروں کو مساجد میں تبدیل کیا اور ہندئووں کو زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ اس طرح یہ بھارت کے اقتصادی اور سیاسی عروج کو مذہبی اور تہذیبی عروج میں بدلنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کی مزاحمت کے طور پر پاکستان قائم بھی ہوا تھا اور اب بھی بھارت کے عالمی احیا اور عروج کی راہ میں پاکستان ہی رکاوٹ بننے کی صلاحیت رکھتا تھا مگر پاکستان کو جس مقام پر لاکھڑا کیا گیا وہاں اسے اپنی اقتصادیات اور محدود اقتدار اعلیٰ کا غم درپیش ہے اور ایسے میں وہ بھارت کے یک رنگے اور یک رخے تہذیبی اُبھارکی راہ میں مزاحم ہونے اور اپنی تہذیب پر اصرار کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو رہا ہے۔