بنی اسرائیل سے بنی اسرائیل تک

403

اگرکسی ایک انسانی گروہ نے ان دنوں دنیا بھر کی تمام زبانوں کی تمام لغات کو بہادری‘ شجاعت‘ دلیری اور استقامت کے نئے لفظ اور نئے معنی دیے ہیں تو وہ حماس کے جانباز ہیں۔ اگر ان لغات سے شجاعت‘ بہادری‘ دلیری‘ استقامت اور ان کے تمام مترادف الفاظ نکال کر ایک لفظ ’’حماس‘‘ لکھ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ بہادری کی وہ مثال ہے جو جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے اس دور میں کم وسائل اور خود ساز ہتھیاروں کے ذریعے دنیا کی مہیب ترین جنگی طاقتوں کے سامنے قائم کی گئی ہے۔ وہ دنیا جو اسرائیل کو ناقابل ِ تسخیر جانتی تھی‘ وہ ہمسایہ ممالک جن کی دْمیں اسرائیل کی دہشت سے ان کی ٹانگوں کے بیچ میں گھسی رہتی ہیں‘ وہ مرعوب حکمران ‘ جو کسی بھی سنگین ترین انسانی جرم پر اسرائیل کے خلاف ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے اور جو با حمیت عوام کے سروں پر مسلط کیے گئے ہیں۔ وہ بادشاہ اور شہزادے جو اسرائیل کے نام سے تھراتے ہیں اور جن کی ذاتی دولت اپنے آقائوں کی ذاتی دولت سے بھی سیکڑوں گنا زیادہ ہے۔ وہ تہذیب اور تمدن کے علمبردار جو ایک جانور کیچڑ میں پھنس جانے پر ہزار آنسو بہایا کرتے ہیں اور جو دنیا کے سفاک ترین ملک کی طرف سے دس ہزار بچوں کے قتل پر آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ وہ دنیا جو جمہوریت کو کبھی اوتار اور کبھی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا کرتی ہے اور جس کے دوغلے معیاروں نے دنیا میں فساد مچایا ہوا ہے۔ یہ سب ششدر ہیں۔ سات اکتوبر کو جب حماس نے ساری دنیا میں ایک بار پھر فلسطین کا مسئلہ پوری اہمیت کے ساتھ اجاگر کردیا تھا‘ اور اسرائیل نے اعلان کردیا تھا کہ وہ حماس کا نام و نشان مٹا کر دم لے گا‘ ان سب کا خیال تھا کہ اب چند دنوں میں حماس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پوری دنیا یقین کیے بیٹھی تھی کہ یہ مٹھی بھر لوگ جلد ختم ہوجائیں گے‘ جنہیں دنیا میں ان لوگوں نے دہشت گرد کا نام دیا ہوا ہے جو خود انسانی تاریخ کے بد ترین دہشت گرد ہیں۔ آج سے ایک دو نسل پہلے‘ لگ بھگ اسی برس پیش تر جب ہٹلر کی دہشت گردی فرانس‘ ہالینڈ‘ یونان‘ البانیہ‘ آسٹریا‘ بلجیم‘ ہنگری‘ ناروے‘ یوگو سلاویہ‘ چیکو سلواکیہ سمیت یورپ کے بہت سے ممالک پر قابض ہوچکی تھی اور ان ممالک کے لوگ آزادی کے لیے گوریلا جنگیں لڑ رہے تھے اور جب خود انگلینڈ کو اپنی جان بچانا مشکل ہورہی تھی تو یہ لڑنے والے خود کو حریت پسند کہا کرتے تھے۔ آج جب فلسطینی اسرائیلی درندگی کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں تو وہی تمام یورپی ملک انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ دہشت گرد کا لیبل لگا دینے پر بھی کوئی قوم اپنی بقا اور غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے قربانی پر ڈٹ جائے تو بالآخر ظالم کو گھٹنے ٹیک کر اس سے بات کرنی پڑتی ہے۔ افغان مجاہدین کی مثال سامنے ہے۔

کیا شک ہے کہ حماس فتح مند ہے اور اسرائیل شکست خوردہ۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے کیسا نکتہ بیان کیا کہ تیس ہزار فلسطینی شہید ہوچکے جن میں ایک تہائی نومولود اور کم سن بچے ہیں۔ خوفناک بمباریوں‘ ٹینکوں‘ غذائی ناکہ بندی‘ اسپتال‘ اسکولوں کے انہدام کے باوجود کسی ایک شخص کی زبان سے یہ نہیں سنا گیا کہ حماس کی وجہ سے ہم ان مصیبتوں میں گرفتار ہیں۔ اسرائیل نے کہا تو یہ تھا کہ فلسطینی حماس کے تیس ہزار جنگجوئوں کے ہاتھوں یرغمالی ہیں‘ ہم ان سے انہیں چھڑانا چاہتے ہیں‘ لیکن کوئی ایک شخص بھی حماس کے خلاف اٹھا؟ کوئی جلسہ‘ کوئی جلوس‘ کوئی مظاہرہ‘ کوئی ریلی حماس کے خلاف نکالی گئی؟ کسی کی زبان سے حماس کی برائی سنی گئی؟ وجہ یہ کہ سب جانتے ہیں کہ جنگجو انہی کے شوہر‘ بیٹے‘ باپ اور بھائی ہیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف کوئی دن نہیں جاتا کہ اسرائیل میں حکومت کے خلاف مظاہرے‘ جلوس نہ ہو رہے ہوں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ صف ِ ماتم نہ بچھتی ہو۔ ابھی کل بڑے بڑے سابق عہدیداروں نے ایک خط صدر کو لکھا ہے جس میں نیتن یاہو کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کو دیکھیں تو اسرائیلی فوجی اور شہری نقصان فلسطینیوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ تو پھر یہ صفِ ماتم روز کیوں بچھ رہی ہے؟ روز یہ صف بڑی سے بڑی کیوں ہورہی ہے؟

