سَراب

461

ہم نے ’’سبز باغ‘‘ کے عنوان سے 11جنوری کو کالم لکھا تھا، آج ’’سَراب‘‘ کے عنوان سے اُسی موضوع پر چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔ تقریباً تمام جمہوری ممالک میں یہ روایت ہے کہ قومی انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور اُس کی بنا پر دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ حکومت پر فائز ہونے کی سب سے زیادہ حق دار ہیں، اس حوالے سے آئندہ دورانیے کے لیے مستقبل کے وعدوں پر مشتمل جو دستاویز قوم کے سامنے پیش کی جاتی ہے، اُسے سیاسی اصطلاح میں ’’منشور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کی مرتّبہ ڈکشنری میں منشور کے معنی ہیں: ’’نافذ العمل تحریر، وہ دستاویز جو معاہدے پر مشتمل ہو، شاہی فرمان، پروانہ، حکم نامہ، وغیرہ‘‘۔ الغرض ہرجماعت آئندہ پانچ سال تک اپنے آپ کو حکمرانی کا سب سے بہتر حق دارقرار دینے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتی ہے، پرکشش اور دلربا منشور پیش کرتی ہے، سب کو معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد یہ منشور طاقِ نسیاں پر رکھ دیا جائے گا، پس منظر میں چلا جائے گا اورحکمرانوں کو نئے حالات میں نئے درباری اور نورتن مل جائیں گے۔
کسی چٹیل میدان میں ریت کے شفاف ذرات ہوں، ان پر سورج کی تیز کرنیں پڑیں تو دور سے دیکھنے والے پیاسے کو یہ چمک پانی کی طرح نظر آتی ہے اور وہ اس کی طرف چل پڑتا ہے، لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو پانی کا نام ونشان نہیں ہوتا، اسی کو ’’سَراب‘‘ کہتے ہیں، قرآنِ کریم میںہے: ’’اور کافروں کے اعمال کی مثال چٹیل میدان میں سَراب کی سی ہے کہ پیاسا اُسے پانی گمان کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو وہاں کچھ نہیں پاتا‘‘، (النور:39) شاعر نے کہا ہے:
ہستی اپنی حَباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
’’سبز باغ‘‘ کے عنوان سے ہم نے پاکستان پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور تحریکِ لبیک پاکستان کے انتخابی منشور پر بات کی تھی، اب مسلم لیگ ن کا تفصیلی منشور بھی آچکا ہے۔ حسین اور پرکشش وعدے یقینا دل کو لبھاتے ہیں، مگر اُن کی عملی تصویر اور تعبیر پیش نہیں کی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومت کی کامیابی عوام کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کو قرار دیاجاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں مقابلہ یوتھ کارڈ، خواتین کارڈ، مزدور کارڈ، کسان کارڈ، صحت کارڈ الغرض معاشرے کے ہر طبقے کے لیے اعانتی کارڈ کے اجراء میں ہے، لیکن اس سے جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم ایک ’’وظیفہ خور‘‘ قوم تیار کر رہے ہیں، اگر سب کو گھر بیٹھے سب ضرورتیں مل جائیں، تو اس سے اچھی بات کیا ہے، لیکن کسی منشور میں یہ واضح نہیں ہے کہ سخاوت کے اس سمندر کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے، داخلی اور خارجی قرضوں کا جو انبار ہماری قوم پر لدا ہوا ہے، اُس سے چھٹکارا کیسے ملے گا، آئندہ ہم قرضوں کی لَت سے نجات کیسے پائیں گے، سو یہ ’’ملین ڈالر‘‘ کا سوال ہے۔ سرِ دست تو دیوار پر یہ لکھا ہے: ’’جس جماعت کی بھی حکومت آئے، اُسے اولین فرصت میں آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی اداروں اور مہربان حکومتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا‘‘۔
