جماعت اسلامی اور انتخابات 2024(2)

755

دوسری قسط

جماعت اسلامی پاکستان بنتے ہی میدان عمل میں آگئی تھی اور مطالبہ نظام اسلامی کی ملک گیر تحریک کے ذریعے پاکستان کو اس کے مقصد سے ہم آہنگ رکھنا چاہتی تھی۔ اس تحریک کی قیادت سید مودودیؒ کررہے تھے، جبکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد ملک کے اقتدار پر قابض الحادی اور لبرل عناصر عالمی استعماری طاقتوں کے تعاون سے پاکستان کا حلیہ بدلنا چاہتے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھے۔ چنانچہ انہیں راستے سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، یہاں تک کہ انہیں سزائے موت بھی سنائی گئی لیکن سید مودودیؒ کے خلاف یہ سارے حربے ناکام رہے۔ جنرل ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر آخری وار کیا لیکن اسے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور عدالت نے جماعت اسلامی کو بحال کرکے فوجی آمر کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کے بعد تمام تر مخالفت کے باوجود کسی مرحلے پر بھی میدان نہیں چھوڑا نہ اپنے مشن سے دستبردار ہوئی۔ اس کا مشن ایک ہی تھا پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ۔ وہ پورے اخلاص اور دیانتداری سے یہ سمجھتی ہے کہ اسی نظام کے نفاذ میں عوام کی فلاح مضمر ہے، اسی نظام کے نفاذ سے غربت اور کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے، اسی نظام کے نفاذ سے ملک میں جمہوریت، ترقی اور خوشحالی آسکتی ہے اور اقوام عالم میں پاکستان ایک ممتاز مقام پر فائز ہوسکتا ہے۔ مگر جماعت اسلامی ابھی تک اپنا یہ مشن حاصل نہیں کرسکی تو وہ ناکام بھی نہیں ہوئی۔ اس نے سیکولر لامذہب قوتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کو ایک سیکولر اور لامذہب ملک بننے سے روک دیا ہے۔ جنرل ایوب خان پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نکالنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کو نوٹیفکیشن تیار کرنے کا حکم بھی دے دیا تھا لیکن جماعت اسلامی کے شدید ردعمل کے خوف سے وہ اس نوٹیفکیشن کو جاری کرنے سے باز رہے۔ وہ پاکستان کو سیکولر بنانے کا امریکی ایجنڈا لے کر برسراقتدار آئے تھے لیکن جماعت اسلامی اس طرح ان کے اعصاب پر سوار ہوئی کہ ناکامی ان کا مقدر بن گئی۔ ہم یہ بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے لیے نظریے کی جنگ تنہا جماعت اسلامی نے لڑی، قیام پاکستان سے پہلے بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی۔ قیام پاکستان سے پہلے مولانا مودودی نے مسئلہ قومیت پر جو کچھ لکھا وہ مسلم لیگ کے لیے مخالفین پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار ثابت ہوا جبکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد جماعت اسلامی کی طرف سے برپا کردہ مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک نے سیکولرسٹوں، الحادیوں اور لبرلوں کے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ اس وقت پاکستان میں متعدد مذہبی و دینی جماعتیں اور اسلام کا نام لینے والی سیاسی جماعتیں بھی موجود تھیں لیکن کسی کو جماعت اسلامی کا ساتھ دینے کی توفیق نہ ہوئی۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا مفتی محمود کا یہ بیان تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں۔ ظاہر ہے انہیں پاکستان میں نفاذ اسلام سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ دوسری مذہبی جماعتیں بھی غیر جانبدار رہیں۔

