صحرا میں سراج الحق کی اذان

902

حیدرآباد کا موسم ٹھنڈا ہے اور الیکشن کا ماحول بالکل ہی ٹھنڈا۔ ویسے جھرلو پھیرنے اور ’’مثبت نتائج‘‘ کے اعلان کے خواہش مندوں کو ایسا ہی ماحول مطلوب ہوتا ہے۔ نہ کسی کے پوسٹر ہیں نہ بینرز۔ وال چاکنگ پابندی کے باوجود ہمیشہ ہوتی ہے سو اس بار بھی ہورہی ہے لیکن بہت کم۔ ایسا لگتا ہے نہ سیاسی پارٹیاں پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہیں نہ امیدوار۔ اکا دکا امیدواروں نے الیکشن آفس کھولے ہیں، اور اس سے بھی کم کارنر میٹنگز ہوئی ہیں۔ اس کا بڑا سبب تو بے یقینی ہے، الیکشن کمیشن کے اعلانات اور عدالت عظمیٰ کی یقین دہانیوں کے باوجود لوگوں کو یقین نہیں ہے کہ انتخاب مقررہ وقت پر ہوں گے۔
حیدرآباد کی سیاست پر 1987 سے ایم کیو ایم کا قبضہ ہے جب ایم کیو ایم نے حق پرست گروپ کے نام سے مہاجر سیاست کے ذریعے روایتی سیاست کی بساط لپیٹ دی تھی۔ 1988 اور 1990 کے قومی و صوبائی انتخابات میں واضح کامیابی کے بعد 1993 میں قومی اسمبلی کے انتخاب کے بائیکاٹ اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ ہو یا 1997، 2002۔ 2008، 2013 اور 2018 کے انتخابات، ایم کیو ایم کو حیدرآباد میں کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 2002 میں ایم ایم اے نے ایم کیو ایم سے ایک قومی اور ایک صوبائی نشست چھین کر اور ایک قومی اور تین صوبائی نشستوں پر دوسرے نمبر پر آکر خطرے کی گھنٹی بجائی تھی لیکن پھر ایم ایم اے خود انتشار کا شکار ہو کر تحلیل ہوگئی۔ 2018 میں پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم سے ایک صوبائی نشست جیت لی لیکن بقیہ تمام نشستوں پر تحریک انصاف ہی مقابلے پر تھی۔ تب تحریک انصاف کے امیدواروں کی ذاتی سیاسی حیثیت صفر ہونے کے باوجود انہیں عمران خان کے نام کا ووٹ ملا تھا۔ صورتحال آج بھی کچھ مختلف نہیں ہے لیکن، اب تحریک انصاف سے ’’لاڈ پیار‘‘ کرنے والی طاقتیں کسی ’’اور‘‘ پر مہربان ہوچکی ہیں۔ تحریک انصاف نے اس ’’حرکت‘‘ کا نہ صرف برا مانا ہے، بلکہ اس عمل کی مذمت و مزاحمت کی ہے جس کا نتیجہ بحیثیت جماعت، انتخابی نشان سے محرومی ہے۔ ان حالات میں ایم کیو ایم کو کامیابی کا کھلا راستہ ملنا چاہیے تھا لیکن، ناقابل شکست ایم کیو ایم، جو آفاق احمد کی غداری اور مصطفی کمال کی بے وفائی سے بخوبی نمٹ چکی تھی، الطاف حسین کی مسلسل بے احتیاطی اور بدزبانی کا بوجھ برداشت نہ کرسکی اور حال سے بے حال ہوتے ہوئے، شکست و ریخت سے دوچار ہوتی چلی گئی۔ مہاجر ووٹر کی ایک بڑی تعداد آج بھی الطاف حسین کے اعجاز مسیحائی سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب کہ الطاف حسین کا انتخابی نشان پتنگ ان سے بے وفائی کرنے والوں کو الاٹ کردیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن منقار زیر پر ہے۔ مقام عبرت ہے کہ جس پتنگ کو الطاف حسین نے مہاجروں میں معتبر بنایا تھا آج وہ خود اسے غداروں، ضمیر فروشوں اور بے وفاؤں کا نشان قرار دیتے ہوئے اس پر خط تنسیخ پھیر کر انتخاب کے دن اسے مسترد کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو، قومی انتخابات سے قبل تمام دھڑوں کی یک جائی کے لیے خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور مصطفی کمال کو برابر کا مقام دینا پڑا۔ اس کے باوجود تینوں دھڑوں کے مشترکہ امیدواروں کا اعلان ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ حیدرآباد میں پی ٹی آئی کے جمشید شیخ اور کیو حاکم جنہوں نے گزشتہ انتخاب میں مخالفین کو سخت مزاحمت سے دوچار کیا تھا انتخابی دوڑ سے باہر ہیں، ان حالات میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم نہ چلنا تو قابل فہم ہے۔ پیپلزپارٹی نیم دلی کے ساتھ میدان میں موجود ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم میں حسب سابق منافقانہ اتحاد ہوچکا۔ ایم کیو ایم وہ کھلے بازوؤں والی حسینہ ہے جو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، تحریک انصاف اور پی ڈی ایم سے ہم آغوش ہو چکی لیکن اسے اب تک ’’سچا پیار‘‘ نہیں ملا۔
