فعال ہمسایوں میں گھرا غیر فعال پاکستان

505

ایران اور پاکستان کے درمیان حملوں اور جوابی حملوں کا میچ دوستانہ تھا یا نہیں مگر دونوں ملکوں نے تاحال اس کو دوستانہ رکھ کر ایک دانشمندانہ قدم اُٹھایا ہے۔ ابھی اس واقعے کی تلخیاں موجود ہی تھیں کہ ایران میں پاکستان کے نو مزدوروں کے قتل کا واقعہ رونما ہوگیا۔ جس میں مزدروں کو ایک کمرے میں جمع کرکے سر میں گولیاں ماری گئیں۔ ان مزدوروں کا تعلق پنجاب سے تھا اور یوں اسے ایک مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے کے بعد ایران اور پاکستان میں جاری غلط فہمیوں میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ماحول اس وقت پیدا ہونے لگا ہے جب غزہ کی جنگ پوری طرح پھیل رہی ہے اور اب اس جنگ کے دو فریق اسرائیل اور حماس نہیں رہے بلکہ گردو پیش کے ممالک بھی اس جنگ میں واضح لائن لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ حماس نے اسرائیل کو غزہ کے اندر بھول بھلیوں میں اُلجھا دیا ہے تو یمن کے حوثیوں نے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے اسرائیل اور اس کے ہم نوائوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جس سے بحر احمر کی اہمیت اور حساسیت بڑھتی جا رہی ہے۔ حوثیوں کے حملوں نے اسرائیل کی کمک کے حامل اور عام تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہازوں کو راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایسے میں امریکا نے حوثیوں کے خلاف پاکستان سے فوجی مدد مانگ لی ہے۔ حوثیوں کے خلاف مدد کا مطلب صرف ایک ملیشیا کے خلاف مدد نہیں بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان فلسطین مخالف اتحاد کا حصہ بنے گا۔ حوثیوں کی ماضی کی سرگرمیاں کیا رہی ہیں اور ان کی صف بندی کس انداز کی ہے قطع نظر اس بات کے اس وقت حوثیوں نے غزہ کی لڑائی کو بیرونی جہت دے کر پھیلا دیا ہے۔