نفاذ اسلام کی تحریک کے دوران 1950 کے عشرے میں اچانک ختم نبوت کے نام پر قادیانیوں کے خلاف پرتشدد تحریک شروع کردی گئی۔ اس تحریک کا بظاہر مقصد نفاذ اسلام کی تحریک کو سبوتاژ کرنا اور مسلمانوں کو فرقہ وارانہ امور میں الجھانا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس تحریک کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے واضح کیا کہ جماعت اسلامی نفاذ اسلام کی جو تحریک چلا رہی ہے اس میں قادیانیت کا رد بھی موجود ہے، البتہ اس فتنے کا عملی انداز میں محاسبہ ہونا چاہیے۔ یہ کام بھی سید مودودی ہی کرسکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھ کر قادیانیت کی جڑ کاٹ دی۔ سید مودودی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی اور جماعت اسلامی کے دیگر قائدین کی گرفتاری تو نفاذ اسلام کی تحریک کے حوالے سے عمل میں آئی تھی لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سید مودودی کا مقدمہ ایک فوجی عدالت میں چلایا گیا اور انہیں ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ یہ روداد لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جماعت اسلامی نے پاکستان میں اسلام کو نظام زندگی کی حیثیت سے بالادست قوت منوانے کے لیے اپنے سینے پر کیسے کیسے زخم سہے ہیں۔

جماعت اسلامی صرف سیاست ہی نہیں کررہی، قیام پاکستان کے فوراً بعد سے عوام کی خدمت کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے۔ پاکستان بننے میں لٹے پٹے مہاجرین کا جو سیلاب آیا اسے سنبھالنے میں جماعت اسلامی کے کارکنوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس وقت وسائل کی بھی کمی تھی لیکن جماعت اسلامی نے مخیر حضرات کے تعاون سے اپنا شعبہ خدمت خلق فعال کردیا تھا جو ضرورت مندوں کی مدد کرتا تھا اور بیوائوں اور یتیموں، مسکینوں کو ماہانہ بنیاد پر راشن فراہم کرتا تھا۔ ہمیں یاد ہے اس زمانے میں ’’مٹھی آٹا اسکیم‘‘ شروع کی گئی تھی، اس اسکیم کے تحت جماعت اسلامی سے وابستہ یا غیر وابستہ گھروں میں اہل خانہ کی اجازت سے آٹے کا خالی کنستر رکھ دیا جاتا تھا اور خواتین سے کہا جاتا تھا کہ وہ آٹا گوندھتے وقت ایک مٹھی آٹا کنستر میں ڈال دیا کریں۔ سستا زمانہ تھا خواتین بھی جذبہ خدمت سے سرشار ہوا کرتی تھیں وہ آٹا گوندھتے وقت کئی کئی مٹھی کنستر میں ڈال دیتیں۔ ہفتے کے اندر کنستر بھر جاتا پھر یہ آٹا ایک جگہ جمع کرکے محلے کے نادار اور غریب خاندانوں میں راز داری سے تقسیم کردیا جاتا۔ اُس زمانے میں جماعت اسلامی کی موبائل ڈسپنسریوں کی بڑی دھوم تھی جو محلے محلے جا کر غریبوں کا علاج کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق کو اتنی وسعت دی کہ آج الخدمت فائونڈیشن کے نام سے عالمی سطح کی فلاحی تنظیم ملک کے طول و عرض میں کام کررہی ہے اور اس کے زیر انتظام بڑے بڑے اسپتال، ہزاروں شفا خانے، یتیم بچوں کی کفالت کے مراکز اور بیوائوں، مسکینوں اور ناداروں کی امداد کے ادارے کام کررہے ہیں۔ ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب یا کوئی آسمانی مصیبت نازل ہو، الخدمت کے رضا کار فوراً مصیبت زدگان کی امداد کے لیے حرکت میں آجاتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن کی سرگرمیاں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ عمل پوری دنیا کے مسلمانوں تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کوئی آفت آئے تو الخدمت فوراً ان کی مدد کے لیے پہنچتی ہے۔ اس وقت غزہ کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے تو الخدمت اربوں کا امدادی سامان اور اپنی طبی ٹیمیں لے کر وہاں پہنچ گئی ہے اور غزہ کے بے آسرا مسلمانوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ کیا کوئی اور سیاسی جماعت خدمت خلق کے شعبے میں اپنا کوئی ریکارڈ پیش کرسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا سب سیاسی جماعتیں اس حوالے سے تہی دامن ہیں۔ ان کے پاس خدمت خلق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، بس انتخابات کا سیزن آتا ہے تو عوام کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور انہیں سبز باغ دکھانے لگتی ہیں۔ ایسے میں عوام انہیں کیوں ووٹ دیں۔ (جاری ہے)