21جنوری 2024ء یعنی حالیہ جنگ کے ایک سو نویں دن کے سورج نے اسرائیل میں ایک ایسی صفِ ماتم بچھائی جو اَب تک کی سب سے بڑی تھی۔ سرکاری طور پر اعتراف کیا گیا اور دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا کے ساتھ اسرائیلی اخبارات نے بھی خبر دی کہ قسام بریگیڈ نے 24 اسرائیلی فوجی ہلاک کردیے ہیں۔ اسرائیلی اپنی ہلاکتوں کا اعتراف نہیں کرتے لیکن اْن کے مطابق بھی یہ ایک دن میں ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ قسام بریگیڈ نے بھی وہ ویڈیوز جاری کیں جن میں یہ کارروائی دکھائی گئی ہے۔ مغازی مہاجر کیمپ جو وسطی غزہ کا علاقہ ہے‘ وہاں یہ اسرائیلی مارے گئے۔ یہ اسرائیلی 261 بریگیڈ کے فوجی تھے۔ یہ فوجی دو عمارتوں کو منہدم کرنے کے لیے بارود ی سرنگیں بچھا چکے تھے‘ 19 فوجی ان عمارتوں میں تھے اور دو قریب کھڑے ٹینک میں ان کی حفاظت کر رہے تھے کہ حماس کے مجاہدین نے ان عمارتوں کو آر پی جی سے نشانہ بنایا۔ بارودی سرنگیں اْڑ گئیں‘ عمارتیں مسمار ہوگئیں اور تمام فوجی ہلاک ہوگئے۔ دوسرے آر پی جی سے اْس ٹینک کو نشانہ بنایا گیا اور وہ دو فوجی بھی ہلاک ہوگئے۔ اس سے پہلے تین فوجیوں کی جنوبی غزہ میں ہلاکتوں کا بھی سرکاری اعتراف کیا جاچکا تھا۔ ان فوجیوں کے نام بھی جاری کیے گئے ہیں اور تحقیقی کارروائی بھی شروع کردی گئی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ کہ شمالی غزہ اور وسطی غزہ‘ جہاں سے فلسطینی آبادی نکالی جاچکی ہے اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ وہاں سے حماس کے لوگ ختم کیے جاچکے ہیں اسرائیلیوں کے لیے جائے امان نہیں۔ یعنی اس دن خود ان کے دعوئوں کو بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔

عالمی عدالت ِ انصاف نے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ کچھ الفاظ ابہام پیدا کر رہے ہیں لیکن اگر یہ واضح بھی ہو تب بھی اس سے کیا ہوگا؟ کسی بھی فیصلے کے نفاذ کا اختیار تو عدالت کے پاس ہے ہی نہیں۔ روس نے بھی تو یوکرائن کے معاملے پر عدالت کا حکم ٹھکرادیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اگر انسانوں اور عالمی عدالتوں سے انصاف مل سکتا تو دنیا یوں بے انصافی سے بھری نہ ہوتی۔ انسان انصاف کیا کرتے تو آج اسرائیل کا وجود ہی کیوں ہوتا۔ انسان انصاف کیا کرتے تو پیغمبروں کی اہانت کرنا‘ اربوں لوگوں کی دل آزاری کرنا آزادی اظہار کیوں کہلاتا؟ ایک تاریخی حقیقت ہولو کاسٹ پر بات کرنا جرم کیوں ہوتا؟ لیکن فلسطین کے لوگ 76سال انصاف مانگتے رہے ہیں اور نسل در نسل انہیں بے انصافی ہی کے تحفے ملے ہیں۔ اب وہ ہر ملک ہر قوم ہر طاقت ہر انصاف سے مایوس ہیں اور اب ان کا فیصلہ یہی ہے کہ یا وہ ختم ہوجائیں گے یا ختم کردیں گے۔ حماس کے جانباز جنہوں نے اپنی جانوں کے چراغ اپنی ہتھیلیوں پر جلائے ہوئے ہیں‘ وہ نہ کسی ملک کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ نہ کسی دنیاوی عدالت کی طرف۔ انہوں نے سب سے بڑی اس عدالت میں اپنا مقدمہ دائر کردیا ہے جو دنیاوی نہیں۔ جہاں نا انصافی ہوتی ہی نہیں۔ اسی عدالت نے مصریوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نجات دی تھی۔ اور اب وہی عدالت فلسطینیوں کو بنی اسرائیل کے شکنجوں سے نجات دے گی۔ ربِ واحد پر یقین رکھنے والے بنی اسرائیل‘ جو اَب خود فرعون ہیں‘ ربِ واحد کے یہ الفاظ یاد رکھیں۔

’’اور جو لوگ اس زمین (شام) کے مشرق و مغرب میں کمزور ترین سمجھے جاتے تھے‘ جسے ہم نے برکت دی ہے‘ انہیں ہم نے وارث کردیا اور تیرے ربّ کا نیک وعدہ بنی اسرائیل سے پورا ہوگیا۔ اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا۔ اور ہم نے برباد کردیا جو کچھ فرعون اور اس کی قوم بناتے تھے اور جو کچھ اونچا پھیلاتے تھے‘‘۔ (الاعراف)
(بشکریہ: دنیا نیوز)