مسلم لیگ ن کے منشور میں بعض آئینی ترمیمات کا عزم بھی شامل ہے، اُن میں سے ایک دستور کے آرٹیکل 62/63 میں ترمیم کر کے اُسے 1973 کے اصل آئین کے مطابق بنانا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں صادق وامین وغیرہ کے جو اضافے کیے گئے تھے، انہیں ختم کردیا جائے گا، کیونکہ اُن کے لیے کوئی لگی بندھی کسوٹی نہیں ہے، یہ اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ میں موم کی ناک ہے، وہ جسے چاہیں صادق وامین اور جسے چاہیںکاذب وخائن قرار دیں، ماضی میں اس کے مظاہر ہم دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ اب عدلیہ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے: ’’ہم کون ہوتے ہیں کسی کی صداقت وامانت کا فیصلہ کرنے والے‘‘، انہوں نے دوسری ترمیم یہ تجویز کی ہے کہ صدر پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے پاس کیے ہوئے بعض قوانین کو روکے رکھا، بعض کو واپس پارلیمنٹ بھیج دیا، یہ دراصل تاخیری حربے تھے، کیونکہ اُس وقت پارلیمنٹ میں اتحادی حکومت تھی اور صدرِ مملکت کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔ صدر، چیئرمین سینیٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر کا منصب غیر جانبداری کا تقاضا کرتا ہے، لیکن ہم من حیثُ القوم اپنی بشری کمزوریوں کی وجہ سے اس معیار پر پورے نہیں اتر پاتے، بلکہ اپنی سیاسی جماعت کے زیرِ اثر رہتے ہیں اور آلۂ کارکے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اس سے منصِب بے توقیر ہوجاتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے دعویٰ کیا ہے: اُن کا منشور حقیقت پسندی پر مبنی ہے اور وہ اس پر کامیابی سے عمل کرسکتے ہیں، لیکن اُن کے منشور میں بھی آمدو خرچ میں توازن کا کوئی حل نہیں دیا گیا ہے، اسی طرح نیب کے ادارے کو ختم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے، لیکن اس کے لیے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت چاہیے۔
دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے: عوام کو مشکل وقت کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جائے، ملک وقوم کے سر پر قرضوں کا جو انبار لدا ہے، اُس سے آگاہ کیا جائے، قرضوں کا یہ انبار عنقریب ہماری جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی آمدنی کے برابر ہوجائے گا۔ ہم مالی وسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے قومی اثاثوں کو گروی رکھنے اور اُن پر صکوک جاری کرنے کی سوچ رہے ہیں، ان صکوک پر جو اصل رقم مع نفع ادا کرنا ہوگی، وہ کہاں سے آئے گی، کیونکہ ان جامد اثاثوں مثلاً: موٹرویز، ائرپورٹس وغیرہ سے اتنی آمدنی حاصل نہیں ہوتی کہ یہ ساری ادائیگیاں کی جاسکیں، ان ادائیگیوں کی ضامن بھی وفاقی حکومت ہوگی، جو پہلے ہی بے انتہا مالی دبائو کا شکار ہے۔ بعض غیر منافع بخش قومی ادارے مثلاً ریلوے، پی آئی اے، ائرپورٹس، پاکستان اسٹیل وغیرہ کو فروخت کرنے کا بھی پروگرام تیار کیا جارہا ہے، اس کی بابت بھی حقیقی صورتِ حال یہ ہے: جو جماعت اقتدار میں ہوتی ہے، وہ ان قومی اثاثوں کو بیچنا چاہتی ہے، لیکن جو جماعتیں حزبِ اختلاف میں ہوتی ہیں، وہ اس نجکاری کی مخالفت کرتی ہیں اور جب حکمراں جماعت دوسری چھوٹی جماعتوں کی بیساکھیوں یا سادہ اکثریت پر کھڑی ہو، تو وہ دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکتی، لہٰذا اداروں کی نجکاری نہیں ہوپاتی، کیونکہ ان اداروں کے ملازمین بھی سدِّ راہ بنتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں، کیونکہ اُنہیں روزگار سے محروم ہونے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس کا تقاضا یہ ہے: ہم اپنی زرعی اجناس میں خود کفیل ہوں، بلکہ اضافی پیداوار حاصل کرکے زرِ مبادلہ بھی کما سکیں، جبکہ حال یہ ہے: ہمیں بنیادی زرعی اجناس گندم، دالیں وغیرہ بھی دوسرے ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہیں، اسی طرح ہم خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہیں، اس لیے اس کی درآمد پر بھی بھاری زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ چند سال سے ہم موسمی تبدیلیوں کی زَد میں ہیں، آج کل بھی خشک سالی چل رہی ہے اور کبھی غیر متوقع طور پر معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، زمینوں اور سڑکوں کا کٹائو ہوتا ہے، اربوں روپے کے مصارف سے تعمیر کردہ شہری ضروریات کا ڈھانچہ زمیں بوس ہوجاتا ہے۔