ایران اس جنگ میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے اس کے تمام علاقائی اتحادی اور پراکسی غزہ کی حمایت میں سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں یوکرین کی جنگ کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر یقین اور غیر یقینی کا دوراہا درپیش ہے۔ پاکستان یوکرین جنگ کی طرح مغربی اتحاد کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا غیر جانبداری کی پالیسی اپناتا ہے۔ مغربی اتحادیوں نے پاکستان کے لیے کبھی غیر جانبداری کا آپشن رکھا ہی نہیں۔ جب بھی ایسا کوئی مرحلہ آتا ہے تو مغرب سے پاکستان کے لیے ایک ہی آپشن ہوتا ہے آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں؟ اس محدود اسپیس میں پاکستان کے پاس خود سپردگی کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں رہا۔ ابھی جنرل مشرف کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کو نیم شب کو آنے والی ایسی ہی ٹیلی فون کال کی نوحہ گری اور اثرات جاری تھے کہ یوکرین کی جنگ میں روسی مذمت کا مرحلہ آن پہنچا اور اس کے نتیجے میں پاکستان ایک ایسے سیاسی بحران کی زد میں آگیا جس میں سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی بلکہ پاکستان کا بحران در بحران کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے ابھی یہ بحران قائم ہی تھا کہ غزہ کی جنگ کا محاذ کھل گیا اور اس پھیلتی ہوئی جنگ میں ایک بار پھر پاکستان کا کندھا درکار ہے۔ اب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ماگریٹ میکلائو نے کہا ہے کہ پاکستان نیوی انٹرنیشنل کمبائن میری ٹائم فورس کی اہم رکن ہے۔ پاکستان سے بحرہ احمر کی کشیدگی پر رابطے میں ہیں۔ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کو امریکا اور برطانیہ کی نئی ٹاسک فورس کے تحت قائم خوش حال محافظ آپریشن کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ سیکڑوں مال بردار بحری جہازافریقا کے جنوبی کنارے ’’کیپ آف گڈ ہوپ‘‘ کا متبادل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق عالمی تجارت کا بارہ فی صد مال سالانہ بحر احمر سے گزرتا ہے جس کی مالیت ایک کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اب حوثیوں کے حملوں کے باعث بہت سی شپنگ کمپنیوں نے بحر احمر اور نہر سویز سے گزرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ کنٹینر اور جہاز جن میں کئی تین سو میٹر تک لمبے ہیں اب متبادل راستے کے طور پر یورپ جانے کے لیے براعظم افریقا کے گرد سے گزر رہے ہیں جو بحر احمر کی نسبت زیادہ طویل ہے۔ یہ تجارت کو لاگت اور وقت ہر دو لحاظ سے مہنگا اور طویل بنا رہا ہے۔ اس سے مال بردار جہازوں کے دس سے بارہ دن اضافی لگ رہے ہیں اور لاگت بھی دس لاکھ ڈالر اضافی پڑ رہی ہے۔ اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے کارروائیاں شروع کر دی ہیں اور اس عمل میں پاکستان سے تعاون طلب کیا جانے لگا ہے۔ اس ماحول میں پاکستان اور ایران کے درمیان پراسرار انداز سے کشیدگی بڑھانے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے اپنے حالات یہ ہیں کہ ایک تو ملک میں سیاسی بے چینی عروج پر ہے اوپر سے چین، ایران، افغانستان اور بھارت کی دوڑتی بھاگتی معیشتوں کے درمیان پاکستان کی معیشت کی رگ جاں بس قائم ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ سسٹم نہیں بلکہ ایک نگران سیٹ اپ ہے اور انتخابات بھی اس انداز سے ہونے جا رہے ہیں کہ بے رنگ وبو قسم کا نگران طرز کا سسٹم ہی قائم ہونے کے انتظام کیا جا رہا ہے۔ فعال ملکوں کی معیشتوں میں پاکستان ایک غیر فعال معیشت بن چکا ہے اور اس پر مستزاد سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو بین الاقوامی فورموں پر سیلفیاں بنوانے سے فرصت نہیں ملی اور بھارت سے تین تو کیا تین سو جنگیں لڑنے کا دعویٰ اتنے اعتماد سے کرتے ہیں کہ سلطان راہی کی فلم کے ڈائیلاگ کا گمان گزرتا ہے۔ کسی دور میں دوتہائی کے بھاری مینڈیٹ کے حامل میاں نوازشریف کا اقتدار کے سنگھاسن پر جس انداز سے بٹھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں تو وہ بھی انوار الحق کاکڑ کی نئے نام سے واپسی ہے۔ ایک ایٹمی طاقت اور مضبوط فوج کا حامل ملک اپنی تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی اس قدر غیر متعلق رہا ہو۔ بھارت کو دیکھیں تو اس پر دھن برس رہا ہے۔ ہر دبائو کو کھلا آلہ ٔ کار بنے بغیر قبول بھی کرتا ہے اور بے اثر بھی بناتا ہے۔ بھارت کے پہلو میں بائیس کروڑ آبادی کی حامل ملک ایٹمی طاقت پاکستان غیر فعالیت کا شکار ہے اور اس پر حالات کا ذمہ دار کبھی نوجوانوں کو تو کبھی سوشل میڈیا کو قرار دیا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کا قصور صرف یہ ہے کہ انہیں عصری شعور آگیا ہے اور وہ اپنی سیاہ بختی کی وجہ اور جواز پوچھ رہی ہے۔ آخر جس معاشرے کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن کر کم از کم ڈیٹرنس کے اصول کے تحت بھارت کے خوف سے آزاد ہوجائے گا اور اس کے بعد اپنا سرمایہ اور وسائل انسانوں کی فلاح پر خرچ کرے گا اسے ایک موقع پر اچانک یہ بتادیا جائے کہ ٹینک تو موجود ہیں مگر ان کو چلانے کے لیے پیسہ نہیں اور ایٹمی دھماکوں کے ذریعے دفاع کے بکھیڑوں سے اعلانیہ آزاد ہونے کے تیس سال بعد بتا دیا جائے کہ اس کی معیشت تو امریکا کے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے تو اس نسل کا پہلا تاثر کیا ہونا چاہیے؟ اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے کچھ نہیں کیونکہ ابھی نوجوانوں نے شعور اور آگہی کی راہوں میں پہلے پہلے قدم رکھنا سیکھے ہیں۔