اس پراسرار سنّاٹے میں جماعت اسلامی حیدرآباد نے اعلان کیا کہ اب حیدرآباد خاموش نہیں رہے گا۔ اس خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے جماعت اسلامی نے فرنٹ فٹ پر آکر جارحانہ اننگز کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ لطیف آباد کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 219 پر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کو جو نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں، میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لطیف آباد کی اس نشست پر ہر چند جماعت کا قبضہ نہیں رہا لیکن دعویٰ بہت پرانا ہے۔ یہاں سے 1977 میں میاں محمد شوکت ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں جب کہ 1970 میں مولانا وصی مظہر ندوی (جے یو پی کے مقابل)، 1985 میں میاں محمد شوکت (مسلم لیگ کے مقابل)، 2002 میں مشتاق احمد خان (ایم کیو ایم کے مقابل) اور 2013 میں شیخ شوکت علی (ایم کیو ایم کے مقابل) دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
ڈاکٹر معراج الہدیٰ کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی ذیلی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جواں سال ڈاکٹر سیف الرحمن اور آفاق نصر موجود ہیں۔ ڈاکٹر سیف الرحمن 2001 میں اسی علاقے سے بلدیاتی چیئرمین رہے ہیں، جب کہ وہ حال ہی میں الخدمت حیدرآباد کی صدارت سے فارغ ہوئے ہیں۔ آفاق نصر حال ہی میں اسی علاقے سے یوسی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ این اے 218 سے قومی اسمبلی کے امیدوار سردار زبیر احمد سولنگی اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ این اے 220 سے قومی اسمبلی کے امیدوار حافظ طاہر مجید جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر رہ چکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے امیدوار ظہیر شیخ اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم اور جماعت اسلامی حیدرآباد کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار حافظ عرفان قائم خانی اسلامی جمعیت طلبہ حیدرآباد کے ناظم رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ جماعت اسلامی یوتھ حیدرآباد کے صدر ہیں۔ امیر جماعت اسلامی حیدرآباد عقیل احمد خان نے اپنی اس تعلیم یافتہ، تجربہ کار، باصلاحیت اور متحرک ٹیم پر اعتماد کرتے ہوئے، امیر جماعت اسلامی پاکستان سابق سینیٹر سراج الحق کو حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب کی دعوت دے دی۔ حیدرآباد میں جہاں ابھی تک کارنر میٹنگز بھی شروع نہیں ہوئیں یہ پہلا جلسہ عام تھا جو لطیف آباد کے قلب میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے سابق دفتر سے متصل سڑک پر اور میاں محمد شوکت کی سابق رہائش گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر منعقد ہوا۔ دو رویہ سڑک کے ایک طرف مردوں اور دوسری طرف خواتین کی نشستوں کا انتظام تھا۔ نماز جمعہ کے بعد شروع ہونے والا جلسہ نماز عصر کے وقفے کے ساتھ نماز مغرب تک جاری رہا۔ پرجوش اور پرعزم شرکاء جلسہ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سابق سینیٹر سراج الحق، امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی اور امیدوار قومی اسمبلی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے تفصیلی خطاب کیا جبکہ امیدواران قومی و صوبائی اسمبلی نے شہر کے سلگتے مسائل پر قراردادیں پیش کیں۔ دعا کے ساتھ جلسہ ختم ہوا تو فضا دیر تک اسلامی انقلاب کے نعروں سے گونجتی رہی۔ پرچم بردار نوجوان دیر تک حیدرآباد کی سڑکوں پر سبز پھریرے لہراتے رہے… تب مجھے کچھ کچھ یقین ہونے لگا کہ اب حیدرآباد خاموش نہیں رہے گا۔ عشاء سے قبل میں نے فون پر محترم سراج الحق کو جو اگلے پروگرام کے لیے ٹنڈو آدم کی جانب محو سفر تھے، جلسے کی کامیابی پر مبارکباد دی، اور جوابی مبارک باد وصول کی۔۔۔ جماعت اسلامی نے تو شہر سے محبت کا حق ادا کردیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ حیدرآباد کے رہنے والے اب بھی خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں یا نہیں۔