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ بارانی اور سیلابی علاقوں میں پانی کے ذخیروں کے لیے ڈیم بنائے جائیں اور جہاں ممکن ہو، اُن سے پن بجلی بھی پیدا کی جائے، جو بجلی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں سستی ہے اور اس کی فراہمی کے لیے مقامی آبادی کو ترجیح دی جائے، اس طرح اس جمع شدہ پانی کے سبب غیر متوقع سیلابوں میں کمی آئے گی، زمینوں، سڑکوں اور پلوں کا کٹائو نہیں ہوگا، جنگلات کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور یہ پانی انسانی، حیوانی، زرعی اور صنعتی ضروریات کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا، کیونکہ عالمی ماہرین کے مطابق مستقبل میں دنیا بالخصوص ہمارے خطے کو پانی
کی قلّت کا سامنا پڑسکتا ہے اور موسمی تبدیلیوں کے سبب برفانی تودے معمول سے زیادہ پگھلنے سے بڑے پیمانے پر سیلاب بھی آسکتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے گردشی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ہے، ہماری معیشت اب اس کو سہارنے کے قابل نہیں ہے، پس لازم ہے کہ ’’پاور پروجیکٹس‘‘ کے ساتھ معاہدوں پر نظرِ ثانی کی جائے، ان کے ساتھ از سرِ نو کاروباری معاملات طے کیے جائیں یا اُن سے معاہدے ختم کیے جائیں، ورنہ آکاس بیل کی طرح یہ ہماری معیشت کی رگوں سے سارا خون کشید کرلیں گے۔
ہمیں صحیح اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن اندازہ ہے کہ گردشی قرضے پونے تین ہزار ارب کے لگ بھگ ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے 1988-90 کے درمیان بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاور پروجیکٹ کے معاہدے ہوئے تھے، اُس وقت کے لحاظ سے یہ مہنگے معاہدے تھے، نیز حکومتِ پاکستان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان بجلی گھروں کی کل پیداواری استعداد کے مطابق واجبات ادا کرنے کی پابند ہوگی، خواہ ان کی پیداوار پوری استعداد کے مطابق ہو یا نہ ہو، اگر حکومت پوری بجلی نہ بھی خریدے، تب بھی وہ قیمت ادا کرنے کی پابند ہے۔ یہ معاہدے غیر منصفانہ تھے، ان کا کوئی حل پارلیمنٹ، عدلیہ اور قانونِ بین الاقوام کے ماہرین کو مل کر نکالنا چاہیے، لیکن اس کام کے لیے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ ڈیڑھ عشرے حکومتیں مستحکم نہیں رہیں۔
المیہ یہ ہے: حکومت کو عوام پر اور عوام کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے، اس لیے معیشت کو دستاویزی بنانے کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں، مزید یہ کہ پارلیمنٹ میں اکثریت جاگیرداروں کی ہوتی ہے اور وہ ٹیکس ادا کرنے کے لیے کسی بھی صورت آمادہ نہیں ہوتے، جب زرعی آمدنی پر ٹیکس کی بات کی جائے تو وہ بجلی، ڈیزل، کھاد، بیج، آبیانہ، ٹریکٹر اور دیگر چیزوں کی منہگائی کا واویلا شروع کردیتے ہیں، حالانکہ ٹیکس تو مصارف نکالنے کے بعد خالص بچت پر ہوتا ہے، اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکالنا پڑے گا۔
وہ سیاسی جماعتیں جو لوگوں سے دو سو یا تین سو یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کے وعدے کر رہی ہیں، اُن کا کہنا ہے: ہم سولر سسٹم لگائیں گے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے، جبکہ بجٹ تو لگا بندھا ہوتا ہے اور جن لوگوں نے شہروں میں سولر سسٹم لگائے ہیں، اُن کے ساتھ بھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے معاملات شفاف نہیں ہیں، نیز بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا بھی وعدہ کیا جارہا ہے، لیکن یہ بھاری پتھر بھی اٹھانا بالآخر دشوار ہوتا ہے، ہم اپنے قومی مزاج کے اعتبار سے کارپوریٹ کلچر سے ذہنی مطابقت نہیں رکھتے۔